نا مرد۔۔۔۔ثمرین خورشید

گرمیوں کی دوپہر میں سورج کی گولا باری عروج پہ تھی گلیوں میں ہُو کا عالم تھا چرند پرند درختوں کی شاخوں سے چمٹے انسان کی نا عاقبت اندیشی پے ماتم کناں تھے جس کے بے پرواہ رویہ نے سوہنی دھرتی کو یہ دن دکھایا تھا جہاں اب نہ درختوں کی میٹھی ٹھنڈی چھاؤں تھی نہ اس چھاؤں کے ساۓ میں بیٹھے سادے من کے لوگ۔۔۔
باہر کی جان جلاتی گرمی کے برعکس بانو کے گھر کے اندر ماڈرن طرز کے بنے ائر کنڈیشنڈ لاؤنج میں لڑکیوں کا جمگٹھا لگا رہتا ،شادی کا گھر تھا،، فیشن میگزینز سے نئے  کٹ نکالے جاتے دلہن کے کپڑوں کو تانکا جاتا رنگوں کے امتزاج پے کئی گھنٹے بحث ہوتی بانو پے کون سا رنگ زیادہ جچتا ہے مہندی کے جوڑے میں کون کون سا رنگ ہونا چاہیے

بڑی باجی کہتی۔۔۔۔
“ہماری بانو تو چینی کی گڑیا ہے اس پے تو فراک اچھی لگے گی”
“چھوڑیں آپا آجکل تو چولی لہنگے کا فیشن ہے فراک دلہن شادی والے دن تھوڑی پہنتی ہے”
چھوٹی حنا اعتراز کرتی۔۔
کپڑوں سے لے کر زیورات تک، شادی ہال سے لے کر کھانے تک سب کچھ ڈسکس کیا جاتا ،ساری محفل کی رونق تابندہ چچی بنا کے رکھتیں ،محفل جما کے رکھتیں ان کے ذومعنی جملے شرارتی اشارے کرتی نظریں لڑکیوں کے چہروں پے رنگ بکھیر دیتے کبھی کہتی۔۔۔”ارے بانو بازو بیشک پورے رکھوا لینا لیکن شانوں پے ایک دل بنا کٹ ضرور بنوا لینا جو مزا کھلے چھپے میں ہے وہ نہ پورے کھلے میں ہے نہ پورے  چھپے میں”
“ارے باجی آپکو پتا ہے کہ ہمارے بانو کے دلہے میاں کس مزاج کے ہیں؟ چھوٹی ممانی تابندہ چچی کو اکساتیں
“میں تو کہتی ہوں شکل جیسی بھی ہو مرد جی دار ہونا چاہیے ” تابندہ چچی کھلکھلا کے ہنستی جاتیں ،جملے کستی جاتیں
اور بانو سوچتی جی دار مرد کیسا ہوتا ہے؟ چچا جیسا رعب  دبدبے والا ؟۔۔۔۔۔

خاندان کی ساری عورتیں کہتیں ہاشم میاں خود تو ہر وقت تیوری چڑھا کے رکھتے لیکن بیوی بڑی چنچل شوخ حسینہ ملی اسکا دل دہل جاتا وہ سوچتی اسے تو مرد تابندہ چچی جیسا چاہیے ، بولتی آنکھوں والا دل نشین لہجے والا جس کی باتیں دل کو گدگدائیں جس کا قہقہہ اتنا جاندار ہو کہ درختوں پے بیٹھے پنچھی پر پھڑ پھڑا کر اڑ جائیں جس کی باتوں پے بڑی بوڑھیاں ہاۓ ہاۓ کرتی رہ جائیں لیکن اس کی رنگین مزاجی اپنی جگہ نہ چھوڑے۔۔
پھر وہ سوچتی اسے کیسے معلوم ہو کہ عکسی کیسا مرد ہے جی دار یا رنگین باتوں کا بے تاج بادشاہ ۔۔کیونکہ وہ تو اس سے بات بھی نہ کرتا تھا۔
بات طے ہونے کے دوسرے دن ہی تو بانو بےصبری رہ نہ سکی اور جھٹ سے فون کر ڈالا کیسی بے رخی تھی لہجے میں، کھردری آواز جیسے آواز کے ساتھ درانتی لگا رکھی ہو جس نے بانو کی شوخی کو ہی کاٹ ڈالا اس دن سے وہ بوکھلائی  بوکھلائی  پھرتی ،دل میں وسوسوں نے پکے ڈیرے جما لیے تھے۔۔
وہ اب کشمکش کا شکار تھی آیا یہ شوخی رنگین مزاجی کا پودا دوبارہ کلیان لے بھی سکے گا کہ نہیں

پھر جب تابندہ چچی کہتیں”منہ پے خاموشی کا تالا مار کے رکھنے والے مرد اندر سے بڑے میسنے گنوں کے پورے ہوتے ہیں ”
بانو کی سوچیں نئے  سرے سے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیتیں میسنے مرد کیسے ہوتے ہیں؟
اور گنوں کے پورے کیسے ہوتے ہیں؟
گن تو لڑکیوں میں ہوتے ہیں کھانا پکانے کا گن سلای کڑھائی کا گن ،گھر بسانے کا گن مردوں کا دل بہلانے کا گن ۔۔۔مردوں کا بھلا گنوں سے کیا کام ؟
اور جب وہ ان سوچوں سے تھک ہار جاتی تو موبائل میں سے اس کی تصویر نکال لیتی اور تصویر کو ایسے دیکھتی جیسے ابھی تصویر میں سے نکل کے بولے گا
“پریشان کیوں ہوتی ہو میں تو بلکل ویسا ہی ہوں جاندار قہقہے لگانے والا باتوں سے گدگدانے والا”
لیکن وہ تو تصویر سے ہی کوئی  روایتی بیوپاری لگتا تھا تھری پیس سوٹ پہنے ماڈرن بیوپاری جس کی آنکھیں چمک سے خالی مال ٹٹولنے میں مصروف ہوں ہونٹوں کے کناروں میں چھپی جتاتی مناتی لبھاتی ہنسی کی جگہ سنجیدگی بردباری نے ڈیرے جما رکھے ہوں جلد ہی وہ اس کی رنگین تصویر کی بے رنگینی سے اکتا جاتی۔۔۔

شادی جیسے جیسے قریب آ رہی تھی اس کا دل اس چھوٹی کشتی کی شکل اختیار کر چکا تھا جو بڑے بیڑے سے بچھڑ گئی  ہو اور سمندر کے درمیان گہرے پانیوں میں ڈوبنے کو تیار اور ابھرنے کو بے قرار ہو ایسے میں کبھی چچی کبھی خالہ اپنے پاس بٹھا لیتیں اور پتا نہیں اسے کیا کیا سمجھاتی رہتیں
خالہ کہتیں شوہر کا خیال رکھنا تو چچی کہتیں شوہر کے دل کا خیال رکھنا اور وہ پھر سے اپنے سوالوں کے غار میں گم ہو جاتی سوچتی
دل کا خیال کیسے رکھا جاتا ہے ؟

اسے یاد آیا دو سال پہلے جب مدیحہ کی شادی ہوئی  تو وہ اپنے شادی والے دن نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی اور خوش تو ایسے تھی جیسے کسی خزانے کی مالک بن بیٹھی ہو وہاں آئی  عورتیں بھی رشک سے بچھی جا رہی تھیں انکا بس نہ چلتا تھا کہ حسد کے مارے اپنے تلوے چاٹ جائیں
“کیسا داماد ملا ہے سعیدہ کو بہت بڑا بزنس ہے بہت پیسہ ہے اور خوبصورت بھی تو دیکھو کتنا ان کے پورے خاندان میں کسی کا ایسا قد کاٹھ نہیں ہے”

“کہیں سے آواز آتی یہ داماد سب پے بھاری پڑے گا باقی دو تو واجبی شکل کے ہیں”
عورتوں کی سرگوشیاں بلند آواز میں بدلتی اور حسرت بھری آہ کے ساتھ دم توڑ جاتیں حسرت بھری آہ اس بات کا عندیہ دیتی کہ کاش اس کو چرا کر اپنی بیٹی کے نام لگا سکتیں ایسے میں وہ یہ بھول جاتیں کہ خوبصورت چہرے اور پیسوں بھری جیبیں  خوشیوں کی ضمانت کہاں ہوتی ہیں بھلا۔۔۔۔
شادی کے 6 مہینے بعد جب مدیحہ طلاق کا پرچہ لیے گھر آئی  تو گویا صفِ ماتم بچھ گی ،کانچ کی گڑیا اپنوں کی بے احتیاطی  کی وجہ سے ٹوٹ گئی ساس نے کھٹ سے فون کر کے بتا دیا
“اس میں لڑکیوں والی کوئی بات ہی نہیں نہ اسے بننے سنورنے کا شوق ہے سارا دن سر جھاڑ منہ پہاڑ لیے گھومتی ہے شوہر کے دل کا ذرا خیال نہیں
میاں ہمارا لڑکا تو بڑے اور مزاج کا ہے اس کے دل میں یہ جگہ نہ بنا سکی آخر مرد ذات ہے کب تک برداشت کرے دل سے اتر گئی  اس کے”
بانو سوچتی دل میں جگہ کیسے بنائی  جاتی ہے؟ دل کوئی  بنجر زمین تھوڑی ہے جس میں جگہ کھرپے سے کھود کر بنائی جاتی ہو وہ سوچتی مدیحہ تو ایک سادہ طبیعت بے ضرر لڑکی تھی پھر ایسا کیوں ہوا ؟
کیا کوئی  عورت یہ کہہ   سکتی ہے کہ یہ مرد میرے دل سے اتر گیا اس لیے چھوڑ دیا۔۔

لیکن عکسی تو اس کے دل میں بس ہی نہیں رہا تھا تو اترنا کیسا۔۔۔۔۔۔
مارننگ شو دیکھتے فیشن میگزین پڑھتے اور اپنے کپڑوں کا ناپ دیتے اسے اپنی کام والی کی بیٹی یاد آ جاتی جو بہت اچھے کپڑے سلائی  کرتی تھی اچھا خاصا کما لیتی لیکن پچھلے مہینے اس کے سسرال والوں نے  کہہ  کر نکال باہر کیا کہ یہ تو بانجھ ہے اس کی ماں نے دو دن تک رونا ڈال کے رکھا گھر کا جو فرد ملتا نئے   سرے سے سنانے لگتی
“جی اس کی ساس کہتی تیری بیٹی بانجھ ہے بچہ نہیں جن سکتی بھلا آپ بتاؤ بی بی جی آپ تو بہت پڑھے لکھے ہو دو تین مہینوں میں تھوڑی پتا چلتا ہے جی وہ تو ایسے بات کرتے ہیں جیسے دس سال ہو گئے شادی کو اور بچہ نہ ہوا ہو ” سانس لینے کے لیے اپنے میلے ہلکے پیلے بدرنگ دوپٹے کے ساتھ شڑنک کی آواز کے ساتھ اپنا ناک صاف کرتی ناک میں پہنے واحد سونے کی نشانی سات نگوں  والی لونگ کو درست کرتی جس میں جمی میل اس کی عمر کی چغلی کھا رہی تھی
“اتنی گنوں والی کماؤ بیٹی تھی میری اتنا تو ان کا نکما ٹیڑھے ناک والا بیٹا بھی نہیں کماتا تھا یہ لونگ بھی اسی نے اپنی سلائی  کے پیسوں سے لے کر دی تھی پورے تین ہزار” گہری سانس لیتی ناک صاف کرتی اور جوش سے قریب ہو کر دکھانے لگتی اتنا قریب کہ اس کے میلے جسم سے اٹھتے پسینے کی بو کے بھبھکے نئے سوالوں کو جنم دیتے اسکے دماغ کے زیرِ زمین خانوں میں سوال اپنے پھن پھیلا لیتے اور اسے وقتا فوقتا ڈستے رہتے وہ سوچتی آخر عورت ہی کیوں بانجھ ہوتی ہے مرد کیوں بانجھ نہیں ہوتا؟
عورت اور مرد کے معاشرتی سٹیٹس کو سمجھنے کے چکر میں وہ یہ سمجھ ہی نہ  پائی  ہر رشتے کو اک انہونی در پیش ہوتی ہے اس انہونی کو شربت کی طرح پی جانا ہمارے معاشرے میں ازدواجی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔۔۔۔

مرد عورت کے اس چکر میں اسے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ کب شادی کا دن آیا اور گزر بھی گیا۔۔۔۔
جب پہلی بار عکسی اس کے پہلو میں آ کے بیٹھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ جسامت میں کتنی چھوٹی تھی اس سے ،لیکن آنے والے دنوں نے اسے احساس دلایا وہ اپنے ظرف میں کتنی بڑی تھی اس سے
فاصلوں سے مزین اندیشوں میں لپٹی سوالوں میں جکڑی شادی کو تین مہینے گزر گئے عکسی کا رویہ شروع دن سے عجیب تھا گھر میں وہ ایک سنجیدہ مزاج مرد تھا جسے سب کچھ وقت پر چاہیے  تھا جس کا کہا حتمی ہوتا جس کے مشورے کے بغیر کوئی  کام نہ ہوتا لیکن کمرے میں آتے ہی وہ بھیگی بلی بن جاتا اس کا لمبا قد چوڑا بدن گھٹنے لگتا سنہری آنکھیں اندر ہی اندر سکڑنے لگتیں شرمندگی سے گال پچک جاتے مسیں بھیگنے لگتیں اس کا بدلتا روپ بانو کے دل میں پنجے گاڑ دیتا جب وہ کہتا
“دیکھو بانو تم بہت خوبصورت ہو بہت اچھے خاندان سے ہو بہت اچھی ہو میں تمھارے قابل نہیں ہوں لیکن دیکھو نا عورت کتنی ہی خوبصورت اچھی ذہین اور قابل کیوں نہ ہو مرد کے لگاۓ داغ اسے بےمول کر دیتے ہیں تم سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ  رہا ہوں” اس کے ہاتھ اسکا طواف کرتے اپنی برتری کا احساس دلاتے اور لفظ کچوکے لگاتے
دیکھو اگر تم میرا راز رکھو گی تو ہم اچھے دوستوں کی طرح رہیں گے  تمہیں کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔۔۔ سمجھ رہی ہو نا ”
ایسے میں جب وہ اپنے ہاتھوں سے بانو کے نرم گال تھپتھپاتا تو اسے لگتا یہ کانچ کی گڑیا کو ربڑ کے ہتھوڑے سے کرچی کرچی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔۔

اسے لگتا اس شرمندہ بے بس پچکے گالوں والے بونے نے اس کے ہونٹوں کو ایلفی سے جوڑ دیا ہو ہونٹ ایک دوسرے میں ایسے پیوست ہوتے کہ لگتا کھولنے کے لئے ہونٹوں کے درمیان پانا رکھ کے ہتھوڑے سے ضربیں لگانی پڑیں گی
شروع شروع میں بانو سمجھ نہ پائی پھر آہستہ آہستہ موسم بدلنے لگا سردی کی جگہ گرمی نے لے لی اور بانو کے دل پے جمی برف پگھلنے لگی
پھر بانو کو اپنا آپ مرد لگنے لگا جی دار مرد جس کے دیکھنے سے وہ گھبراتا گہری نظروں سے اس کے گال سرخ ہونے لگتے وہ خود میں سمٹنے لگتا جیسے کوئی  نئی  نویلی دلہن ہو ۔۔۔
بانو کا دل چاہتا وہ قہقہے مار کے ہنسے ،ایسا قہقہہ جس سے شاخوں پے بیٹھے پرندے پھر سے اڑ جائیں اور گنوار عورتوں کی طرح ایسے دھاڑیں مار مار کے روئے کہ سارا محلہ اکٹھا ہو جاۓ اور سب سے چیخ چیخ کے پوچھے یہ کیسی شادی ہے جو شروع ہونے سے پہلے ختم ہو گئی یہ کیسا رشتہ ہے جو ہے بھی اور نہیں بھی؟
اسے لگتا تھا عکسی کوئی  سنجیدہ مزاج   والا مرد ہے لیکن وہ تو بھر بھری مٹی سے بنا پتلا تھا ہاتھ لگانے سے ٹوٹ جانے والا پھونک مارنے سے اڑ جانے والا۔۔
عکسی کے رویے نے اس کے سارے سوالوں کو شش و پنج میں ڈال دیا سوال مارے حیرانگی اور شرم کے دماغ کے بند کواڑوں کے پیچھے منہ چھپائے بیٹھے تھے جواب حاضر تھا بس بانو میں جواب کہنے کی ہمت نہ تھی

بانو نے جلدی ہی گھر کی ذمہ داری سنبھال لی سارا دن گھر کے کام نپٹاتی جاتی اور اپنے سوالوں کا جواب با آواز بلند کہنے کے لے مناسب الفاظ ڈھونڈتی جاتی اسے احساس ہوا ذہنی مشقت جسمانی مشقت سے زیادہ تھکا دینے والی ہوتی ہے
اس کی ساس اسے سارا دن عکسی کے مزاج کے بارے میں بتاتیں اس کی عادات کا ذکر کرتیں اسے  کیا پسند ہے کیا ناپسند بار بار گنواتیں وہ چپ چاپ سنے جاتی کیونکہ وہ جانتی تھی ان کا عکسی اور ہے اور اس کے بند دروازے والا عکسی اور۔۔۔
زندگی شاید ایسے ہی چلتی رہتی سست روی سے وہ اپنے جواب کے لیے مناسب الفاظ ڈھونڈھتی رہتی عکسی خود کو چھپاتا رہتا اور ساس اسے بتاتی رہتیں کس کی بہو چلتر باز ہے کس کی بد کردار لیکن زندگی تو اس شرارتی بچے کی طرح ہے جو ٹھہرے پانی میں پتھر پھینک کے اس سے اڑنے والے چھینٹوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
بانو کے سسرال کا واحد دلچسپ کردار صابر تھا بیس بائیس سال کا یہ لڑکا اس گھر کا واحد ملازم تھا لگ بھگ پندرہ سال کا تھا جب عکسی کے دفتر میں کام کرنے آیا تو عکسی نے اسے گھر کے لئے رکھ لیا گھر کے چھوٹے موٹے کاموں سے لے کر گھر کا مالی بھی وہی تھا اور چوکیدار بھی۔۔
عکسی جب دفتر چلا جاتا امی ساس ٹی وی میں محو ہو جاتیں وہ گھر میں کام کرتی تو صابر دبے پاؤں اس کے ساتھ کام کرنے لگ جاتا
وہ آٹا گوندھتی تو وہ سبزی کاٹنے لگتا وہ سالن بناتی تو وہ سلاد بنانے لگتا وہ مصالحہ بناتی تو وہ چاول چننے لگتا وہ روٹیاں بناتی تو وہ برتن دھونے لگتا اسے پتا ہی نہ چلا کب صابر پودوں کی آبیاری کرتے کرتے اسکے دل کو بھی سینچنے لگا اس کے زخموں پے مرہم رکھنے لگا اسے زندگی کے گر بتانے لگا ،چھوٹے سے کچن میں پیاز ادرک کی بو اور مصالحوں سے اٹھتی مہک کے درمیان وہ کب اور کیسے قریب ہو گئے پتا ہی نہ چلا بانو کو کچن کے کاموں کا زیادہ تجربہ نہ تھا تو صابر اس کا استاد بن گیا۔۔

پہلے اسے لگتا تھا وہ اور عکسی زندگی کی نہر کے کنارے ہیں دور اور تنہا اب اسے لگتا وہ اس بہتی نہر کا پانی ہے اور صابر اس میں گرتا تازہ پانی کا جھرنا، جو نہر کے گدلے پانی کو اپنے حصے کی تازگی اور جوانی بخش رہا ہے عکسی اب اس کے لیے ایک اضافی اور غیر ضروری چیز کے سوا کچھ نہ تھا پرانی بانو واپس لوٹ آئی تھی وہ اب خوش رہتی مگن رہتی روز نئے  نئے   کھانے بناتی عکسی کے لیے اس کا رویہ دن بدن عجیب ہوتا جا رہا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ آخر اتنی مطمئن اور اس سے لاپرواہ کیوں اور کیسے ہے؟ ایک دن جب خزاں کا موسم  اپنے پر پھیلا رہا تھا اور درخت اپنے پتے گرا رہے تھے اس نے خاموشی توڑ دی۔۔۔۔

تم اب بہت خوش رہتی ہو ؟ عکسی سمجھتا تھا ان کے درمیان اب اعتماد کا رشتہ بن چکا ہے بانو اس کے ساتھ سمجھوتا کر چکی ہے اور کر ہی کیا سکتی اسکی باتوں کا بھلا یقین کون کرے گا
آپ بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ میں خوش رہوں، نہیں؟
نہیں مجھے اچھا لگتا ہے تمہیں خوش دیکھ کے یہی ہم دونوں کے لیے بہتر بھی ہے ہاں لیکن اس کی اگر کوئی  خاص وجہ ہے تو تم مجھے بتا سکتی ہو آخر ہم دوست ہیں
“ہاں واقعی ہم دوست ہیں اور دوستوں سے بھلا کیا چھپانا” بانو کے چہرے پے طنزیہ مسکراہٹ تھی
ہو سکتا ہے میرے پاس بھی خوش رہنے کی کوئی  وجہ ہو؟
ہا ہا مثلً ا؟ عکسی نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔۔۔

بانو خاموش تھی ایک بولتی خاموشی جو اس کے دل کی دیواریں چیر کے باہر نکلنا چاہتی تھی
کیا ہوا بتاؤ نا ؟ عکسی کی آواز اسے دوبارہ کمرے میں کھینچ لائی
تمہارے بھی میرے والے شوق ہیں قوم لوط ؟ ہوں ؟ یہی کہتی ہو نا تم ؟
“صابر” بانو نے یک لفظی جواب دیا اور کمرے سے نکل گئی ، عکسی اسے حیران کرتا وہ سوچتی کوئی  اپنے گناہوں پے اتنا فخر کیسے کر سکتا ہے وہی عکسی اسے پریشان کرتا جب وہ بانو سے سہم جاتا اپنے راز کے کھل جانے سے ڈر جاتا بانو کے یک لفظی اظہار سے عکسی کو تو کوئی  فرق نہ پڑا لیکن اس کی ساس نجانے کب سے اپنے اندر لاوا دباۓ بیٹھی تھیں انہوں نے اپنے تئیں عکسی کو خبردار کرنا چاہا اشاروں کنایوں  میں بتایا بانو کو سمجھانے کی کوشش کی کہ شریف عورتوں کے یہ وطیرے نہیں ہوتے عکسی کی خوبیاں گنواتیں اور اس کی وجاہت کے قصے سناتیں
بانو خاموش لب سیے سنے جاتی۔۔۔

جب عکسی نے کوئی  ردعمل نہ دکھایا تو ایک دن عکسی کو گھر بلایا گیا اور عدالت لگائی گئی ، ڈھلتی دوپہر کا وقت تھا بانو کی ساس کے مزاج کی گرمی نے ہر چیز کو لپیٹ میں لے رکھا تھا بانو خاموش کرسی پے براجمان تھی سلیمہ خاتون انگلیوں میں انگلیاں پھنساے بیڈ کے کنارے لاپرواہ بیٹھے عکسی کے سامنے دائیں سے بائیں چلتے مسلسل لب کشا تھیں
“میں بوڑھی عورت سارا دن گھر میں پڑی آخر کیا کیا برداشت کروں اور کتنا برداشت کروں تم آفس چلے جاتے ہو آدھی رات کو واپس آتے ہو میں کس کس کی چوکیداری کروں تم سے یہ چھٹانک بھر کی لڑکی نہیں سنبھالی جا رہی یا تو اسے لگام ڈالو یا پھر چلتا کرو”
“امی ایسی کوئی  بات نہیں ہے آپکو غلط فہمی ہوئی  ہے بانو ایسی لڑکی نہیں ہے” عکسی کے لہجے میں اکتاہٹ نمایاں تھیں اکتاہٹ بھری آنکھوں کے اندر کہیں کسی بات کے کھل جانے کا ڈر ہلکورے لے رہا تھا عکسی کے جواب پے سلیمہ بیگم کی آنکھوں کا سائز چار گنا ہو گیا حیرت اور غصے کے مارے نتھنے پھول کے غبارہ ہو گئے ۔۔۔

“تم کیسے مرد ہو تمہاری جگہ کوئی  اور ہوتا تو اب تک اسے طلاق دے چکا ہوتا میں نے خود اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا ہے اس کلموہی کو اب دیکھو کیسے بیٹھی ہے جیسے اس سے زیادہ شریف زادی کوئی  نہیں” سلیمہ بیگم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے سمجھا ئیں آج پہلی بار انہیں اپنا بیٹا زہر لگ رہا تھا
امی پلیز آپ بانو کے بارے میں ایسی باتیں مت کریں اور میں اسے طلاق نہیں دے سکتا
کیوں کیوں طلاق نہیں دے سکتے؟
اس بد چلن بد کردار بے غیرت عورت کو کیوں طلاق نہیں دے سکتا ہاں بتاؤ مجھے؟
امی پلیز آپ یہ کس طرح بات کر رہی ہیں
تو تم بتاؤ میں کیسے بات کروں؟
بتاؤ مجھے؟
تو تم اسے بیوی بنا کر رکھو گے اور اس بے حیا کی بے حیائی دکھاؤ گے ماں کو تم سمجھ کیوں نہیں رہے کہ یہ بد کردار ہے بد چلن ہے کیسے مرد ہو ایسے ٹھنڈے بیٹھے ہو جیسے کسی اور کی بیوی کا معاشقہ سن رہے ہو تم سمجھ رہے ہو میں کیا کہ رہی ہوں
امی میں سمجھ رہا ہوں یہ بد چلن ہے بد کردار ہے لیکن میں اسے طلاق نہیں دوں گا
تم مجھے یہ بتانا چاہتے ہو کہ میرا بیٹا نا مرد ہے اس میں بیوی کو طلاق دینے کی ہمت نہیں۔۔۔۔۔ ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اور بانو کو  لگا اس کے زخموں پے مرہم رکھ دیا گیا  ہو اور زخموں سے رستے خون پے روئی  کے پھاہے رکھ دیے  گئے ہوں
اس نے خود کو کھڑے ہوتے اور کہتے سنا
“شکریہ آنٹی وہ کہنے کے لیے جو میں اتنے عرصے میں نہ کہہ  سکی آپ نے درست کہا  آپکا بیٹا واقعی نا مرد ہے اور ایک بات اور ۔۔۔میں بد چلن یا بد کردار نہیں ہوں میں اور صابر اچھے دوست ہیں جس نے مجھے اتنا عرصہ زندہ رہنے کی ہمت دی بد چلن اور بد کردار آپ کا بیٹا ہے میں نہیں ”
اس نے خود کو کمرے سے باہر جاتے دیکھا خود کو پیکنگ کرتے گھر سے نکلتے دیکھا اس کے سوال جواب پا چکے تھے اس نے جواب با آواز بلند کہنے کی ہمت پا لی تھی وہ سمجھ گئی  اس معاشرے کا دیا ہوا ہر طعنہ عورت کو بد چلن عورت بد کردار عورت بانجھ عورت تو بنا سکتا ہے لیکن کبھی نا عورت نہیں بنا سکتا لیکن مردوں کا یہ معاشرہ مردوں کو انکے فیصلوں کی بنیاد پے نا مرد ضرور بنا دیتا ہے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply