• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گوجر خان کا راجہ اشتیاق سمجھ گیا تھا، کندھ کوٹ کا اجمل ساوند نہیں سمجھا/تحریر-عاطف ملک

گوجر خان کا راجہ اشتیاق سمجھ گیا تھا، کندھ کوٹ کا اجمل ساوند نہیں سمجھا/تحریر-عاطف ملک

پیرس  میں اُس کے کمرے سے ایفل ٹاور نظر آتا تھا۔

اونچی عمارتوں  سے پرے  ایفل ٹاور  کے  جنگلہ شدہ         فریم   کا       اوپری حصّہ  جس کے سِرے پر ایک علیحدہ تاج براجمان ہے ،دن میں بھی  عجب منظر  دیتا تھا، مگر رات کو  یہ منظر اور              ہوتا              کہ ایفل ٹاور  کے تمام جنگلے    سے  پیلاہٹ  آمیز روشنی  نظر آتی تھی جب کہ اس کے اوپر لگے تاج کی شکل اور اس   کی  نوک سفید  روشنی  پھینک رہی ہوتی۔

یہ کمرہ اجمل ساوند   کا تھا   اور  میں  وہاں بن بلایا  مہمان تھا۔   کمرہ چھوٹا تھا، طالب علموں کے ہوسٹل میں کمرے چھوٹے ہوتے ہیں، مگر رہنے والے بلندخیال ہوتے ہیں۔ وہ   خیال جو  کندھ کوٹ کے ایک سرکاری  سکول میں پڑھتے طالب علم   کو  پیرس کی  یونیورسٹی   تک   پی ایچ ڈی کرنے لے آیا تھا۔

میری اجمل سے یہ پہلی ملاقات تھی،  پہلی ملاقات اور میں اُس کا  بن بلایا مہمان تھا۔ ایسا مہمان جس کو اُس نے اپنا بستر دے دیا تھا ، اور اصرار کے باوجود     فرش  پر اپنا   بستر کر لیا تھا۔  مہمان کندھ کوٹ میں آئے  یا پیرس میں، بلایا گیا ہو یا بن بُلایا، مہمان ہوتا ہے۔

ایک  ہفتے قبل تک میں اجمل کو جانتا  بھی نہ تھا، اور اب وہ کمرے کے ایک جانب لگے الیکٹرک چولہے پر  میرے لیے کھانا  بنا  رہا تھا۔ کہنے لگا  ” ادا،  چاول اچھے بناتا ہوں،  فرانس آیا تھا تو کچھ پکانا نہیں آتا تھا۔ وقت سب کچھ سکھا دیتا ہے”۔

میں پاکستان سے یونیورسٹی آف سینٹ ایٹین   میں پڑھانے آیا تھا۔  سینٹ ایٹین  چھوٹا سا شہر ہے جو کبھی  کوئلے کی کانوں  کی وجہ سے مشہور     اور آباد تھا۔   ایک بہت بڑی تعداد  شمالی افریقہ کے مزدوروں کی تھی جو یہاں کان کن تھے۔الجزائری، تیونسی  تارکین وطن کی دوسری اور تیسری نسلیں اب موجود  ہیں۔ کوئلے کی کانیں اب بند  ہیں  اور شہر  کی آبادی  گھٹ رہی ہے، آدھے سے زیادہ    گھر  خالی پڑے ہیں۔ شہر کے چوراہوں میں الجزائری بوڑھے  اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تسبیحیں        ہاتھوں میں لیے  بیٹھے  گذرے ایام یاد کرتے نظر آتے ہیں۔

پورے شہر میں چار پاکستانی تھے، دو طالب علم اور دوسرے  دو       افراد  جو غیر قانونی طور پر وطن کو ترک کرکے آئے تھے۔  گوجر خان کا  راجہ اشتیاق تھا جو بیس سال قبل غیر قانونی طور پر فرانس آیا تھا، اور ابھی بھی اپنے کاغذ  سیدھے ہونے کے انتظار میں تھا۔  ماں باپ دونوں پیچھے مر گئے تھے اور اس نے  یہیں اکیلے اُن کو رو لیا تھا۔  مجھے اپنے ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں  کھانے پر بلایا   تو چرس کے سوٹوں میں اپنے غموں میں مجھے بھی حصہ دار کیا۔ پہلے پیرس میں رہتا تھا، رنگ روغن  کا کام کرتا تھا۔ زبان نہ آتی تھی سو اپنے  لوگوں کے ساتھ کام کرتا تھا  ۔ اپنے لوگ   کام بھی زیادہ لیتے تھے اور پیسے بھی مار جاتے تھے۔ رہائش بھی پیرس  میں مہنگی تھی، سو سینٹ ایٹین کا سُنا تو ادھر اُٹھ آیا۔ الصبح شہر سے باہر  منڈی سے تھوک میں  پھول خرید کر   لاتا تھا، پھر انہیں ڈالی ڈالی الگ کرتا تھا۔  گلاب کی ٹہنیاں چھیل کر کانٹے صاف کرتا  اور  پلاسٹک یا                           رنگین ورقوں میں لپیٹتا۔   رات جب اچھی طرح بھیگ جاتی تو وہ پھول لے کر شہر کے شراب خانوں  کا       رخ کرتا ۔  ایک  ایک میز پر جا کر   کلیاں پیش کرتا، ایسے میں   مزدور کی   رات گذر جاتی ، پھر وہیں سے منڈی  کا   رُخ کرتا کہ اگلی رات کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ۔    کام آسان نہ تھا،  کئی کئی میل پیدل چلنا  پڑتا، سائیکلیں بھی خریدیں مگر چوری ہوجاتیں۔  اکثر گالیاں سنتا، اپنے رنگ اور نسل پر گالیاں سنتا،  کئی دفعہ مار بھی پڑی، دو مرتبہ چاقوں سے بھی بچا۔  پاکستان یاد کرتا تھا مگر کہتا تھا کہ واپس نہیں جاؤں گا، میرے لیے وہاں کچھ نہیں ۔ پڑھا لکھا   زیادہ  نہ تھا   مگر غم دانشور بنا دیتا ہے ، کہنے لگا کہ  پاکستان ہم جیسوں کے لیے نہیں ہے ۔ میں پاکستان میں تیسرے درجے کا شہری تھا، فرانس میں دوسرے درجے کا شہری ہوں۔       ماں باپ پاکستان میں  دفن ہو گئے ، مجھے شہر کی کونسل یہاں دفن کر دے گی۔  کھوکھلی ہنسی ہنستا  ، اتنا  تو حق ہے کہ اتنے سالوں سے شہر میں محبت کے طلبگاروں کو  پھول بیچ کر راحت دی ہے۔

میں نے کورس پڑھانا مکمل کیا تو  سوچا      چار پانچ دن پیرس کی سیر کی جائے۔  سینٹ ایٹین  میں موجود  ایک پاکستانی طالب علم  نے بتایا  کہ اُس نے اجمل سے بات کی ہے   جس نے یونیورسٹی آف سینٹ ایٹین سے ماسٹرز کیا تھا اور اب پیرس میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے ۔وہ پیرس میں میزبان ہوگا اور   شہر  کے متعلق رہنمائی بھی کر دے گا۔

سو  اس طرح میں  پیرس   اجمل کے پاس پہنچا۔

میری اس سے یہ پہلی ملاقات تھی مگر اجمل ساوند کو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ صوفی عقائد رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک خود تکلیف اٹھالو مگر کسی کو تکلیف نہ دو۔  وہ سندھی اور میں پنجابی  تھا مگر اس رات دونوں  نے بات کی تو پتا لگا کہ اسمعیل اور جنید کا پشتو گیت “قرار راشہ” ہم دونوں کو پسند ہے۔ پھر ہم  نے ان کے دوسرے گیت ” پخوا” کو بھی “قرار راشہ” کے ساتھ  اُس رات خوب سنا۔  اس نے مجھے بتایا  کہ ایفل ٹاور پر جب میں جاؤں گا تو ایفل ٹاور کے ماڈل بیچتے  افریقی  بہت ملیں گے۔ وہ پولیس سے چھپ کر  ماڈل بیچ رہے ہوتے ہیں، پلک جھپکتے  غائب ہوجاتے ہیں۔ قیمت میں کافی کمی کی  گنجائش ہوتی ہے۔  اس نے میری پیرس سیر کی ترجیہات بنادیں۔

اجمل نے مجھے شاہ عبد الطیف بھٹائی کی شاعری سنائی۔ وہ شاعری جس میں  عورت ایک بہادری اور  حوصلہ کا نشان ہے۔   وہ خود بھی ایک حوصلے کا نشان تھا کہ ٹاٹ زدہ سکول سے سفر شروع کرکے فرانس میں پی ایچ ڈی تک پہنچا تھا۔ اجمل  معاشرے میں پھیلی عدم برداشت  ، افراط و تفریط،  استحصال  اور انصاف کی عدم دستیابی کی بات کرتا تھا۔ مجھے وہ ایک سوچتا شخص محسوس ہوا۔ میری پوٹلی میں بھی سندھی زبان کے کچھ الفاظ تھے جو اندرون ِ سندھ  میں رہتے اپنے  نانا   نانی کے پاس  ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں گذارتے اکٹھے کیے تھے۔ بھٹ شاہ میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر بھی حاضری دے چکا تھا۔ پھر اجمل کی طرح میں بھی کیڈٹ کالج میں پڑھا تھا، سو ہمارے پاس باتوں کے لیے بہت سے مشترک موضوعات تھے۔

پانچ دن بعد  میں  پاکستان واپسی کے سفر پر تھا۔ اجمل میرا                سامان اٹھائے ٹرین سٹیشن کی سیڑھیاں اُتر کر مجھے خدا حافظ کہنے آیا۔ ہمارا ایک تعلق قائم ہوگیا  جو کہ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر  باقی رہا۔

اجمل کے قتل کی خبر سنی تو  سمجھ نہیں آتی کہ کیا کہوں؟      ناگہانی  جوانی کی موت  ، بے وجہ ، کہاں قرار لاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اجمل کی موت کا  اصل ذمہ دار کون  ہے؟

سندرانیوں نے اپنے علاقے کے ایسے شخص کو قتل کیا ہے جس پر حقیقتاً      انہیں فخر ہونا چاہیے تھا۔ اکیسویں صدی میں قبائلی  دشمنی کو کیا  اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا  جاسکتا ہے؟   کیا سندرانی اس کے قصور وار ہیں؟   یا                وہ      نظام تعلیم جو فرسودہ روایات کے مقابلے میں اتنا ہی فرسودہ ہے جتنی وہ روایات ہیں۔    دنیا میں آتی ہمہ وقت تیز رفتار تبدیلی  میں کیوں ایک سماج ساکت کھڑا ہے؟

اس کا ذمہ دار کون ہے؟  قبائل، یا وہ  اشرافیہ     جو  اپنے   اغراض کو فوقیت تے ہیں ، جو پاکستان  کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ جن کی اولاد اور  دولت  بیرون  ملک ہیں۔   جنہیں بلوچستان کی نجی جیلوں میں سالہا سال سے سسکتے ،  بلکتے بچوں اور ان کے  والدین کی کوئی آواز نہیں آتی، جنہیں ایف  نائن پارک میں ریپ  ہوتی لڑکی کی التجاؤں  کا کوئی اثر نہیں ہوتا، جن سے سالہا سال گذرنے کے باوجود موٹر وے کا ایک ٹکڑا         نہ ٹھیک ہو سکا ،جہاں    کئی بسیں  اور گاڑیاں گر کر اموات کا باعث بن رہی ہیں،  کیا کہیں اور کیا  لکھیں کہ  فہرست لمبی ہے۔ان کے کرّ وفر میں کوئی کمی نہیں ، چاہے لوگ  بھوک کے  ہاتھوں اپنی اولادیں مار رہے ہیں، کہ یہ لوگ زمین کے خدا    ہیں    جنہیں اندھیرا                     دور کرنے  پر معمو ر کیا گیا تھا ، مگر  وہ اندھیرا              پالن ہیں کہ انہوں نے جان لیا کہ اندھیرے میں ہی ان کا فائدہ ہے۔ ایسے میں روشنی پھیلانے  کی بات کرنے والے کو بھی  مرنا ہوگا۔

گوجر خان   کا راجہ  اشتیاق   سمجھ گیا تھا،   کندھ کوٹ کا اجمل ساوند نہیں سمجھا تھا  ۔

کسے جگنو نے دسیا اے   ہنیرا    نال نئیں جمیا
تیرے پرکھاں دا ہانی اے، بڑی لمی کہانی اے

میں اکثر سوچداں رہناں خدا تسلیم کیتا اے،
خدا تسلیم نئیں کردا، جمع تقسیم نئیں کردا،
پھر آپے سوچ لینداں ہاں خداواں دے خداواں توں
خدا نے مار کھانی اے، بڑی لمی کہانی اے

Advertisements
julia rana solicitors london

(صابر علی صابر)

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply