بادی تدبر سنت (المیزان)۔۔ پہلی نشت۔۔۔ محمد حسنین اشرف

غامدی صاحب کے کام پر تنقیدات کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے یہ تنقیدات علمی کم اور تہذیب اور شائستگی کے مقام سے گری ہوئی زیادہ ہوتی ہیں۔ کچھ دوست علمی طریق پر بھی یہ کام کرتےہیں لیکن اکثر اس کی تنقیدات بنیاد کو سمجھے بغیر کی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں مبادی تدبر سنت پر کافی تنقیدات کی گئی ہیں اور استا دکو منکر حدیث اور پتہ نہیں کس کس لقب سے نوازا گیا۔ خیر اس نشت اور آنے والی چند نشتوں میں مبادی تدبر سنت کی شرح و وضاحت کرنے کی کوشش کرونگا تاکہ اس بنیاد کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

سنت کے تعین کے سات اصول جو المیزان میں درج ہیں ان میں سے پہلے اصول پر آج کی نشت میں کلام ہوگا۔ میں کوشش کرونگا کہ جس انداز میں استاد سے اسے میں نے سمجھا ہے اسی انداز میں بیان کروں۔ (شوقین حضرات وہ چھ سے سات گھنٹوں پہ مشتمل مبادی تدبر سنت کی کلاس لے سکتے ہیں جو یوٹیوب یا )استاد کی ویب سائٹ پر موجود ہے

اس سے پہلے چند تمہیدی باتیں ضروری ہیں تاکہ اس سارے معاملے کو سمجھنے میں آسانی ہو۔انسان کے شعوری دور کے شروع سے ہی انسانی ہدایت کا سلسلہ شروع کردیا گیا یہ سلسلہ نبیﷺ پر آ کر ختم کردیا گیا اور شروع سے جو دین انسانیت کے لئے خدا نے چن لیا وہ دین اسلام ہی تھا۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّهِ الْاِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَابَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاٰيَاتِ اللّهِ فَاِنَّ اللّهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۔
(19سورۃ آلٰ عمران-)
بےشک دین اللہ کے ہاں فرمانبرداری (اسلام) ہی ہے، اور جنہیں کتاب دی گئی تھی انہوں نے صحیح علم ہونے کے بعد آپس کی ضد کے باعث اختلاف کیا، اور جو شخص اللہ کے حکموں کا انکار کرے تو اللہ جلد ہی حساب لینے والا ہے۔
شروعاتی ادوار میں انسانوں میں خدا کےمعاملہ میں کوئی اختلاف نہ تھا اختلاف جیسے ہی برپا ہو تو اللہ پاک نے انبیاء کا سلسلہ شروع کردیا جو اسی دین کا پرچار کرتے تھے جو خدا نے انسانیت کے لئے چن لیا تھا ۔
کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ. (البقرہ ۲: ۳ ۲۱)
’’لوگ ایک ہی امت تھے۔ (انھوں نے اختلاف کیا) تو اللہ نے نبی بھیجے، (ماننے والوں کو) سعادت دیتے اور (انکار کرنے والوں کو) انذار کرتے ہوئے۔‘‘
یہ انبیاء اور انکی اقوام بھی مسلمان ہی تھے۔ یہودیوں کا جو وفد مسلمان ہوکر آیاتھا اس نے بھی یہی بات کی تھی کہ انا کنا من قبلہ مسلمین (ہم تو اس قبل بھی مسلمان ہی تھے)۔ یہی وجہ تھی کہ عرب میں اسلام کی یا دین ابراہیمی کی رمق موجود تھی، امیہ ابن ابی صلت جیسے لوگ اسلام کی ٹوٹی پھوٹی تعبیر پر بہرحال قائم تھے۔

اسکی صراحت ان الفاظ میں بھی موجود ہے
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٰ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٰٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ. ﴿الشوریٰ ۴۲: ۱۳﴾
’’ اُس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ﴿اے پیغمبر، اب﴾ ہم نے تمھاری طرف کی ہے اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو فرمائی ، اِس تاکید کے ساتھ کہ ﴿اپنی زندگی میں﴾ اِس دین کو قائم رکھو اور اِس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔

عرب کی دینی حالت:
اب جب نیا نبی آتا تو وہ کوئی نئی شریعت یا قانون نہیں لے کر آتا بلکہ اسی شریعت کی جو شروع سے چلی آ رہی تھی اس میں اگر کوئی خرابی ہوتی تو اسے دور کردیتا اور اگر کوئی نئی بات کا اضافہ مقصود ہوتا تو وہ کردیتا۔اس بات کا اندازہ نبیﷺ کے دور سے ہی ہوجاتا ہے۔ عرب دین ابراہیمی کے ماننے والے تھے چونکہ یہ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھے تو نماز، روزہ اور حج ادا کرنے والے تھے۔ لیکن وقت کےساتھ ساتھ بت پرستی تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پارسا اور متقی شخص جسکانام عمرو بن لخی اسکے ملک شام کے سفر کے نیتجے میں در آئی تھی۔ بہرحال، زید بن عمروہ بن نفیل اور امیہ بن ابی صلت جیسے لوگ دین ابراھیمی سے واقف تھے۔حضرت ابوذرغفاری بھی انہی میں سے ایک تھے۔ (ان حضرات کے بارے میں تفصیل تاریخی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے جیسے زید بن عمرو بن نفیل کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ نماز پڑھتا تھا اور کہتا تھا کہ ابراہیم کا رب میرا رب ہے اور ابراہیم کا دین میرا دین، وكذا رواه أبو أسامة، عن هشام به. وزاد: وكان يصلي إلى الكعبة، ويقول: إلهي إله إبراهيم، وديني دين إبراهيم،)
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے تین سال پہلے ہی میں نماز پڑھتا تھا۔ پوچھا گیا کہ کس کے لیے ؟ فرمایا : اللہ کے لیے۔
(مسلم ، رقم ۶۳۵۹

اس سے پہلے کے بات کو آگے بڑھایا جائے ان بدعات کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ میں اسکی چند مثالیں ہی پیش کرونگا۔
اول: حرم کے متولی ہونے کی بنا پر عرب غیر ت وحمیت میں عرفات سے باہر نہیں جاتے تھے اور نہ اضافہ کرتے تھے۔
دوم:طواف صرف اور صرف حمس سے حاصل شدہ کپڑوں سے کیا جاتا ورنہ ننگا طواف کیا جاتا۔
سوم: وہ حالت احرام میں گھروں میں انکے پچھواڑے سے داخل ہوتے۔
یہ دو تین مثالیں ہیں قران نے انکے جواب میں مسلمانوں کو اضافہ کا حکم دیا ، مساجد کے قریب زینت کا حکم دیا اور اسکے ساتھ ساتھ گھروں میں داخلے کے اداب بھی بیان کئے۔

احکامات دین:
پورے دین کا جائزہ لیں تو دین کے احکامات تین چیزوں پر مشتمل نظر آتے ہیں۔(وہ احکامات جو انفرادی سطح پر دئیے گئے ہیں)
دین اپنے احکامات میں یا تو تطہیر بدن کا حکم دےگا، یا تطہیر خورونوش کا یا تطہیر نفس کا حکم دے گا۔ انفرادی نوعیت پہ کم و بیش دین ان تین چیزوں پر مشتمل ہے۔ یعنی وہ حکم دے گا، ختنہ کرواو، یا مونچھیں چھوٹی کرو یا ناخن کاٹو تو یہ تطہیر بد ن کی چیزیں ہیں۔
وہ حکم دے گا طیبات کھاؤ تویہ تطہیر خورونوش ہے۔
وہ حکم دے گا عبادت کرو، تہجد پڑھو یہ تطہیر نفس ہے۔
انفرادی نوعیت کے جتنے بھی احکامات ہیں وہ ان تین چیزوں سے باہر نہیں کم و بیش دین کے سارے احکامات ان تین چیزوں کی تطہیر کانام ہے۔(انفرادی نوعیت کے)

سنت کا ماخذ:
سنت کے دو ماخذ ہوسکتے ہیں
اول: اجماع امت
دوم: اخبار آحاد
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اجماع امت اور اخبار آحاد سے نقل ہونے والی ہر چیز سنت ہے؟
اگر تو ہر چیز سنت ہے پھر تو کلام کی گنجائش باقی نہیں رہتی، لیکن اگر ہر چیز سنت نہیں ہے تو پھر سنت کے تعین کے اصول وضع کرنے ہونگے جنکا ذکر آگے آ رہا ہے۔

شاہ ولی اللہ نے حجتہ اللہ بالغہ میں اس کا طویل جائزہ لیا ہے اور مختلف روایات کو بیان کردیا ہے کہ وہ کس کس نوعیت کی روایات ہیں۔ طوالت کے ڈر سے وہ ساری گفتگو یہاں بیان نہیں کرسکتا۔بہرحال اسکا نتیجہ یہی ہے کہ اخبار آحاد اور اجما ع سے منتقل شدہ ہر چیز سنت نہیں ہوتی۔اسی گفتگومیں سیدنا زید بن ثابت کے واقعہ سے آپ نے اس سارے معاملے کو زیادہ واضح کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔(مطالعے کے شوقین حضرات یہ بحث حجتہ اللہ بالغہ میں، ساتویں بحث کے عنوان کے تحت ، مبحث من استنباط شرائع من حدیث النبی ﷺ ، کے تحت دیکھ سکتے ہیں۔ تھوڑی تگ و دو کرنی پڑے گی۔ نسخہ ابھی فی الحال میرے پاس موجود نہیں اسلئے صفحات کی نشاندہی بھی ہوجاتی، یہ کام لاہور جا کر ہی ہوسکےگا، بہرحال یہ طویل بحث ہے کوئی دیکھنا چاہے تو ضرور دیکھ لے)

پہلا اصول:
سنت صرف وہی چیز ہوسکتی ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو یا نبیﷺ نے اسے دین قرار دیا ہو۔
انبیاء کے آنے کا اصل مقصد صرف اور صرف دین ہوتا تھا۔ اسکے علاوہ انکا کوئی مقصد نہیں ہوتا تھا۔ اسکا ذکر نبیﷺ کی ایک حدیث میں جب آپﷺ نے کھجوروں کی پیوند کاری پر ایک تبصرہ کیا تو لوگوں نے حکم سمجھ کر عمل کیا لیکن اگلے سال پھل نہیں ہوا۔ اسکے علاوہ شاہ ولی اللہ نے اوپر بیان کردہ بات کے دلائل میں اس حدیث کو بھی بیان کیا ہے:
انما انا بشر، اذا امرتکم بشيئ من دینکم فخذوا بہ واذا امرتکم بشيئ من رأی ی فانما انا بشر… فانی انما ظننت ظناً فلا تؤاخذونی بالظن ولکن اذا حدثتکم عن اللّٰہ شیئًا فخذوا بہ فانی لن اکذب علی اللّٰہ … انتم اعلم بامر دنیاکم.﴿مسلم ،رقم ،۶۱۲۶-۶۱۲۸﴾
’’میں بھی ایک انسان ہی ہوں ،جب میں تمھارے دین کے متعلق کوئی حکم دوں تو اُسے لے لو اور جب میں اپنی رائے سے کچھ کہوں تو میری حیثیت بھی اِس سے زیادہ کچھ نہیں کہ میں ایک انسان ہوں …میں نے اندازے سے ایک بات کہی تھی ۔ تم اِس طرح کی باتوں پر مجھے جواب دہ نہ ٹھیراؤ جو گمان اوررائے پر مبنی ہوں ۔ ہاں ، جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کہوں تو اُسے لے لو ، اِس لیے کہ میں اللہ پر کبھی جھوٹ نہ باندھوں گا …تم اپنے دنیوی معاملات کو بہتر جانتے ہو۔‘

اس سے بڑا واضح ہے کہ نبی کا مقصد دین ہوتا ہےدین کے علاوہ ہر کام ایک عام انسان کے حثیت سے انجام دے رہا ہوتا ہے اور وہ ثانوی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اسکا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسلئے سنت کے تعین میں سب سے پہلی بات اس بات کا تعین ہے کہ نبیﷺ نے جو کام کیا وہ اپنی نوعیت میں دین ہونا ضروری ہے۔یا نبیﷺ نے اسے دین قرار دیا ہو۔ (دین قرار دینا کی بحث ساتویں اصول میں مفصل آئیگی انشاءاللہ)
مثال کے طور پر سجدہ اپنی نوعیت میں دین ہے۔ نماز اپنی نوعیت میں دین ہے۔سجدہ ایک خدا کو ہو یا بت کو ، وہ بہرحال اپنی نوعیت میں دینی کام ہے۔ قران کی تلاوت، ذکر اذکار، حج و عمرہ وغیرہ۔ یہ اپنی نوعیت میں دین ہیں۔ انکے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ یا دین کے کسی مقصد یعنی دین کا مقصد تزکیہ ہے، (تزکیہ نفس، تزکیہ خورونوش وغیرہ جن میں جسمانی تطہیر کی چیزں بھی شامل ہوں) کے حصول کی کوئی چیز بھی اس میں شامل ہے۔ (اسکی مفصل بحث ابھی کا موضوع نہیں، چند باتیں اوپر بیان کردی گئی ہیں)

نبی چونکہ آخری حجت ہوا کرتا ہے تو یا تو وہ کسی چیز کو دین قرار دے دیں یا پھر کوئی اپنی نوعیت میں دین ہو تو تدبر سنت کے پہلے اصول پر پوری اترتی ہے۔ اس سے اعراض کرنے والی تمام چیزوں کو سنت کے تحت جمع نہیں کیا جاسکتا۔(اپنی نوعیت کے لحاظ میں دین ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز جو دین ہو وہ اسلام میں سنت سے رائج ہوجائیگی بلکہ کوئی چیز جو اپنے وجود میں دین ہے اور نبیﷺ نے اس پر عمل کیا و ہ پہلے اصول پر پورا اتریگی)۔
کیونکہ نبی اپنی حیثیت میں کوئی مطالبہ نہیں کر رہا ہوتا اسکا مطالبہ نبی ہونے کی حثیت سے ہوتا ہے نہ کہ محمد بن عبداللہ ہونے کی حیثیت سے ۔
مثال کے طور پہ نبیﷺ نے گدھے کی سواری کی، اونٹنی کی سواری کی، گھوڑے میں کالا گھوڑا جسکے ماتھے پہ سفید نشان ہو ، جو کی روٹی کھائی، کسی چیز کو پسند کیا کسی کو نا پسند کیا وغیرہ۔ تو نبیﷺ نے ان میں سے کسی بھی چیز کو دین کے حکم کے طور پر نہ پسند ناپسند کیا اور نہ ہی دین کے طور پر اسے رائج کیا۔ یہ آپﷺ کی ذاتی زندگی افعال تھے اور نہ ہی ان میں سے کوئی چیز اپنی نوعیت میں دین ہے۔ اور نہ ہی انکو نبیﷺ نے دین کی حیثیت سے رائج کیا یا ان پر عمل کیا۔واللہ عالم

Advertisements
julia rana solicitors

(غلطی کا قوی امکان ہے احباب توجہ دلا دیں۔ یہ تشریح استاد کے کام کو سمجھنے کا نتیجہ ہے اس میں غلطی کا بالکل امکان موجود ہے، اسلئے اسے استاد کی طرف منسوب نہ کیا جائے بلکہ ایک طالب علم کا کام ہی سمجھا جائے)
جاری ہے۔۔۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply