• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفرنامہ روس /دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے(حصّہ نہم)۔۔سیّد مہدی بخاری

سفرنامہ روس /دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے(حصّہ نہم)۔۔سیّد مہدی بخاری

ماں سرہانے بیٹھی ماتھے پر پانی میں بھیگی ٹھنڈی پٹیاں رکھ رہی ہے۔ والد کمرے سے باہر بے چینی میں ٹہلتے رہے۔ برسات کی رات کا تیسرا پہر بیت رہا تھا۔
“تجھے کتنی بار کہا ہے کہ نہ جایا کر ایسی جگہوں پر۔ پہاڑوں میں ویرانے ہوتے ہیں۔ ویرانوں میں بھوت پریت ہوتے ہیں۔ یہ دوسری بار ہے جب تو گھر آتے ہی بیمار پڑ گیا ہے۔ آئندہ تو نے جانے کی ضد کی تو تیرے باپ سے اجازت نہیں لے کر دوں گی۔تو گھر سے باہر ہو تو دلی دھڑکتی رہتی ہے کہ کہاں ہو گا اور واپس آئے تو حلیہ دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ رنگ دیکھ اپنا۔ حبشی بن چکا ہے۔ میں نے ایسا تو پیدا نہیں کیا تھا”۔ ہر بدلتی پٹی کے ساتھ اماں کا درس بھی پینترا بدلتا۔
بخار میں تپتے رات بیتتی رہی۔ والد صحن میں ٹہلتے رہے۔ کبھی اندر آ کر اماں کو کہتے ” ابھی بارش تھمی ہے۔ اس وقت ٹانگہ نہیں ملنے والا۔ تو دیکھ اگر اس کو ہوش آئے تو ہسپتال لے چلتے ہیں ورنہ فجر تک پٹیاں بدلتی رہ”۔ صبح دم آنکھ کھلی۔ فجر کا وقت ہو رہا تھا۔ بخار ڈھل چکا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اماں میرے برابر تھک کر سو چکی تھی۔ اس کا ایک ہاتھ میرے ماتھے پر دھری پٹی پر تھا۔ آہستہ سے حرکت کرتے میں بستر سے اٹھ بیٹھا۔ صحن میں والد چارپائی ڈالے سو رہے تھے۔ اماں کی آنکھ نہ جانے کیسے کھل گئی۔ وہ کمرے سے باہر آئی۔ مجھے دیکھتے ہی میرا بازو تھاما۔ اندر لے جا کر بستر پر لٹاتے بولی۔ “ادھر لیٹا رہ خبردار جو تو اٹھا۔ ابھی بخار مکمل نہیں اترا۔ صبح ہو لے، ڈاکٹر سے دوائی مل جائے پھر ٹھیک ہو جائے گا”۔ میں لیٹے لیٹے کہتا رہا “امی میں ٹھیک ہوں، میں ٹھیک ہوں، مجھے کچھ نہیں ہوا، میں ٹھیک ہوں”۔
خواب کبھی کبھی ماضی کو سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔ وہ بیتے شب و روز جو لاشعور کا حصہ بن چکے ان کی فلم گڈ مڈ ہو کر ذہن کے پردے پر چلنے لگتی ہے۔ آنکھ کھلی تو میرا ماتھا پسینے سے بھیگ رہا تھا۔ تھکاوٹ کے سبب جسم گرم محسوس ہو رہا تھا۔ کمرے کا ائیر کنڈیشنر آن تھا۔ اس ہوٹل میں رات گئے پہنچا تھا۔
ریسپشن پر موجود لڑکی نے میرا حلیہ دیکھا۔ جلدی جلدی چیک ان پراسس مکمل کر کے اس نے کمرے کی الیکٹرانک کی مجھے تھمائی۔ ایک خوبرو روسی نوجوان نے آگے بڑھ کر میرا سفری بیگ مجھ سے لیا اور کمرے تک چھوڑ گیا۔ ماسکو میں یہ پہلی رات تھی۔ شہر کا درجہ حرارت غیر معمولی طور پر کافی بڑھ چکا تھا۔ روس میں موسم گرما معتدل رہا کرتا ہے۔ اس سال گرما نے گرمی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ روسی لوگ موسم سے پریشان تھے۔ میرا میلا لباس پسینے میں بھیگتا رہا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے ائیر کنڈیشنڈ آن کیا، ٹھنڈے پانی سے غسل کیا، بڑھی ہوئی داڑھی شیو کی، کپڑے بدلے اور پھر بستر پر لیٹ گیا۔ نیند کی دیوی دونوں بازو پھیلائے اتری۔ صبح تک ساری کائنات منجمد ہو چکی تھی۔
آنکھ خواب کو توڑتے ہوئے کھلی تھی۔ بدن ٹوٹ رہا تھا۔ ماتھے پر پسینے کے قطرے ٹھہرے تھے۔ شاید اماں سچ میں ساری رات پٹیاں بدلتی رہی ہو۔ بستر کے دائیں ہاتھ بڑی سے شیشے کی کھڑکی پر پڑے دبیز پردوں سے بھی دھوپ اندر اتر رہی تھی۔ میں نے بستر سے اٹھنا چاہا مگر یوں لگتا تھا جیسے مسلسل جنگ لڑ کر سپاہی کوئی نڈھال پڑا ہے۔ نامعلوم کتنی دیر تک یونہی آنکھیں میچے اونگھتا رہا اور بدن کی توانائی کو یکجا کرنے میں لگا رہا۔ دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔ پھر ایک جھٹکے سے آنکھ کھلی۔ میں ساری توانائی جمع کر کے بستر سے اٹھا۔ پیناڈول کی گولی پھانکی۔ چہرہ دھویا۔ لباس بدلا۔ کھڑکی سے پردہ ہٹایا۔ ماسکو کی پہلی صبح میری منتظر تھی۔ سامنے لینن کا دیس دھوپ میں چمک رہا تھا۔ بلند و بالا عمارات کے شیشے دھوپ میں منعکس ہو کر جگمگا رہے تھے۔ فلک بوس عمارات کا سلسلہ تھا کو کوہ ہمالیہ کی مانند تاحد نظر پھیلا ہوا تھا۔چرچوں کے گنبدوں پر ایستادہ سنہری صلیبیں سونے میں ڈھل چکی تھیں۔ نیچے سڑک پر ایک ہجوم رواں تھا۔
میرا ارادہ بذریعہ انڈر گراونڈ میٹرو تاتانیا کے گھر پہنچنے کا تھا۔ تیار ہو کر چیک آوٹ کروانے ریسپشن پر پہنچا۔ وہی لڑکی اب بھی موجود تھی۔ اس نے مجھے گھور کے دیکھا۔
“امید ہے تمہارا قیام یہاں آرمدہ رہا ہو گا”۔ اس نے ہنستے ہوئے مجھے بقیہ رقم واپس کرتے تھماتے کہا۔
“ہاں، اور ہاں گذشتہ شب میں مزاق کر رہا تھا، جیل سے رہا ہو کر نہیں آیا۔ بس کچھ دن تمہاری امیگریشن نے مجھے مہمان رکھا تھا۔ امید ہے اب تم کو اس حلیئے میں انسان لگ رہا ہوں گا”
“ہاں، مسٹر بخاری، اور ہاں تم نے کمپلیمنٹری ناشتہ مس کر دیا ہے۔ اب اگر تم ناشتہ کرنا چاہو تو صرف ایک کپ کافی یا چائے تم کو کمپلیمنٹری آفر کر سکتی ہوں۔ تم کو معلوم ہے کہ ناشتے کا وقت گزر چکا ہے”۔ ریسپشنسٹ نے گال پھلائے جواب دیا تو میں ایک کپ کافی پینے کو ہوٹل کی لابی میں جا بیٹھا۔ کافی پی چکنے کے بعد ہوٹل کو چھوڑا۔ سفری بیگ کو گھسیٹتے آدھ کلومیٹر تک فٹ پاتھ پر چلا اور پھر انڈرگراونڈ میٹرو سٹیشن آ گیا۔
ماسکو کا میٹرو سسٹم ایک بھول بھلیا ہے۔ اس قوم کی جمالیاتی حس عروج پر ہونے کے سبب میٹرو سٹیشنز دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عظیم الشان قسم کی سجاوٹ بذریعہ فانوس، برقی قمقموں اور شوخ رنگ پینٹنگز سے کی گئی ہے۔ اوپر شہر بسا ہے اور نیچے ایک الگ ہی جہان آباد ہے۔ سٹیشن پر پہنچ کر لگا جیسے میں کسی عالیشان ہوٹل کی لابی میں آ پہنچا ہوں۔ ان فانوسوں کو دیکھتے، دیواروں پر پینٹ شدہ فن کے نمونوں کو دیکھتے کچھ وقت تو مبہوت کھڑا رہا پھر ماسکو میٹرو کے بڑے سے نقشے پر نظر پڑی۔ تاتانیا کے گھر کے اطراف جو سٹیشن تھا اس تک پہنچنے کو مجھے دو لائنز یعنی دو میٹرو ٹرینز بدلنا تھیں۔ یہ ایک پیچیدہ سا نقشہ تھا جس کو سمجھنے کو کم سے کم ایک دن درکار ہوتا ہے۔ سٹیشنز کے نام روسی زبان میں ہیں مگر انگریزی الفاظ سے لکھے گئے ہیں۔ ان ناموں کو یاد رکھنا بھی کسی انجان مسافر کے لئے مشکل امر ہے۔ تاتانیا نے مجھے واٹس ایپ پیغامات میں جو سمجھایا تھا اس کو دیکھتے میں نے اس کے قریبی سٹیشن کا نام میٹرو کے نقشے پر ڈھونڈ نکالا تھا۔
جہاں نقشہ لگا تھا وہیں کچھ فاصلے پر ٹکٹ کاونٹر تھے۔ ماسکو میں پبلک ٹرانسپورٹ سے انڈرگراونڈ میٹرو کے ذریعہ سفر کرنا ہو یا اوپر سڑکوں پر رواں ایلکٹرانک ٹرامز و بسوں کے ذریعہ، آپ کو صرف ایک کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کارڈ کا نام Troika ہے۔ بس یہ خرید لیجیئے، اس میں پیسے ڈلوا لیجیئے اور جہاں چاہیئے شہر میں سفر کیجیئے۔ ایک کاونٹر پر موجود بزرگ خاتون کو میں نے کریڈٹ کارڈ دیا۔ اس نے مجھ 500 روبلز کا کارڈ جاری کر دیا جو کہ فی الحال سفروں کے لئے کافی تھا۔ کارڈ کو خودکار گذرگاہ مشینوں سے مس کرنا، ایک ہجوم کے ہمراہ برقی سیڑھیوں کے ذریعہ نچلی منزلوں پر اترنا ایک ٹھیک ٹھاک تجربے والا کام ہے۔ ماسکو میٹرو سٹیشنز دو سے تین منزلہ سڑک کے نیچے ہیں اور کئی بڑے سٹیشنز چار سے پانچ منزل زیر زمیں واقع ہیں۔
پلیٹ فارم پر ریل کی پٹریوں کا جال بچھا تھا۔ اوپر نیلا آسمان تھا جسے دیکھتے ہی میں نے خود سے محو حیرت میں ڈوبے کہا ” یہ آسمان کہاں سے ٹپک پڑا ؟ “۔ یہ تعمیر کا طلسم تھا۔ یہ فنکار کا کمال تھا۔ جیسے صحرا میں چمکتی ریت دور سے نیلگوں دریا کا گمان دے۔۔۔ ایک سراب۔۔۔ ابھی اس سراب میں گم تھا کہ غار کے دہانے سے چنگھاڑتی ایک برق رفتار ٹرین پلیٹ فارم پر آن لگی۔ اس وقت مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ دائیں طرف جانا ہے یا بائیں طرف ؟ اس جانکاری کے لئے بہت سر کھپانے کی کوشش کی مگر کوئی بات سننے کے لئے پل بھر کو رکنے کو تیار نہ تھا جیسے رکا تو قیامت آ جائے گی۔ انگریزی زبان سنتے ہی لوگ فوری آگے بڑھ جاتے۔ یہ میٹروپولیٹن شہر تھا اور سب کو اپنی اپنی ٹرین کی فکر تھی جو محض 3 منٹ کو رکتی ہے اور پھر دوڑ پڑتی ہے۔
“بیٹھ جاو، اس زیرزمین دنیا کے رنگ تماشے تو دیکھو، تمہیں کونسا دفتر حاضری دینا ہے ؟ کیا کام ہے ؟ کاہے کی جلدی ہے ؟ اگر غلط سمت بھی چل دیئے تو کیا ؟ اگلے سٹیشن پر اتر کر واپسی کی راہ لے لینا۔ کم سے کم اس طرح اس میٹرو کے نظام کو تو سمجھ پاو گے۔ کاہے کی عجلت ؟ کیسی افراتفری ؟ ” دماغ نے دل کو کہا۔ کہتا تو ٹھیک تھا۔ میں سامان سمیت بھاگم بھاگ سوار ہو گیا۔ سوار ہوا تو معلوم پڑا کہ ٹھیک سمت کی ٹرین لی ہے۔ جس سٹیشن پر مجھے اتر کر ٹرین بدلنا تھی اس کا نام چار سٹیشنز کے بعد ٹرین کے دروازے پر بنی الیکٹرانک پٹی پر جگمگا رہا تھا۔ ماسکو میٹرو مکڑی کا جالا ہے۔ سارا ماسکو میٹرو کی سرخ، سبز،نیلی،گرے،پرپل، اورنج اور نجانے کس کس رنگ کی لائنوں میں الجھا ہوا ہے۔
ٹرین کھچا کھچ بھری تھی۔ پیناڈول نے طبیعت کو کافی حد تک بحال کر دیا تھا۔ دوران سفر میرے آس پاس نوجوان جوڑے آپس میں چپکے بیٹھے یا کھڑے سفر کرتے رہے۔ میں ان کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر سوچتا رہا کہ یہ قوم جذبات کے اظہار میں سچ میں آزاد ہے۔۔ بوڑھے بوڑھیاں بھی نوجوان جوڑوں کی مانند ساتھ ساتھ ہاتھ تھامے بیٹھتے تھے۔ دو پلیٹ فارمز بدلنے اور سوا گھنٹے کی مسافت کے بعد یہ کٹھن مرحلہ پار ہوا۔ میٹرو کا مکڑی کے جالے جیسا نظام کافی حد تک سمجھ آ چکا تھا۔ کشتی کنارے لگی۔ اتر کر ساحل پر آیا یعنی اپنی منزل پر پہنچتے باہر نکلا تو سڑک پر تاتانیا کھڑی تھی۔ اسے میں مطلع کر چکا تھا اور وہ میرے انتظار میں موجود تھی۔
” پریویت بخاری۔ ویلکم۔ تم آخر پہنچ ہی گئے”۔ اس نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا۔ اور خوشی خوشی چہکتے ہوئے بولی۔
“ہاں، پہنچ ہی گیا۔ آخرکار ۔۔۔ اور تمہارا بہت شکریہ۔ جو تم نے کیا وہ پرانے دوست بھی نہیں کیا کرتے”۔ میں اس کا دل سے شکرگزار تھا اور یہاں آنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اس کے احسان کا اس سے مل کر شکریہ ادا کر دوں۔ دیار غیر میں کون کسی اجنبی کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے ؟
” اوہ۔ چھوڑو اسے ، یہ شکریے مجھے اچھے نہیں لگتے۔ ہماری امیگریشن فکڈ آف ہے۔ بل شٹ۔ ” اس نے تین چار خالص گالیاں بنام امیگریشن بک دیں تو مجھے سن کر ہنسی آ گئی۔
“چلو، آ جاو۔ قریب ہی میرا اپارٹمنٹ ہے۔ تھوڑی والک کریں”۔
ہم دونوں ٹرالی بیگ گھسیٹتے چلنے لگے۔ سڑک کے دونوں جوانب فٹ پاتھوں پر ہجوم رواں تھا۔ بچے سائیکلز چلاتے پھرتے تھے۔ نوجوان الیکٹرانک بورڈ کے اوپر سوار اسے دوڑاتے پھرتے تھے۔ وہ مجھے اپنے علاقے کے بارے بتاتی جا رہی تھی۔ یہ بینک ہے، یہ میڈیکل سٹور ہے۔ یہ سپر مارکیٹ ہے۔ وہ دیکھو، وہ ازبک ریسٹورنٹ ہے، تمہارے لئے حلال ۔۔۔
تاتانیا فر فر انگریزی بولتی تھی جیسے اسے کوئی جلدی ہو۔ اس کا لہجہ تیز گام ریل جیسا تھا۔ کبھی کبھی کچھ الفاظ کا تلفظ مجھے سمجھ نہ آتا۔ ایسی صورت میں بس اسے دیکھ کر مسکرا دیتا جیسے میں سمجھ رہا ہوں۔ راہ میں چلتے اسے اس کی دوستیں ملیں۔ انہوں نے مجھے گھور کے دیکھا اور پھر روسی زبان میں اس سے میرے بارے استفسار کرنے لگیں۔ نہ جانے تاتانیا نے انہیں کیا جواب دیا۔ یکدم راہ میں ملیں ان دونوں کی ہنسی گونجی اور ان دونوں کی نظریں پھر میرا جائزہ لینے لگیں۔ چلنے سے قبل دونوں نے مجھے گھورا اور پھر ہنس دیں۔
“یہ تمہاری دوستیں کیا کہہ رہی تھیں ؟ یہ اتنا ہی ہنستی ہیں یا میں انہیں عجیب لگا ؟ “۔ میں نے مسکراتے ہوئے اسے کہا۔
“یہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے مجھے ہمیشہ اکیلے دیکھا ہے۔ میرا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے ہاہاہاہاہاہاہاہا۔ انہوں نے دیکھا تو حیرت کے مارے چلی آئیں۔ میں نے تمہارا تعارف کروایا ہے۔ یونہی ہنس رہی تھیں۔ یہ پاگل ہیں۔ تم کو پتا ہے بخاری ہم روسی لوگ آدھے پاگل ہوتے ہیں۔ بلا سبب ہنستے ہیں، بلا سبب لڑتے ہیں، بلا سبب روتے بھی ہیں”۔۔۔ یہ کہتے اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔
“اچھا۔ ہاں بلاسبب لڑنے والی بات سے متفق ہوں۔ باقی بلا سبب ہنستے پہلی بار دیکھا ہے”۔ میں نے بھی مزاق میں کہہ دیا۔
“ہاہاہاہاہاہا۔ ابھی تم کو کتنا عرصہ ہوا ہے ماسکو میں آزاد ہوئے ؟ ۔ دیکھ لو گے۔ وہ سامنے میری بلڈنگ آ گئی۔ اس کے پانچویں فلور پر اپارٹمنٹ ہے۔”۔ اس نے قریب ہی اک بلڈنگ کی جانب اشارہ کرتے کہا۔ پھر ہم دونوں تیز قدموں سے آگے بڑھنے لگے۔ بلڈنگ میں داخل ہونے سے قبل وہ مڑی۔ میرے عین سامنے آن کھڑی ہوئی اور انتہائی سنجیدہ چہرے سے بولی۔
“سنو، اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی تم کو سب سے پہلے ریسی ملے گی۔ ریسی بہت اچھی ہے۔ بہت پیاری ہے۔ اگر تم اسی پیار کرو تو وہ ہمیشہ کے لئے تمہاری ہو جائے گی۔ اس کی سبز آنکھوں میں جھانکنا۔ اسے پیار سے چھونا۔ بس اتنا سا ہی کام ہے۔ کر لو گے ناں ؟”۔ یہ سنتے ہی میں چونک گیا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے ؟ ۔ ریسی کو میں کیوں پیار کروں اور یہ مجھ سے کیسا مطالبہ کر رہی ہے ؟ ۔ مجھے لگا کہ یہ کچھ اور کہنا چاہتی ہے مگر شاید انگریزی میں سمجھا نہیں پا رہی۔ یہ بات میرے لئے اتنی حیرت کا باعث بنی کہ میں نے کنفرم کرنے کو کہا کہ یہ تم کہا کہہ رہی ہو ؟ ریسی کو پیار کروں ؟ ریسی کون ہے ؟
“ہاں، ریسی پندرہ سال کی ہو چکی ہے۔ یہ میری بیسٹ بڈی ہے۔ تم اگر اسے پیار سے دیکھ لو گے۔ اسے پیار سے چھو لو گے تو تمہارا کیا جائے گا ؟ اگر ایسا نہیں کرو گے تو ریسی چین سے نہیں بیٹھے گی اور وہ تمہارے پیچھے ہی رہے گی”۔ اس نے پھر سے سمجھانا چاہا۔
ریسی کو میں کیوں پیار کروں آخر ؟ اور پندرہ سال کی بچی ؟ یہ روسیوں کا کیا وطیرہ ہے ؟ یہ اتنی آزاد خیال قوم ہے ؟ سچ پوچھیں تو میرے ذہن میں جھکڑ چلنے لگے تھے۔ میں یہ بھی سوچنے لگا تھا کہ کہیں میں یہاں آ کر کسی نئے کیس میں پھنس تو نہیں گیا ؟
“تم نے مجھے ریسی کے بارے پہلے نہیں بتایا؟ کبھی اس کا ذکر بھی نہیں کیا ؟ اور یوں اچانک تم کہہ رہی ہو کہ کوئی ریسی ہے تمہاری دوست اور میں اسے پیار کروں ؟ “۔
” دوست ؟ دوست نہیں وہ میری بیسٹ بڈی ہے۔ میری جان ہے اس میں۔ کیا تم یہ چھوٹا سا کام نہیں کر سکتے ؟ تمہیں ڈر لگتا ہے ؟ تم نے کبھی ایسا نہیں کیا ؟ ” تاتانیا نے اب ملتجانہ نگاہوں سے انتہائی سنجیدہ انداز میں کہا۔ اسے دیکھ کر میں وہیں بت بنا کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ یہ کیا کام کہہ رہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا جواب دوں۔
“تم نہیں کر سکتے ؟ “۔ اس کی پھر ملتجانہ آواز گونجی۔
میں نے سوچا کہ اب آ گیا ہوں۔ شاید یہ روسی کلچر ہے۔ جیسے یہ آپس میں ملتے بوسہ لیتے ہیں ویسے ہی میں بھی گلے مل کر ایک بوسہ لے لوں گا۔ قصہ ختم۔ مگر ریسی تو پندرہ سال کی ہے۔ ابھی تو یہ بچی ہے۔ شاید یہاں لڑکیاں خطہ عرب کی مانند جلد بالغ ہو جاتی ہوں۔ چلو خیر ہے، ایک بوسے کی ہی بات ہے۔ اگر صورتحال نارمل نہ لگی تو میں کوئی بہانہ کر کے فوری رخصت ہو جاوں گا۔ اللہ کرے اب ریسی جان چھوڑ دے۔
“اچھا۔ کر لوں گا۔ فکر نہ کرو”۔ میں نے اسے شرماتے شرماتے جواب دیا۔
“اوہ یس۔ مجھے تم سے یہی امید تھی۔ شکریہ۔ مگر ایک بات اور ہے بخاری۔ اور زیادہ اہم ہے”۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے ویسی ہی ملتجانہ نگاہوں سے کہا۔
“اور کیا ؟ “۔ میں یکدم ایسے الرٹ ہوا جیسے بمب پھوٹا ہو۔ سن گلاسز اتار کر میں نے ہاتھوں میں تھام لئے۔ ذہن کو اگلے مرحلے کے لئے تیار کرنے لگا۔
“شاشہ کی بات نہ برا نہ منانا۔ میں نے بتایا ناں کہ وہ بوڑھی ہو رہی ہے۔ اس عمر میں لوگ چڑچڑے اور کچھ کچھ بدمزاج ہو جاتے ہیں۔ خاص کر جو شاشہ کے ساتھ ہوا اور تمہارے ہم وطن میرے والد نے جو سلوک کیا اس کے بعد ظاہر ہے اسے پاکستان سے نفرت ہو گئی۔ پلیز شاشہ کا برا نہ منانا۔ یوں تو شاشہ تمہارا استقبال کرے گی۔ میں نے اسے منایا تھا کہ تم کم سے کم ایک رات یہاں ہی گزارو گے۔ تمہارا کمرہ شاشہ نے خود ریڈی کیا ہے۔ اس کا مطلب وہ نارمل ہے مگر دوران گفتگو اگر ذکر چھڑ گیا تو مجھے نہیں معلوم وہ کیا کہہ ڈالے۔ پلیز تم سمجھ رہے ہو ناں ؟ “۔
“شاشہ ؟ مطلب تمہاری ماں ناں ؟ ”
“ہاں۔ ماں۔ اس کا نام شاشہ ہے”۔
“نہیں، اس کی فکر نہ کرو۔ میں سمجھ سکتا ہوں اور بڑوں کی بات کا برا منانا میرا کلچر بھی نہیں۔ میں ان کو برداشت کر لوں گا”۔
“بہت شکریہ۔ تم بہت اچھے ہو۔ میرے کہنے پر یہاں آ گئے اور ریسی اور شاشہ کو برداشت کر لو گے”۔ یکدم اس کی آنکھوں میں معصوم بچوں جیسی چمک ابھری۔ وہ مسکرا دی۔ یکدم وہ پہلے جیسی نارمل تاتانیا میں ڈھل گئی۔ میں بھی اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔ ہم دونوں لفٹ میں داخل ہوئے۔ جیسے جیسے لفٹ بالائی منزلوں کی جانب رواں تھی میں بس یہی سوچ رہا تھا کہ ریسی سے کیسے ملوں۔ دروازہ کھولتے ہی وہ سامنے ہو گی۔ مجھے بس فوری “پریویت” کہتے اس سے مصافحہ کرنا ہے اور گلے لگ کر اس کا ایک بوسہ لینا ہے بس یہ کام جلدی سے بھگت جائے پھر ریسی جانے اور تاتانیا جانے۔ بخار سے نکلتے ہی اک نئے بخار میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا تھا گو کہ ریسی جوان تھی، روسی بھی تھی، لازمی خوبصورت ہی ہو گی۔
“یہ ریسی سے تمہارا تعلق بہت گہرا لگتا ہے۔” میں نے ریسی کی بابت جاننا چاہا۔
“ہاہاہاہاہاہا، ہاں، ہم دونوں ساتھ سوتے ہیں۔”۔ اس نے قہقہہ لگاتے کہا تو اسی وقت لفٹ کی بیل بج گئی۔ میں یہ سن کر وہیں سن ہو گیا۔
“لفٹ سے باہر بھی آ جاو۔ یہیں رہنا ہے کیا ؟ “۔ تاتانیا نے باہر نکلتے کہا۔ میں نے سر کو جھٹکا دیا اور فوری لفٹ سے باہر نکل گیا۔ ماسکو میں آزادی کا پہلا دن تھا۔ طبیعت سنبھلتے ہی یہ کیا ماجرا خدا دکھلا رہا تھا۔ کچھ قدم راہداری میں چل کر ہم ایک اپارٹمنٹ کے دروازے پر کھڑے تھے۔ تاتانیا دروازے کو چابی لگانے لگی تو میں گھبرا گیا۔
“رکو، مجھے ذرا تیار ہونے دو۔ مجھے ایک منٹ چاہیئے ذرا گہری سانسیں لے لوں۔ تھوڑا نارمل ہو جاوں”۔
“اوہ۔ تم بالکل نارمل رہو۔ ریسی سے مت گھبراو۔ وہ بہت اچھی ہے۔ تم بالکل نہ گھبراو۔ اوکے ؟ “۔ تاتانیا نے مسکراتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ میں سانس روکے ماٹی کا بن بنا باہر راہداری میں کھڑا رہا۔
“ریسی۔۔۔ ریسی۔۔۔ “۔ اندر سے تاتانیا کی آواز آ رہی تھی۔ میرا دل گھبرا رہا تھا۔
“باہر کیوں رک گئے اندر آ جاو۔ ریسی باہر آ جائے گی”۔ اندر سے تاتانیا کی آواز آئی۔ میں نے لمبا سانس بھرا۔ راہداری میں دو نوجوان روسی لڑکے قریب واقع اپنے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑے سگریٹ پی رہے تھے۔ میں ان کو دیکھ کر مزید گھبرا گیا کہ ریسی کہیں باہر آ کر ان کے سامنے ہی نہ مجھ سے لپٹ جائے۔ اس سے اچھا میں اندر جا کر جو کرنا ہے کر لوں۔ خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے بیگ سمیت اندر داخل ہو گیا۔
جیسے ہی اندر داخل ہوا۔ ایک کتا لپکا اور میری ٹانگوں سے لپٹ کر جوتوں کو سونگھنے لگا۔ پھر اس نے میرے سفری بیگ کا چکر لگا کر سونگھا۔ میں بت بنا کھڑا تھا۔ کتے سے دھیان ہٹانے کو میں نے تاتانیا کو پکارا
“وہ ریسی کہاں ہے ؟ سو رہی ہے تو اسے ابھی نہ جگانا”۔
“ریسی تو تمہارے پاس ہے بخاری، یہ پریشان ہو رہی ہے۔ تم اسے پیار کر لو تو یہ نارمل ہو جائے گی۔ ورنہ یہ تمہیں سونگھتی ہی رہے گی۔”۔ وہ پلٹ کر بولی۔
میں نے کتے کو دیکھا۔
“یہ ریسی ہے ؟ مطلب کتا ؟ “۔
“اوہ بخاری، کتا نہیں کتیا۔ یہ میری جان ہے۔ پیاری ہے ناں ؟ ”
“ہاں، بہت ہی پیاری ہے۔ شکر ہے یہ ریسی ہے۔ کمال ہے۔ بہت پیاری ہے۔ میں نے اسے پیار کرنا ہے ؟ ”
“ہاں، نہیں تو شاشہ کو بلا لوں ؟ وہ بھی آتی ہو گی۔ کچھ اشیاء لینے مارکیٹ گئی ہوئی ہے”
میں نے کتیا کو بغور دیکھا۔ پھر جھک کر گھٹنوں کے بل بیٹھا۔ اس کے کانوں اور سر کو سہلایا۔ ریسی نے مجھے دیکھا۔ میرے ہاتھ کی پشت کو چاٹا، پھر مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے سوچا کہ یہ مزید پیار کی طلبگار ہے۔ میں نے اس کی کمر کو سہلایا۔ اس نے میرے قدموں میں سر رکھ دیا اور وہیں لیٹ گئی۔
“تاتانیا، تم مجھے بتا دیتی کہ ریسی تمہاری کتیا ہے۔ تم یوں کہہ رہی تھی جیسے کسی دوست کی بات کر رہی ہو۔ میں سمجھتا رہا کہ ریسی کوئی لڑکی ہے جو تمہاری بیسٹ بڈی ہے”۔
یہ سنتے ہی وہ چونکی، پھر یکدم قہقہہ لگاتی گئی۔ ہنس ہنس کر اس کا برا حال ہوا جاتا تھا۔ اسے بے تحاشہ ہنستا دیکھ کر مجھے بھی اپنے آپ پر ہنسی آ رہی تھی۔
“تم کیا سمجھے لڑکی ؟ اففف تم سچ میں پاکستان سے آئے ہو۔” وہ ہنستی جاتی اور ہنستے ہنستے اپنی پسلیوں پر ہاتھ دھرے آگے کو جھکے ہانپتی سانسوں سے بمشکل جملہ پورا کرتی۔
یہ صورتحال میرے واسطے میری غلط فہمی کے سبب عجب ہو گئی تھی۔ اس کے سامنے اب مجھے شرمندہ ہونا پڑ رہا تھا۔ میں اپنی شرمندگی کو اپنی ہنسی میں چھپاتا رہا۔ وہ ہنستی رہی۔
“ریسی لڑکی ہے۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ بخاری تم بہت مزاحیہ ہو۔۔۔ ” وہ مسلسل ایسے جملے دہراتے ہنستی ہنستی سامنے والے کمرے میں دھری کرسی پر جا بیٹھی۔ اس کی آنکھوں سے بے تحاشہ ہنسی کے سبب آنسو نکل آئے تھے۔ میں سر کھجاتے شرمندہ سا کھڑا تھا۔ عقب کے کھلے مرکزی دروازے سے گرجدار بھاری زنانہ آواز آئی
“تم دونوں کس بات پر اتنا ہنس رہے ہو ؟”
میں نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک عورت دروازہ اندر آ کر بند کرتے کھڑی تھی۔ درمیانہ قد، گوری رنگت، سر پر سکارف، دونوں ہاتھوں میں شاپنگ بیگز، چہرے پر نظر کی عینک، ماتھے پر شکنیں، عمر ہو گی پچاس سے اوپر۔ اس کا سکارف اسلامی تھا۔ میں یہ تو جان چکا تھا کہ یہ شاشہ ہو گی۔ میں نے اسے ہیلو کہا۔ اس نے مجھے کھڑے کھڑے سر تا پہ ایک نظر بغور دیکھا۔
“تم ہو، تاتانیا کے دوست پاکستان سے ؟” شاشہ نے جوتے اتارتے پوچھا تو میں ایک دو قدم الٹے پاؤں پیچھے ہٹا۔
“جی ہاں، میرا نام سید مہدی بخاری ہے۔ ” اتنا کہہ کر میں چپ ہو گیا۔ شاشہ نے جوتے اتار کر شو ریک میں دھرے۔ ننگے پاوں چلتے آگے بڑھی۔ میں اسے ٹک ٹک دیکھتا رہا۔ میرے عین سامنے آ کر کھڑی ہوئی۔
“تم دوسرے پاکستانی ہو جو میرے گھر میں داخل ہوا۔ اگر تم سفر سے تھکے ہو تو آرام کرو۔ ہاں، اونچا ہنسنا تم پاکستانیوں کی عادت ہے، میں جانتی ہوں، ہنسو ہنسو۔ کیا کوئی لطیفہ تھا جو میں نے مس کر دیا ؟”۔ شاشہ نے ٹھہرے ٹھہرے صاف شستہ انگریزی لہجے میں کہا۔ کہہ چکی تو آگے بڑھ کر کمرے میں داخل ہو گئی۔
“ہاں ماں، یہ ریسی کو لڑکی سمجھ رہا تھا۔ اس کو لگا کہ ریسی میں انسانی دوست ہے۔ میں اس کو سمجھا رہی تھی کہ ریسی کو پیار کرنا۔ یہ سب بہت مزاحیہ ہوا ماں۔ تم باہر تھی۔ تم دیکھتی تو پتا چلتا”۔ تاتانیا نے ماں سے شاپر بیگز لیتے کہا۔
“اچھا۔ تم کو بھوک لگی ہے تو کھانا موجود ہے۔ کھا سکتے ہو۔ جب تک یہاں ہو اسے اپنا گھر سمجھو۔ ” شاشہ نے صوفے پر بیٹھتے کہا پھر تاتانیا کو دیکھ کر بولی ” اسے واش روم کا بتایا ؟ اسے کمرہ دکھا دو۔ یہ شاید فریش ہونا چاہتا ہے”۔
شاشہ کا مزاج سنجیدہ تھا۔ وہ سکارف میں بالکل کسی پہاڑی دیہاتی عورت کی مانند لگ رہی تھی۔ میں اس کے سنجیدہ مزاج کو بھانپتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ایسے لوگ بظاہر بکتر بند گاڑی جیسے ہوتے ہیں مگر اندر سے بچوں جیسے نرم مزاج۔ بس وقت کی بات ہے۔ شناسائی میں وقت لگتا ہے۔ ابھی میں اس کے لئے اجنبی ہوں اور پاکستانی ہوں۔ ایک پاکستانی اس کی زندگی میں برسوں قبل آیا تھا جو اسے تاتانیا دے کر چھوڑ گیا۔ اب شاید کسی دوسرے پاکستانی سے وہ باآسانی نہ کھل پائے گی۔
“ہاں، صبح مجھے بخار تھا۔ اب بہتر ہوں۔ ٹیبلٹ لے لی تھی۔ بہتر ہے میں ہاتھ منہ دھو کر کچھ دیر آرام کر لوں”۔ میں نے شاشہ کو دیکھتے کہا۔
“بخار ٹھیک ہے تمہارا ؟ اگر بہتر ہو تو آرام کر لو۔ شام کو چائے پر ملتے ہیں۔ میں دوپہر میں سونے کی عادی ہوں۔ میرے آرام کا وقت بھی ہو گیا ہے”۔ شاشہ نے ویسے ہی سپاٹ چہرے سے جواب دیا۔ اس کے چہرے پر خوشی و غم کسی قسم کے آثار نہ آتے تھے۔ تاتانیا نے مجھے اپارٹمنٹ کا ایک کمرہ دکھا دیا۔ وہیں اسی کمرے کے ایک کونے پر چھوٹا سا کچن تھا۔ فرج تھی، شیلف پر فروٹ و سبزیاں دھری تھیں۔ یہ کھلا کمرہ تھا۔ دوسرے کونے پر صوفہ کم بیڈ تھا۔ تاتانیہ نے صوفہ کھول کر بیڈ بنا دیا۔
“تم یہاں سو سکتے ہو۔ یہ آرمدہ بیڈ ہے۔ اگر نیند نہ آئے تو بلا جھجھک کہہ دینا۔ میں یہاں آ جاوں گی اور تم میرے کمرے میں منتقل ہو جانا۔ مجھ سے کوئی جھجھک کی ضرورت نہیں۔ تم میرے مہمان ہو”۔
“نہیں تاتانیا۔ یہ سچ میں کافی ہے اور ایک مکمل بیڈ بن چکا ہے۔ مجھے کسی شے کی ضرورت نہیں۔”۔
“یہاں فرج ہے، اوون ہے، تم فرج کھول کے جو چاہے کھا سکتے ہو۔ فروٹ یہاں پڑے ہیں۔ پانی یہ رہا”۔ جاتے ہوئے اس نے دروازہ بند کر دیا۔ میں بستر پر لیٹا۔ کافی دیر شاشہ کے بارے سوچتا رہا۔ اس کی کچھ کچھ شباہت میری ماں جیسی بھی تھی۔ شاید اندرونی بخار کا اثر تھا کہ پھر آنکھ لگ گئی۔
“پتا نہیں تو کہاں کہاں پھرتا رہتا ہے۔ کیا ملتا ہے تجھے گھر سے دور پہاڑوں جنگلوں میں ؟ نہ آرام نہ اچھا کھانا۔ پتا نہیں کیوں چلا جاتا ہے بار بار۔ تیرا باپ زندہ ہوتا تو وہی تجھے روکتا۔” ماں کی آواز آتی رہی۔ گڈ مڈ خواب کا سلسلہ۔۔۔ “پھر تجھے بخار ہو گیا ناں ؟ ” ” نہیں ماں میں ٹھیک ہوں، میں ٹھیک ہوں، مجھے کچھ نہیں ہوا۔ مجھے کچھ نہیں ہوا۔۔۔” ” تو نے کچھ الٹا سیدھا کھایا ہے سفر میں اسی لئے ہوا ہے” ۔۔۔ “نہیں کچھ نہیں کھایا، کچھ ملا ہی نہیں۔ میں چھ دنوں سے بھوکا ہوں۔ ان چھ دنوں میں ایک ایک بدمزہ برگر اور ایک پلیٹ بریانی کھائی ہے”۔ ماں سرہانے آ بیٹھی۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ ماسکو میں شام اترتی رہی۔
یکایک آنکھ جھٹکے سے ڈر کے مارے کھلی۔ نجانے خواب کا سلسلہ کہاں پہنچ گیا تھا۔ میرے سامنے بیڈ کے اوپر شاشہ کھڑی تھی۔ اسے یوں سامنے دیکھ کر میں چونک کر اٹھ بیٹھا۔
“تم کو پانی چاہیئے ؟ تم خواب میں کچھ بول رہے تھے۔ تم کو کھانا چاہیئے ؟ تم بھوکے ہو ؟ تم بڑبڑا رہے تھے۔ تمہارا بخار ٹھیک ہے ؟ تم کو ڈاکٹر کے پاس جانا ہے ؟ میں کچن میں آئی تھی۔ تم گہری نیند میں تھے مگر بول رہے تھے۔ یہ پانی پی لو پھر چاہو تو قریب ہی ہسپتال ہے وہاں چلے جاو”۔ شاشہ کے چہرے پر فکرمندی کے آثار تھے۔ اس کے ایک ہاتھ میں پانی کی بوتل اور دوسرے میں شیشے کا گلاس تھا۔ وہ پریشان نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ می بیڈ سے پاوں نیچے اتارتے کھڑا ہوا۔ اس کے ہاتھ سے پانی کی بوتل اور گلاس لیا۔
“میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھے کچھ نہیں ہوا، سب ٹھیک ہے شاشہ۔ سب ٹھیک ہے”۔۔۔۔
شاشہ نے جاتے وقت اک بار پلٹ کر مجھے دیکھا۔ کچھ کہتے کہتے رکی۔ پھر دروازہ بند کر کے کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے جاتے ہی میں نے آستین سے آنکھیں پونچھیں۔ شاید وہ خواب کے سبب نم ہوا چاہتی تھیں۔ مسافر کا آستین سے گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ سفر میں آنکھ بھیگتی بھی ہے ، مسکراتی بھی ہے۔ سفر جنون کی داستان ہے۔ آستین حوصلے کا استعارہ، مسافر کا سہارا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply