جمہوریت اور نفرت

کوئی مجھ سے پوچھے کہ جمہوریت کی سب سے بڑی خامی کیا ہے؟تو میرا جواب ہوگا۔نفرت!جی بالکل نفرت اس جمہوریت کی وہ بدترین خامی ہے جو پوری شد ومد کے ساتھ اس کا حصہ ہے۔
وہ کیسے؟۔۔۔۔۔۔۔وہ ایسے کہ جمہوریت, آزادی رائے اور حق خود ارادیت کے سنہرے خوابوں کی آڑ میں جو انتخاب کا حق تفویض کرتی ہے ا س کی بنیاد طرفین میں نفرت کو پروران چڑھانا ہوتا ہے۔سادہ الفاظ میں بیان کروں تو جمہور نفرت کے بغیر انتخاب جیسا عمل تکمیل تک نہیں لے کر جاسکتے۔چونکہ جمہوریت ہر انسان کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ حکمران بننے کا اہل ہے مگر جمہور کے انتخاب اور طاقت سے تو عوامی رائے تقسیم ہوجاتی ہے۔عوامی رائے کا منقسم ہونا, دو امیدواروں میں سے کسی ایک کا نفرت اور حقارت کے نتیجے میں رد ہونا اور دوسرے کا منتخب ہونا ہی دراصل جمہوریت ہے۔کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟
کیا پاکستان کی بیس کروڑ عوام اس وقت اسی جمہوریت کی بدولت منتشر اور ایک دوسرے سے متنفر نہیں؟۔کیا نواز شریف کے ووٹر اور سپورٹر عمران خان اور دیگر متضاد جمہوری لیڈروں, ا ن کی پارٹیوں اور ان کے ووٹران و سپورٹران سے شدید متنفر نہیں؟۔اسی طرح باقی سیاسی لیڈران اور اور ان کے ووٹران و سپورٹران آپس میں سیاسی, جمہوری اور ذاتی بنیادوں پر متنفر نہیں؟۔

جب یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جب تک طرفین ایک دوسرے کے لیئے نفرت اور حقارت دل میں نہیں پالیں گے تب تک جیت ان کا مقدر نہیں ہوگی تو پھر کیوں اس نظام کو اتنا سینوں سے لگایا جاتا ہے؟۔کوئی بھی مجھے اس کے رد میں دلیل نہیں دے سکتا۔۔خواہ کتنا ہی مہذب معاشرہ کنگھال لیں جہاں جمہوریت ہوگی وہاں نفرت کا عنصر عوامی سطح پر غالب ہوگا۔۔نواز شریف اور عمران کی جنگ جمہوری نہیں نفرت پر مبنی ہے۔زرداری اور نواز شریف کی جنگ جمہوری نہیں نفرت کی جنگ ہے۔عمران اورزرداری کی جنگ جمہوری نہیں نفر ت پر مبنی ہے۔غرض ہر سیاستدان جمہوریت کی آڑ میں نفرت کو ہی فروغ دے رہا ہے۔ہر مذہبی لیڈر جمہوریت کی آڑ میں نفرت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ہر سیکولر سربراہ جمہوریت کی آڑ میں نفرت کو سہلا رہا ہے۔

عوام محدود پیمانے کی یکطرفہ محبت میں مبتلا ہوکر میں, میرا اور میرے لیئے کی خاطر نفرتوں میں الجھ کر جمہوریت جمہوریت کھیل رہی ہے مگر دراصل اپنا قومی اور ملی تشخص چند لوگوں کے ذاتی مفادات کی خاطر ان کے پاس ہی گروی رکھ کر نفرتوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔اس جمہوری نفرت نے خواص و عوام کو دھڑوں میں تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔یہاں تک کہ آج ایک ہی گھر کے چار افراد ہوں تو سب کی محبت الگ الگ سیاسی لیڈروں سے منسلک ہوگی اور نفرت کا تو یہ حال ہوگا کہ رشتے بھی اس میں رکاوٹ نہیں ہوتے۔بلا تخصیص اور بلا تفریق نفرت فی سبیل ﷲ نے اس قوم کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔وجہ صرف یہ جمہوریت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جمہوریت میں انتخاب کا لولی پوپ دیا جاتا ہے جو دراصل کوٹڈ ہوتا ہے۔جیسے جیسے اس کی مٹھاس ماند پڑتی ہے ویسے ویسے نفرت کی کڑواہٹ اپنا اثر دکھانا شروع کردیتی ہے۔جمہوریت میں انتخاب بغیر نفرت کے ممکن نہیں اس لیئے جمہوریت کوئی اخلاقی نظام نہیں۔نفرت اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔رہ گئی بات مذہب کی تو مذہب تو جمہوریت کے ویسے ہی خلاف ہے۔شاید اسکی یہی وجہ ہے۔بہرحال اگر نفرتوں سے دل برادشتہ ہیں تو جمہوریت کا نشہ اتاریں اپنے سروں سے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply