مکئی کی روٹی سے حیرت بھری آنکھ میں چین یاترا تک/تبصرہ نگار : ملیحہ سید

سفر نامہ : حیرت بھری آنکھ میں چین
لکھاری : سلمی اعوان
ناشر : بک کارنر جہلم

 کچھ ملاقاتیں مقدر میں لکھ دی جاتی ہیں اور ان اتفاقی ملاقاتوں کی یادیں دلچسپی سے بھرپور ہوا کرتی ہیں۔ کھارے پانیوں کے دیس میں مقیم عفت نوید شہد کی طرح میٹھی، سمندروں کی طرح گہری اور آسمان کی وسعتوں جیسی وسیع القلب ہیں۔ ایک طویل عرصے سے مجھے اپنی محبتوں کے حصار میں لیے ہوئے ہیں ۔ ٹیلی فونک رابطہ رہتا ہے اور اکثر ان کی دلچسپی سے بھرپور تحاریر مجبور کر دیتی ہیں کہ بجو کو کال کر کے داد دی جائے۔ ان کی آپ بیتی ” دیپ جلتے رہے” محبت اور رشتے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے والوں کے منہ پر بڑا شاندار طمانچہ ہے جسے صرف محسوس کرنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں ۔ایک دو مہینے پہلے انہوں نے میرے شہر لاہور آنے کا قصد کیا، جس کی اطلاع سوشل میڈیا کے کتابی چہرے پر ملی ۔ میں نے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا اور سب کچھ عفت نوید پر چھوڑ دیا ۔ اگلی  دن صبح اٹھی تو میرے موبائل پر ان کی کال تھی جو مس ہو گئی تھی اور واٹس ایپ پر وائس میسج کہ تم سے ملے بغیر لاہور یاترا ادھوری ہے۔ مجھے اسی میسج کی توقع تھی۔ رابطہ ہوا اور ان کی اس دن بے تحاشا مصروفیات کی وجہ سے اگلے دن نثر کی دیوی “سلمی اعوان” کے گھر ملاقات طے پائی۔

سلمی اعوان آپا کے ساتھ یہ میری دوسری یا شاید تیسری ملاقات ہونا تھی ، پہلی ملاقاتیں سرسری تھیں ، کسی نہ کسی تقریب میں سرراہ ہونے  والی ملاقاتیں جو شاید فریقین کو یاد بھی نہیں رہتیں، اگرچہ ان ملاقاتوں کی تصویری یادیں میری  فون گیلری میں محفوظ تھیں۔ سلمیٰ  اعوان کے گھر میں ان کے درشن ہونا ، ان کی صحبت میں بیٹھنا ، ان سے پیار سمیٹنا اور پھر ان کے ہاتھوں سے  بنی مکئی کی روٹی کھانے  جیسا اعزاز میرے حصّے میں لکھ دیا گیا تھا ۔ یہ ایک دلچسپی سے بھرپور ملاقات تھی جس میں امریکہ میں مقیم ادیبہ گوہر تاج بھی شامل تھیں ۔ اس ملاقات میں گپ شپ تھی، مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ تھا، خالص مکھن اور خالص جذبوں کی شیرینی لیے بیسن کا حلوہ تھا۔ عمر کے مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والی چار خواتین ، ہر لمحے کو ہم نے ناصرف محسوس کیا بلکہ جیا بھی اور ان سنہری یادوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ بھی کر لیا ۔ہم سب کی سادہ مزاجی اور شوخیاں عروج پر تھیں، مجھے لگا کہ زندگی میرے اندر نئے سرے سے کروٹیں لینا شروع ہو گئی ہے۔ منافع بخش لوگوں کے ساتھ چند لمحے بھی گزار لیں تو ہر طرف رنگ و بہار ہی محسوس ہوتی ہے اور میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا تھا ، میں چاہتی تھی کہ وقت ٹھہر جائے مگر ایسا ہو نہیں سکتا تھا ،انہیں آگے نکلنا تھا اور مجھے ضروری کام بھی نمٹانے تھے ۔

مگر میں نہیں جانتی تھی کہ اس دوپہر کا حصّہ بننے کے بعد کئی خوب صورت شامیں میری زیست کا حصہ بن جائیں گی، کیونکہ واپسی پر سلمی اعوان نے اپنا سفر نامہ ” حیرت بھری آنکھ میں چین” کا تحفہ مجھے دیا، جس کے مطالعہ نے چین کے طلسم کدہ کے حوالے سے مزید کئی دَر وا کر دئیے ۔ اگرچہ میں انہیں تب سے پڑھ رہی ہوں جب سے اچھے لکھنے والوں کو پڑھنا مجھ جیسے قلم نگری کے نومولودوں پر واجب ہو جاتا ہے، تو مجھ پر ان کی شخصیت کا ایک غیر محسوس سا رعب و جلال بھی تھا ،کہ اتنا بڑا نام ہے ۔ مگر ان کے گھر میں ہونے والی ملاقات میں انتہائی گھریلو حلیے میں چلتی پھرتی اس عورت نے یہ سمجھا دیا کہ لکھنا اگر عطاء و کرم ہے تو گرہستی ایک آرٹ ہے اور سلمیٰ  اعوان اس لیے بھی کرم یافتہ ہے کہ اس میں عاجزی و انکساری ہے ۔ اس لیے پہلے قبول ہوئی اور پھر مقبول ہو گئی اور کئیوں کی محبوب بھی۔

حیرت بھری آنکھ میں چین کو محض سفرنامہ کہنا غلط ہو گا ، کیونکہ سلمیٰ  اعوان نے اس میں چینی ثقافت اور تہذیب کے ان رنگوں سے ہمیں آشنائی دی ہے جن سے ہم ناواقف تھے ۔ میں ایک بچے کی طرح ان کی انگلی تھامے حیرت بھری آنکھ سے چینی طلسم کدہ کو ایک نئے زاویے سے دیکھ رہی ہوں، محسوس کر رہی ہوں بلکہ دورانِ مطالعہ کہیں کہیں یہ احساس اجاگر ہوا کہ میں بذات خود اس ماحول میں موجود ہوں اور یہی ایک لکھاری کی کامیابی ہے کہ وہ آپ کو اپنے ساتھ جوڑ لیتا ہے اور جوڑے رکھتا ہے۔ سفر نامہ چین کا تاریخی اور تہذیبی پس منظر اس کے حال کی عظمتوں کو بڑی چابک دستی سے بیان کر رہا ہے ۔میں چائنا سینما کی فین ہوں ، چینی فلاسفروں کو پڑھا ہے اور چینی کہانیوں کے تراجم پڑھ کر اس کلچر کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی ہوں مگر حیرت بھری آنکھ میں چین کے مطالعہ نے جہاں بہت سارے سوالات کے تسلی بخش جوابات دئیے وہاں یہ شوق بھی ہلکا ہلکا سا جگا دیا کہ وہاں جایا بھی جائے ۔ چینی شعرائے کرام کے کلام میں سے بہترین شاعری کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جن میں وانگ وی، لی پئے، چھوئے چن اور گاؤ لوشنگ کی مختصر نظموں نے مجھے بہت متاثر کیا ۔

اگلے ابواب جنہیں سلمیٰ  اعوان نے انتہائی دلچسپ نام دئیے ، جن کی  ترتیب کو پڑھتے ہوئے آپ کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کتاب کو پہلی سطر سے آخری لفظ تک پڑھا جائے یا پھر ترتیب کو ایک طرف رکھتے ہوئے پہلے ” چھلانگیں مارتا، آسمان کو چھوتا بیجنگ” پڑھا جائے یا پھر ” مادام، عمران خان کیا پیسے مانگنے آیا ہے” کو پہلے پڑھ لیا جائے۔ آگے بڑھیں تو یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ پہلے ” چینی پاکستانی کلچر کی مشترکہ روایات و رسومات” کو دیکھتے ہیں یا پھر ” بیجنگ کا الف لیلوی ماحول اور کہانیاں” پڑھ لی جائیں۔ “پرانے بیجنگ کے گلی کوچوں کا حسن” محسوس کیا جائے یا پھر ” آنا چی سے ملاقات ” پہلے کر لی جائے ۔ قاری کا سخت امتحان لیا ہے سلمی اعوان نے اس سفر نامے میں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے اب تک کے مطالعہ کے مطابق ماضی کا چین عورت کے معاملے میں انتہائی تنگ نظری کا شکار تھا اور پہلے کا چینی معاشرہ جاہل عورت کو اپنا آئیڈیل تصور کرتا تھا مگر سلمیٰ اعوان کے اس سفر نامے نے واضح کیا کہ خانگی ، خارجی جنگوں اور کمیونسٹ تحریکوں نے عورتوں میں شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ،آج چینی مردوں میں وہ ماضی والے رویے مفقود ہو چکے ہیں۔ آج کا چین عورت کے لیے زندگی گزارنے کے لیے تعلیم اور شعور کے ساتھ ساتھ ملازمت کے باوقار مواقع فراہم کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ یاد رکھیے کہ آئیڈیل لوگ اور آئیڈیل نظام کہیں نہیں ملتا، اس کے مطابق خود کو تیار کرنا پڑتا ہے ، قبول کرنا پڑتا ہے اور کہیں کہیں لچک دکھانا پڑتی ہے ۔ حیرت بھری آنکھ میں چین سفر نامے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی دستاویز ہے جو آپ کو گزرے ہوئے چین ، موجودہ چین اور آنے والے چین کے بارے میں آگہی اور رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ اس سفر نامے کے مطالعے سے پہلے چین اور چینی ثقافت کے حوالے سے میرے ذہن میں کئی ابہام بھی تھے ظاہر ہے اس کی وجہ چینی سینما تھا جو اَب دور ہوئے ،ورنہ چینی سینما بے چینیاں بھی پیدا کرتا ہے کہ چل اٹھ اور سفر اختیار کر کیونکہ بے چین روحوں کو سفر ہی سکون نصیب کرتے ہیں، مگر ہمیں اب اس سفر کی ضرورت نہیں رہی کہ ہمارے حصّے کا سفر سلمیٰ  اعوان کر آئی ہیں اور ہمارے سارے سوالات کے جوابات ان کے سفر نامے حیرت بھری آنکھ میں چین میں موجود ہیں بس مطالعہ کریں اور اپنے سوال کا جواب اچک لیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply