روم اٹلی میں امیگریشن کا نفرنس ہو رہی تھی جس میں مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والے ماہرین خطاب فرما رہے تھے اور تارکین وطن شہریوں اور مہاجرین کے حقو ق کے لئے دلائل کی بھرمار کر رہے تھے اسی دوران مائیک ایک عمر رسیدہ خاتون پروفیسر کو دیا گیا اس نے اپنے خطاب میں یہ کہہ کر سب کو سکتے میں ڈال دیا کہ وہ امیگرنٹس کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہیں گی بشرطیکہ وہ مسلمان نہ ہوں۔اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وہ مسلمانوں سے شدید نفرت کرتی ہے اور اس کے خیال میں یہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی مدد کی جائے ان کے نظریا ت ہم سے بہت مختلف ہیں اور یہ دیگر معاشروں میں ضم ہونے کے قابل نہیں ہیں پورے ہال میں خاموشی چھا گئی میرے علاوہ دو چار اور بھی افریقی مندوبین ایسے تھے جو مسلمان تھے ہم ایک دوسرے کا منہ تکنا شروع ہوگئے پورے ہال کی نظریں اب اس خاتون کی جانب مرتکز تھیں کہ وہ اپنے الزام کی کوئی توجیہہ پیش کرے
وہ گویا ہو ئی کہ ”میں کسی بھی مذہب پر یقین نہیں رکھتی ہوں میرے خیا ل میں مذاہب لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے ہیں اس لیے میں مذہب ، رنگ نسل اور نظریات کی بنیاد پر متعصب نہیں ہوں لیکن میرے خیال میں یہ اخلاقی اقدار ہی ہوتی ہیں جو کسی مذہب کی پہچان بنتی ہیں “ اس نے توقف کرتے ہوئے بتایا ”کہ ایک دفعہ ایک مراکش کی لڑکی اس کے گھر گھریلو ملازم کی نوکری کے لیے آئی اسے گھریلو ملازم کی ضرورت نہیں تھی لیکن لڑکی نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ اٹلی میں غیرقانونی طور پر مقیم ہے اور اس کے پاس نہ سونے کو چھت ہے اور نہ ہی کھانے کے لیے کوئی انتظام اور چونکہ اس کے پاس اٹلی کے قانونی رہائشی دستاویزات نہیں ہیں اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ اٹالین پولیس کے ہاتھوں پکڑی جائے اور مراکش ڈی پورٹ کردی جائے ایسی صورت میں اس کے خاندان والے کیا کریں گی جنہوں نے بڑی امیدوں سے اسے اٹلی بھیجا تھا “
بوڑھی پروفیسر کو اس کی درد بھری داستان پر رحم آگیا اور اس نے اسے اپنے گھر میں ملازم رکھ لیا اسی دوران اٹلی کی امیگریشن بھی کھل گئی جس میں حکومت اٹلی نے اطالوی شہریوں کو موقع دیا کہ وہ اپنے گھریلو ملازمین کو اٹلی کے رہائشی دستاویزات دلوا سکیں اطالوی خاتون پروفیسر نے اس کی بھر پور مدد کی اور اسے اٹلی کارہائشی اجازت نامہ بھی دلوا دیا خاتون کا کہنا تھا کہ مراکشی خاتون بہت مذہبی تھی پانچوں نمازیں ادا کرنے والی اور رمضان میں روزے رکھنے والی اطالوی پروفیسر اس کی ہر ممکن مدد کرتی کہ وہ اپنے مذہبی روایات کو بھرپورطریقے سے ادا کر سکے لیکن جوں ہی اس مراکشی مسلمان خاتون کو اٹلی کے ڈاکومنٹس ملے تو اس کے رویے میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی اس دوران اطالوی عمر رسیدہ پروفیسر بیمار ہوگئی اور اسے واقعی گھریلو ملازم کی مدد کی ضرورت پڑگئی لیکن مراکشی خاتون کو چونکہ اب اطالوی دستاویزات مل چکے تھے اس لئے وہ کسی بہتر کام کی تلا ش میں تھی پروفیسر صاحبہ اسے کہنے لگی کہ وہ ایک دو مہینہ ٹھہر جائے تاکہ جب وہ مکمل طور پر صحت یاب ہوجائے تو اس کے بعد وہ جا کر اپنا کام تلا ش کر لے مراکشی تارک وطن خاتون نے انکار کردیااس بات پر بوڑھی پروفیسر نے اسے اپنے احسان یاد دلائے اور کہا کہ “میں نے تمہارے لیے کیا کچھ نہیں کیا ؟اور تم مجھے اس حالت میں چھوڑ کر جانا چاہتی ہو اور میری مدد نہیں کرنا چاہتی “ اس کے جواب میں مراکشی خاتو ن نے ایک جملہ کہا کہ ”ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ کوئی کسی کے لیے کچھ نہیں کرتا بلکہ جو بھی کرتا ہے اللہ کرتا ہے “یہ وہ جملہ تھا جو اس بوڑھی پروفیسر کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہوگیا اسے اسلام اور مسلمانوں سے نفرت ہوگئی اور اس کے دل میں یہ رائے پختہ ہوگئی کہ مسلمان ایک ملٹی کلچرل سوسائٹی میں رہنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک انسان انسان کے لیے کچھ نہیں کرتا بلکہ سب کچھ پہلے سے طے ہے اور شاید اسی لیے ان میں شکریہ ادا کرنے کا بھی کوئی تصور موجود نہیں ہے
کسی بھی نظریہ کو سمجھنے کے لیے کسی معلم کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے ہم مسلمان اپنی دینی تعلیمات کی آگاہی حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی کسی اہل علم کی تلاش نہیں کرتے بلکہ صرف ظاہری حلیہ کی بنیاد پر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کوئی کتنا اچھا مسلمان ہے اس لیے ایسی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تبلیغ کے معاملے میں تو ہم اتنے سادہ ہیں کہ ان پر بھی بھروسہ کر لیتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ خود سیکھنے کے لیے آئے ہیں اس لیے بعض دفعہ ایسی باتیں جو عام شعور والے انسان کی سمجھ میں بھی آسکتی ہیں ہمارے لیے مبہم بنا دی جاتی ہیں کچھ جماعتیں یہ بات ضرور زور و شور سے سمجھاتی ہیں کہ جو بھی کرتا ہے اللہ کرتا ہے اور اس یقین کو دل میں جاگزیں کروانے کے لیے محنت کرتی ہیں لیکن اگر اللہ نے سب کچھ پہلے ہی طے کر دیا ہے تو قضا وقدر اور سزا و جزا کا تو تصور ہی بے معنی ہوجاتا ہے نہ توپیغمبروں اور رسولوں کی ضرورت پیش آتی اور نہ ہی اللہ تعالی ٰ معاشروں اور اس نظام کائنات کو وجود دیتااور ان میں اچھائی برائی ، بدی نیکی ، تندرستی صحت ، غمی خوشی ،احسان و صلہ رحمی ، عفو و درگزر ، بداخلاقی اور اخلاق جیسی روایات کی ضرورت ہی نہ ہو تی
ہم لوگ نہ تو قرآن سے راہنمائی لینے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اسے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں قرآن کو ہم ایک ثواب والی کتاب سمجھ کر اس کو رمضان المبارک میں ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ اس سال رمضان میں ہم نے اتنی دفعہ قرآن کی تلاوت کی ہے تمام مساجد میں بڑے زور و شور سے نماز تراویح کے دوران پورے قرآن کی تلاوت سننے کی روایت موجود ہے بعض لوگ کئی کئی سالوں سے قرآن سن رہے ہیں او ر ہر رمضان قرآن سنا بھی رہے ہیں لیکن ان سے پوچھاجائے کہ اس سال انہوں نے کونسی آیت کا ترجمہ جاننے کی کوشش کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ان کا اللہ ان سے کیا کہہ رہا ہے تو ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگااسی لیے رمضان میں عبادات کا اہتمام تو زور شو ر سے جاری ہے اور ان کے ادا کرنےکی تبلیغ تو بڑے اہتمام سے سنیں گے لیکن کوئی مولوی صاحب آپ کو یہ نہیں کہیں گے ذخیرہ اندوزی نہ کریں ، کسی تاجر کو یہ تبلیغ نہیں کریں گے کہ اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں آسمانوں پر نہ لے جائیں ، ٹی وی پر رنگ برنگے زرق و برق والے لباس پہننے والے اینکر کو یہ تبلیغ نہیں کریں گے کہ اسلام میں سادگی کا درس ہے ، بڑے بڑے سیاستدانوں کی دعوت افطار میں جا کر یہ نہیں پوچھیں گے کہ اس افطار پارٹی میں غریب اور محتاج کتنے بلائے گئے ہیں ، مسجد کو ہزاروں روپے چندہ دینے والے سرمایہ داروں سے کبھی یہ نہیں پوچھیں گے کہ اپنے مزدور کر مزدوری پوری ادا کی ہے کہ نہیں کسی سرکاری ملازم کو یہ تبلیغ نہیں کریں گے کہ کہیں رمضان کا بہانہ بنا کر کسی کی فائل تو نہیں دبا دی کہ اس کا کیس رمضا ن کے بعد حل کریں گے کہ روزہ میں کام نہیں ہوگا ، کسی پولیس والے کو یہ تبلیغ نہیں کریں گے کہ عیدی کے نام پر رقم لینا بھی رشوت ہی ہے
اگر اس مراکشی خاتون کو نماز روزہ کی تبلیغ کرنے والے مبلغ نے قرآن سے روشناس کرایا ہوتا تو اسے سمجھاتا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 90 میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”بے شک اللہ تعالیٰ عدل واحسان کا حکم دیتا ہے۔“ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمن کی آیت نمبر60 میں ارشاد فرمایا ”احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے؟“۔اپنی نام نہاد خالص توحید سکھاتے ہوئے اس مبلغ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اصل اسلام تو ہمارے اخلاقیات ہیں جو ہم دوسروں سے روا رکھتے ہیں اچھے اخلاق کا حامل انسان کسی کے احسانات کو فراموش نہیں کرتااور جب موقع ملتا ہے تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق احسان کا بدلہ چکانے کی کوشش کرتا ہے۔اس مراکشی خاتون کو کسی مبلغ نے قرآن سے حضرت یوسف علیہ السلام کاواقعہ بھی نہیں سنا یا ہوگا جنہیں جب عزیز مصر کی بیوی نے بدی کی دعوت دی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کی بیوی کی دعوت گناہ کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ عزیز مصر نے میری بڑے اچھے انداز میں کفالت کی ہے ، گویا حقوق اللہ کی پابندی کرتے ہوئے آپ کو حقوق العباد بھی یاد تھے کہ اپنے محسن کے جذبات کا بھی پاس آپ کے ذہن میں تھا اس مراکشی خاتون کو شاید کسی مولوی نے یہ بات بھی نہیں بتائی ہو گی کہ حبشہ سے آنے والے عیسائی گروہ کو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے کھانا پیش کیا اور غلاموں کی موجودگی میں بھی خود میزبانی کی یہ کہہ کر جس طرح نجاشی نے میرے صحابہ کی تکریم کی میں یہ اس احسان کا بدلہ چکا رہا ہوں “ اور اس مراکشی خاتون کو حضورنبی کریم ﷺکا یہ فرمان بھی کسی نے نہیں سنایا ہوگا کہ ”جس نے انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا“
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں