لاڈلا یابدنما دھبہ۔۔محمد اسد شاہ

جب  میاں محمد نواز شریف کی مقبولیت ایک مخصوص حد سے تجاوز کر گئی تو مقتدر قوتوں کی بالادستی کو خطرہ محسوس ہوا – غالباً تب ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مقبولیت کو ختم کیا جائے اور ایسا مہرہ سامنے لایا جائے جو مقتدر قوتوں کی طے کردہ حدود میں رہے – اس موقع پر مقتدرہ سے دو غلطیاں ہوئیں – پہلی غلطی یہ کہ میاں صاحب کی مقبولیت کو عوامی ناپسندیدگی میں بدلنے کی کوئی حد مقرر نہ کی گئی – بل کہ تحقیر و تذلیل ، طعن و تشنیع اور الزام و دشنام کا لا محدود طوفان برپا کر دیا گیا اور اس بات پر غور ہی نہ کیا گیا کہ “چراغ سب کے بجھیں گے ، ہوا کسی کی نہیں” – دوسری غلطی یہ کہ میاں صاحب کی تحقیر کر کے نیا حکمران بنانے کے لیے جس مہرے کو چنا گیا ، اس کی شخصیت کا نفسیاتی و ذہنی معائنہ نہیں کروایا گیا – اس مہرے نے معاشرے کو تباہی اور تقسیم کے اندھے کنوئیں میں دھکا دے دیا – زرداری دور میں ہی یہ صاف نظر آنے لگا کہ 2013 میں آنے والے انتخابات میں میاں صاحب کے علاوہ کسی اور کے جیتنے کا کوئی امکان دور دور تک نہیں تھا – یہ بات ان لوگوں کے لیے قطعاً پسندیدہ نہیں تھی جو خود کو اس ملک کے بلا شرکت غیرے مالک سمجھتے تھے – انھی لوگوں میں سے ایک نے تب صدر آصف علی زرداری صاحب کے ساتھ ملاقات میں عمران خان کو حکمران “بنانے” کی خواہش کا اظہار بھی کر دیا- عمران کرکٹر تھا اور بعض ملکی و غیر ملکی لابیز تقریباً تین دہائیوں سے اسے ایک ہیرو بنا کر پیش کرتی آ رہی تھیں – اس شخص پر بہت سرمایہ کاری کی گئی – جس طرح میاں صاحب کے بغض میں تمام حدود پامال کی گئیں ، اسی طرح عمران کو مقبولیت دلوانے میں بھی تمام توانائیاں اور وسائل بے لگام چھوڑ دیئے گئے – یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی بقاء ، ترقی اور خوش حالی کا راستہ آئین کی بالادستی سے منسلک ہے – تمام اداروں کو آئین کی طے کردہ حدود کے اندر رہنا ہو گا ، ورنہ خرابی اور تنزل کا سفر تیز تر ہوتا جائے گا – نام نہاد مقتدر قوتوں کا مقتدر ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے – کوئی ایک طبقہ یا گروہ خود کو کس بنیاد پر مقتدر سمجھے؟ کسی بھی حلقے کو کوئی آئینی یا اخلاقی حق قطعاً حاصل نہیں کہ وہ سیاست اور سیاسی شخصیات کی قسمتوں یا حکومتوں کے بنانے اور بگاڑنے کے فیصلے کریں – لیکن اگر کسی معلوم یا نامعلوم حلقے نے ، بزعم خود کسی بہتری کے نام سے، اگر میاں صاحب کی مقبولیت کو کم کرنے اور عمران کو مصنوعی مقبولیت دلوانے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو اس کے لیے خود اپنے ان غلط ارادوں کی کوئی حدود متعین کرنا بھی ضروری تھا – خاں صاحب کا ذہنی و نفسیاتی تجزیہ کرنا مشکل نہیں – آپ ان کی صرف دو یا تین تقریریں ہی سن لیں اور ان کے چہرے کے تاثرات پر غور کر لیں تو ان کی اندرونی کیفیات اور پیچیدگیاں عیاں ہو جاتی ہیں – سادہ سی ایک بات ہے کہ خاں صاحب خود اپنی ذات کے علاوہ کسی کو اہمیت نہیں دیتے – نرگسیت آخری سیڑھی پر بیٹھا یہ شخص اس ملک ، آئین اور معاشرے کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہوا ، اس کا درست تعین کرنے میں وقت لگے گا – جب تک خاں صاحب اپوزیشن میں تھے تو حکومت کو نہیں مانتے تھے – جب خود حکومت میں آئے تو اپوزیشن کو تسلیم کرنے سے منکر رہے – مغرب کو سمجھنے کے دعوے اور خالص جمہوریت کی اعلیٰ ترین مثالیں دینے والے کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اپوزیشن کا وجود کس قدر لازمی ہے – اب پھر جب خاں صاحب دوبارہ اپوزیشن میں ہیں تو حکومت کو ماننے سے پھر انکاری ہیں – دوسروں کے ارکان کو خریدتے یا توڑتے ہیں تو فخر سے کہتے ہیں؛ “وکٹ اڑا دی”- اور جب دوسرے ان کے کسی رکن کو توڑیں تو کہتے ہیں ضمیر فروشی ہوئی ، منڈیاں لگی ہوئی ہیں وغیرہ – پھر اپنے کارکنوں کو باقاعدہ گالم گلوچ ، مخالفین پر کیچڑ اچھالنے ، سوشل میڈیا پر ان کے ساتھ بدتمیزی کرنے ، ان کی ذاتی زندگیوں پر حملے کرنے ، انھیں چور ڈاکو کہنے تک کی ترغیب خود دیتے ہیں – عمران نے اپنے کارکنوں کی تربیت ایسی کی کہ اب انھیں امام الانبیاء خاتم النبیین سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ اطہر اور مسجد نبوی جیسے مقدس و مطہر مقامات کا بھی لحاظ یاد نہیں – تحریک عدم اعتماد آئی تو خاں صاحب جمہوریت ، آئین ، اصول اور قانون کا ستیاناس کرنے پر تل گئے – پندرہ دن کے اندر ووٹنگ کروانا لازمی تھا – اور سولھویں دن اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس تھا – آئینی مدت کے بعد ہونے کی وجہ سے یہ کانفرنس تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے راستے میں رکاوٹ نہیں تھی – لیکن خاں صاحب نے پہلے چودہ دن تو اجلاس ہونے ہی نہ دیا – پندرہویں دن بھی ووٹنگ کی بجائے سولھویں دن کی وزرائے خارجہ کانفرنس کے بہانے اجلاس ملتوی کر دیا – اس کے بعد مقتدر حلقوں کی منتیں ترلے ، اندر خانے دھمکیاں اور اپوزیشن کو لالچ دینا شروع کر دیئے کہ تحریک عدم اعتماد واپس لیں – پھر یہ ضمانتیں مانگی جانے لگیں کہ خاں صاحب اور ان کے نورتنوں کے خلاف کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کی جائیں گی – جب کسی طرح دال نہ گلی تو جلسے شروع کر دئیے – ایک کھلاڑی کے بددیانت ہونے کا یہی ثبوت کافی ہے کہ وہ میچ کا فیصلہ گراؤنڈ کے اندر موجود کھلاڑیوں کے ذریعے نہیں ، بل کہ پویلین میں لائے گئے تماشائیوں کے ہجوم کے ذریعے چاہتا ہو – خاں صاحب نے یہی کام کرنے کی سازش کی – کہا گیا کہ جب پارلیمنٹ کے اندر ووٹنگ ہو گی تو پی ٹی آئی کے دس لاکھ مشتعل کارکن پارلیمنٹ کے باہر کھڑے ہوں گے – عمران کے خلاف ووٹ دے کر باہر آنے والے ہر رکن اسمبلی کو ان دس لاکھ مشتعل افراد کے درمیان سے گزرنا پڑے گا – پارلیمنٹ لاجز پر پولیس کے ذریعے چڑھائی کی گئی اور دو ایم این ایز کو گرفتار کروا لیا گیا – دیگر ارکان کو خطرہ محسوس ہوا تو وہ سندھ ہاؤس میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے – لیکن پھر سندھ ہاؤس پر بھی پی ٹی آئی ورکرز کے ذریعے حملہ کروا دیا گیا – سارے حربے بے کار ثابت ہوئے تو 3 اپریل کو ایک انوکھا کام دکھا دیا – جس تحریک عدم اعتماد کو منظور یا مسترد کرنے کا اختیار صرف قومی اسمبلی کا تھا ، اسے ڈپٹی سپیکر نے ذاتی اور پارٹی ورکر کے طور پر مسترد کرنے کا اعلان کر دیا ، جس کی کوئی آئینی دلیل یا جواز کہیں نہیں تھا – یاد رہے کہ ڈپٹی سپیکر وہ شخص تھا جس کا رکن اسمبلی ہونا بھی عدالت میں زیر بحث تھا – دھاندلی کے ذریعے اسمبلی میں گھسنے کا الزام ثابت ہونے کے باوجود سٹے آرڈر پر اسمبلی کو ڈکٹیٹ کرتا رہا – ڈرامے بازی کی انتہاء دیکھیے کہ ایک منٹ میں سوری نے تحریک عدم اعتماد کا راستہ غیر آئینی طور پر بند کر دیا ، دوسرے منٹ میں خاں صاحب نے قوم سے خطاب بھی کر لیا اور اسمبلی توڑنے کا خط بھی بھیج دیا – تیسرے منٹ میں عارف علوی نے اسمبلی توڑنے کا حکم بھی جاری کر دیا اور چوتھے منٹ میں خود خاں صاحب غیر معینہ مدت تک کے لیے وزیراعظم بھی بن گئے – یعنی ایسا شخص ہماری مقتدرہ کا لاڈلا ہے ، یا خود مقتدرہ کی مردم شناسی پر انتہائی بدنما دھبہ ہے – تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائے بغیر مکمل غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کر لیا گیا – عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا پڑا – حکم جاری ہوا کہ 9 اپریل کو ووٹنگ کروائی جائے – اس دن اجلاس بلا کر ووٹنگ کی بجائے پھر سے ڈرامہ بازی شروع کر دی گئی – پورا دن گزار دیا – حتیٰ کہ نصف شب کو پورا ملک بے چین ہو گیا – تمام اداروں کو ملک بچانے کے لیے اٹھنا پڑا – عدالت میں درخواستیں آنے لگیں – عدالت کھولنا پڑی – جب خاں صاحب بے بس ہوئے تو بھی ووٹنگ کی بجائے سپیکر نے استعفیٰ دے کر سابق سپیکر ایاز صادق سے درخواست کی کہ ووٹنگ کروائیں –

Advertisements
julia rana solicitors

خاں صاحب کا مزاج اور سوچ یہی ہے کہ جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو کسی اور کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں – چناں چہ اسی لمحے سے نئے انتخابات کا شور مچا دیا – پی ٹی آئی کے صدر عارف علوی نے وفاق اور اسی جماعت کے گورنر عمر سرفراز چیمہ نے پنجاب میں آئین کی پاس داری کی بجائے خاں صاحب کے ملازمین بن کر مصنوعی بحران پیدا کر رکھا ہے – اس پر مستزاد خاں صاحب مسلسل یہ کہے جا رہے ہیں کہ ان کے خلاف امریکا نے تحریک عدم اعتماد پیش کروائی – اس سے بڑا جھوٹ اور لطیفہ شاید برصغیر کی تاریخ میں نہیں سنا گیا ہو گا – سوال یہ ہے کہ خاں صاحب نے امریکی غلام بن کر ملکی مفادات کا بیڑا غرق کر دیا ، پھر امریکا ان کے خلاف سازش کیوں کرے گا؟ سی پیک کو منجمد کرنا ، ایران سے گیس معاہدہ توڑنا ، سٹیٹ بنک کو امریکی سرپرستی میں آئی ایم ایف کے حوالے کرنا ، مقبوضہ کشمیر سے عملاً دست برداری اختیار کرنا ، آئی ایم ایف کے ملازمین کو ملک کے حساس اداروں کی سربراہی دینا ، کئی امریکی شہریوں کو وفاقی کابینہ کا حصہ بنائے رکھنا اور افغانستان سے نکلنے والی امریکی فوجوں کو اسلام آباد کے ہوٹلز میں ٹھہرانا ایسی شرم ناک کارروائیاں ہیں کہ جن کی وجہ سے مخالفین کھلم کھلا عمران کو امریکی ایجنٹ قرار دیتے ہیں ، اور خود امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی عمران کی ان “خدمات” کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے – اس کے باوجود الٹا سازش والے ڈرامے اور فوری الیکشن کے مطالبے سے خاں صاحب کیا چاہتے ہیں ؛ اپنی حکومت کی چار سالہ نااہلی اور کرپشن سے عوام اور حکومت کی توجہ ہٹانا ، ملک کو مستحکم حکومت سے محروم رکھنا اور قوم کو مسلسل تقسیم اور نفرت میں مبتلا رکھنا – یہ رویہ درست کرنا ہو گا – اپنا رویہ اگر خاں صاحب خود درست نہیں کر سکتے تو ریاست اور حکومت کو یہ ذمہ داری ادا کرنا چاہیے – سیاسی رواداری اگر خاں صاحب نے آج تک نہیں سیکھی تو عمر کے جس حصے میں وہ ہیں ، شاید آئندہ کبھی سیکھ بھی نہ سکیں – لیکن ان کی پارٹی کو تو سوچنا چاہیے – خاں صاحب کے بچے برطانیہ میں رہتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے باقی لیڈرز کے بچے تو اسی ملک میں ہیں – اس ملک کو نفرت اور اشتعال کی آگ سے نکالنا خود ہی ٹی آئی کی “باشعور قیادت” کا بھی فرض ہے اور مقتدر حلقوں کا بھی –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply