اس نے مجھے محبت کے ایسے رنگ سیکھائے ہیں
دشمن بھی میرے لوٹ کے پھر سے آئے ہیں
اس نے میری بغض کی راہوں میں
پانی سے گلزار بنائے ہیں
اس نے مجھے محبت کے وہ ڈھنگ سیکھائے ہیں
امن کے پر سفید پھول ساتھ لائے ہیں
اس نے مجھے
محبت ہی محبت کر دیا ہے
نفرت کے بیج سے محبت کے پودے اگائے ہیں
اس نے مجھے محنت کے نئے رنگ سیکھائے ہیں
حسد کی آگ میں ابلتے مزاج کو
چشموں سے آشنا کرتے ہوئے
میٹھے پانی کے ذائقے بھی بتائے ہیں
اس نے محبت کے ایسے رنگ سیکھائے ہیں
ایسے رنگ بتائے ہیں کہ میری زندگی مقابلے کے پل صراط سے اتر کر
عاجری کی ندی کے چشمے تلاشنے لگی ہے
انسانیت کی خیر مانگنے لگی ہے
اس نے مجھے
اس نے مجھے فرد واحد کے عشق سے نکال کر
انسانیت کے عشق میں کیا ہے مبتلا
اس مبتلاء کیف نے
آسماں کی سیر کرائی ہے
میں نے اک نئی زندگی پائی ہے
جس کو محبت کہتے ہیں
جس کو محبت کہتے ہیں
وہ سارے رنگ اس کے ہیں
وہ سارے ڈھنگ ‘
وہ ست رنگ
وہ قوس قزاح
وہ چودھویں کا چاند
پتھر سے پھوٹتے رنگین چشمے
وہ سب کے سب
اس کے ہیں
جو سر تاپا خیر ہے
جو سر پا محبت ہے
جو محبت کی پیامبر بھی ہے
جو عشق کا سمندر بھی ہے
جس سے سب سیر ہو کے لوٹتے ہیں
وہ چالیس چراغ عشق کے
وہ ایسا کوئی جادو ہے
وہ ایسی کوئی سحر ہے
کہ
جو سب پہ طاری ہو جائے
وہ ایسا کوءی فیض ہے
جو اک بار جاری ہو جائے
تو ہو جائے
جس نے مجھے محبت کی وسعت بتائی ہے
جس نے مجھے محبت کرنا سیکھائی!
Facebook Comments