خان کی تقریر۔۔تنویر احمد خان

ایک صحافی کے لئے بڑا مشکل ہوتا ہے سیاستدانوں کی تعریف کرنا ،کیونکہ بعد میں انہی کو تنقید کا نشانہ بنانا پڑتا ہے، جب وہ کوئی اچھا کام نہیں کر پا رہے ہوتے۔
عمران خان نے جس انداز، اعتماد اور جرات سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا ہے، وہ واقعی قابلِ تحسین ہے۔

خان کی تقریر میں سوائے سیاسی مخالفین کے خلاف عالمی فورم پہ بے وجہ کے واویلے کے مجھے تو سب کچھ پریگمیٹک لگا۔ عمران نے کھل کر بقول جارج بش کے ویسٹرن کروسیڈرز، ٹرمپ کے اسلامک ٹیریزم کاؤنٹر میئرز اور اب ہندوتوا و اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے مسلم و پاکستان دشمنی کے نئے اتحاد سے کھل کر مکالمہ کیا اور ان عوامل کی طرف توجہ دلائی جن سے فرد اور معاشرے کی سطح پر فساد یا آتنک پھیلتا ہے۔

اس نے آج کی دنیا کو اسکے دہرے معیار گنوائے، انہیں انہی کی زبان میں فیئر نوشنز آف جسٹس اینڈ ایکویٹی سمجھائے جو سب پر اپلائی ہونا چاہئیں۔ عمران اس سارے اظہار میں کسی مصلحت یا مرعوبیت کا شکار نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے عیار ہندو کی طرح گراوٹ دکھا کہ ہندو مذہب کے خلاف دشنام کا کوئی جال بنُا۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کے موجودہ سیاستدانوں میں سے کوئی بھی کبھی ایسا کر پایا ہے۔

جانوروں سا درجہ رکھتے سیاہ فاموں کو انکے حقوق دلانے والا مارٹن لوتھر کنگ بھی تو تقریریں ہی کرتا تھا۔ گو عمران مارٹن لوتھر کنگ نہیں ہے لیکن عالمی برادری کو اپیل ضرور کرتا ہے۔ اب اگر تقریر کی بات کریں تو مارٹن لُوتھر کنگ کی مشہور زمانہ تقریر بھی صرف ایک تقریر ہی تھی۔
ڈنڈا لیکر تو مارٹن لُوتھر بھی مخالفین پر نہیں پل پڑا تھا اور نہ ہی اس نے توپیں چلانا شروع کردی تھیں۔ نہ ہی راتوں رات نسلی علیحدگی کے قوانین ختم ہوگئے تھے۔ نہ ہی سفید فام امریکہ راتوں رات اپنی رائے بدل گیا تھا۔ نہ ہی سیاہ فاموں کے معاشی مسائل اس کی تقریر سے ختم ہوگئے تھے۔ ہاں مگر جمود کی زنجیریں جری الفاظ سے ہی پگھلنا شروع ہوئی تھیں۔

جانتا ہوں کہ بطور صحافی میری خان کی تقریر سے الفت مشروط ہونی چاہیے، اور جب تک معاملات اور اندازِ حکومت میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے ،تنقید جاری رہنی چاہیے،لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ عالمی فورم پہ خان پاکستان کی نمائندگی کر رہا تھا اور اسکا مخاطب کون سے ناخدا تھے، یہ تو سبھی جانتے ہیں۔

یہ خان کے سیاسی کیریئر کا اب تک کا بہترین اور جرات مندانہ لمحہ تو بہرحال تھا۔ ملکی سطح پر کچھ نہ کچھ بال ٹیمپرنگ سہی مگر عالمی فورم پر اچھی اننگز کھیل گیا ہے خان۔
دنیا نے دیکھا کیسے اس تقریر کے چند گھنٹے بعد ہی اسکے امریکہ سے پاکستان واپس آتے سعودی شاہی بیڑے کے دنیا کے بہترین اور محفوظ ترین جہاز کا الیکٹریکل سسٹم مبینہ طور پر فیل کر کے خان کو خبردار یا ختم کرنے کی کوشش ہوئی جسے جہاز کی فنی خرابی بتایا جا رہا ہے۔ بطور صحافی میری تشکیک اور تجزیے کی صلاحیت مجھے اتنا تو سمجھاتی ہے کہ پسِ پردہ عوامل کو بھانپ سکوں۔
لگتا ہے کہ تقریر کی للکار سے پٹواری اور ہندوتوا کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں اور ان کی سرپرستی میں قائم انتظام کے مہروں کا دل کچھ زیادہ ہی جل گیا ہے۔

افسوس کہ آج سوشل میڈیا پر بھارت اور مغرب سے مرعوب پٹواری اور خودساختہ دانشور بنے کچھ بےحمیت پاکستانی ایسے بھی ہیں جنہوں نے پاکستان اور پاکستان کے وزیرِاعظم کے خلاف بھارتی میڈیا کی ہر خبر مذہبی فریضہ جان کر بار بار شییئر کی لیکن پاکستان یا کشمیریوں کی حمایت میں مہینوں اور سالوں سے کچھ بھی شیئر نہ کر سکے۔
سہی تو کہہ رہے ہیں پٹواری کہ تقریر سے کیا ہوتا ہے، عمران کو گلو بٹوں کی فوج کے ساتھ یو این کا وہی حشر کرنا چاہیے تھا جو نوازشریف نے جسٹس سجاد شاہ کی عدالت کے ساتھ کیا تھا۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ انہیں جب بھی موقع ملے گا تو یہ پاکستان کے خلاف امن و انصاف اور انسانی حقوق کے داعی بن کر زہر اگلیں گے لیکن مظلوم کشمیریوں کے حق کے لیے ہونے والی کسی بھی جدوجہد کا کبھی حصہ نہیں بنیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنہیں نبی محمدﷺ اور اسلام کے نام سے منسوب ہوتے ہوئے تو سخت شرم آتی ہے لیکن ہندوستان میں فساد پہ مائل ہندوتوا کا گیروی رنگ پہن کر بھجن گانے سے ازلی شانتی ملتی ہے۔سخت دوغلے ہیں ایسے بےحمیت کردار جو پاکستان کے کسی صدر یا وزیرِاعظم کی تقریبِ حلف برداری میں قرآن پہ لیے گئے کسی حلف پہ تو مذہب کو جھٹلاتے ہوئے مر جائیں گے۔ لیکن اگلے ہی دن کسی امریکی صدر کے بائبل پہ لیے گئے حلف اور اسکے بعد چرچ میں کی گئی عبادت پر مسکراتے نظر آئیں گے۔
جو ہندو مذہب کے تہواروں پہ تو منہ نیلا پیلا کر کے ناچتے پھریں گے لیکن عید، شب برات یا میلاد پر تکلیف سے دہرے نظر آئیں گے۔
ان لوگوں کے لیے میرا ایک ہی پغام ہے۔
یار لوگو، تم ایکسپوز ہو چکے ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply