فکرِ غامدی؛ ہنگامہ ہے کیوں برپا۔۔۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

علمی حلقوں میں غامدی صاحب کی فکر پر تنقید ایک عرصے سے جاری ہے۔ کسی معاشرے میں بڑی خوش آئند بات ہوتی ہے کہ ان میں کوئی مثبت علمی بحث پیدا ہو اور اسے علمی بنیادوں پر کیا جا رہا ہو۔ ہمارے لیے یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ ایک مدت کے بعد غامدی صاحب کی فکری کاوشوں کی بدولت اہل علم کی علمی اور فکری صلاحیتوں کو بحث و تحقیق کرنے کے لیے ایک بہتر اور برتر میدان ملا، ورنہ اس سے پہلے ہماری علمی صلاحیتیں نہایت پست سطح کی مناظرانہ اور فرقہ وارانہ مباحث میں ضائع ہو رہی تھیں۔ جہاں یہ بحثیں ہوا کرتی تھیں کہ ہاتھ سینے پر باندھنے ہیں یا ناف پر، رفع یدین کرنا یا نہیں ممنوع ہو چکا، اذان سے پہلے درود شریف پڑھنا چاہیے یا نہیں، نماز کے بعد کلمہ کا ورد کرنا سنت ہے یا بدعت، اب وہاں یہ مباحث ہو رہے ہیں کہ قرآن کا نظم قرآن کی تفہیم میں کیا حیثیت رکھتا ہے، قرآن کی اپنے الفاظ پر دلالت قطعی یا ظنی، اتمام حجت کا قانون کیا ہے اور اس کے نتائج سے کن فقہی مسائل پر ایک نیا زاویہ نظر سامنے آیا ہے اور وہ کس حد تک درست یا غلط ہے، حدیث اور سنت میں کیا فرق ہے، ریاست اور حکومت میں کیا فرق ہے، وغیرہ، ان مباحث کی فہرست طویل ہے۔ 

غامدی صاحب نے معاشرے کے زندہ مسائل کو مخاطب کیا۔ علماء یہ میدان کب کا چھوڑ کر مدارس اور خانقاہوں میں بیٹھ کر تدریس و تزکیہ کی محافل سجائے بیٹھے تھے۔ زیادہ سے زیادہ عوام سے ان کا رابطہ اصلاحی خطبات تک محدود تھا۔ انہیں درست اور کما حقہ اندازہ نہیں ہوا کہ سماج میں کیا علمی و فکری بے چینی پیدا ہو رہی ہے، بدلتے زمانے کن تقاضوں کو لیے دعوت مبارزت دے رہے ہیں۔ ایسے مسائل کا حل محض یہ کہ کر دے دیا جاتا تھا کہ یہ سب مغرب کی سازش، دجال کی آمد کی نشانیاں ہیں۔ دوسری طرف اہل فقہ کا دعوی تھا کہ دور حاضر میں ایسا کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا ہے جس کا جواب فقہ میں پہلے سے موجود نہ ہو۔ چنانچہ وہ گزشتہ صدیوں میں قائم ہو جانے والی فقہی رویات اور تعبیر دین کو آج کے دور میں بعینہ نافذ کرنے پر زور دے رہے تھے، جس کی عدم مطابقت اہل نظر پر عیاں تھی اور عوام میں اس سے توحش پیدا ہو رہا تھا۔

فقہی میدان میں تو فقہاء کچھ کر بھی رہے تھے، لیکن فکری میدان انہوں نے بالکل خالی چھوڑ رکھا تھا۔ اس وقت جب غامدی صاحب نے فرد، سماج اور ان کے زندہ مسائل کو مخاطب کیا۔ عوام اور خصوصا متجسس نوجوانوں کا ان کی طرف آنا بالکل قابل فہم تھا۔ پھر اسلوب بھی غامدی صاحب کا عام فہم، مدلل، اور شائستہ تھا۔ یہ تینوں خصوصیات طبقہ علماء سے عرصہ دراز ہوا عمومی طور پر رخصت ہو چکی تھیں۔

علماء نے جب غامدی صاحب پر تنقید کی تو انہیں بھی بہت کچھ کرنا پڑا۔ زندہ مسائل کا اپنا حل بھی ڈھونڈنا پڑا، اپنے فرقہ وارانہ مباحث کو معطل کرنا پڑا، اور اس سے بڑھ کر دلیل، استدلال کو کسی حد تک شائستگی سے ادا کرنے کا طریقہ بھی سیکھنا پڑا ۔ لیکن یہی وہ میدان ہے جہاں انہوں نے سب سے کم قابلیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یعنی دلیل اور استدلال میں شائستگی برتنا۔

میں حیران ہوتا ہوں، اہل علم کے لب و لہجے میں علمی نقد کرتے ہوئے طنز، تضحیک اور تذلیل کا اسلو ب کیوں در آتا ہے۔ غامدی صاحب نے دین پر غور و فکر کر کے کیا جرم کر دیا ہے۔ بس یہی ہوا ہے نا کہ ان کے نتائج فکر آپ سےمختلف نکل آئے۔ تو اب کیا کرنا چاہیے، یہی نا کہ ان پر نقد کیجیے، ان کی جو بات غلط لگتی ہے اس کی غلطی واضح کیجیے۔ یہ کیا ضروری ہے کہ زبان و بیان کی مہارتیں دکھا کر کچوکے بھی لگائیں جائیں۔ کیا آپ کے ذمے بھی بات کو صرف پہنچا دینا ہی نہیں ہے یا منوانا بھی آپ کے ذمے ہو گیا ہے؟ علمی مباحث میں یہ کیسا آمرانہ اور حقارت آمیز پیرائیہ اظہار کا چلن جو بلا کسی شرم کے بلا کسی عار کے عام پایا جاتا ہے۔

میں نے فقہی مقالہ کے مطالعہ کے دوران یہ بات خصوصا نوٹس کی تھی اوراس کا اظہار بھی بارہا کیا کہ ہمارے ہاں معیاری تحقیقی زبان لکھنے کا رجحان نہیں ہے۔ جس دور میں یہ سیکھی جانی چاہیے اس میں جب نہیں سیکھی جاتی، تو سینیر محقق ہو کر بھی آپ کا اسلوب بیان معیار سے کم تر ہی رہتا ہے۔ جگہ جگہ آپ کی قلم اور زبان سے طنز،تضحیک اور تحقیر بہ نکلتی ہے۔

ایک مثال عرض کرتا ہوں، علامہ اقبال پر تنقید کا ایک اسلوب تو خالص علمی انداز ہے، جس کا مقصد محض اقبال کی فکر پر تنقید ہوتی ہے، اس اسلوب کو اقبال کی ذات سے غرض ہے نہ خفیہ محرکات کی کھوج سے، مثلا یوں کہا جائے گا کہ علامہ اقبال کی کانٹ کے بارے میں تفہیم ناقص ہے۔س لیکن اس کے برعکس ایک دوسرا اسلوب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یوں کہا جائے کہ اتنا عرصہ فلسفہ پڑھ کر بھی، جرمنی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی اقبال اس قابل نہ ہو سکے کہ کانٹ ہی کو درست طریقے سے سمجھ لیتے!

دونوں اسالیب میں جو فرق ہے وہ واضح ہے۔ ایک میں صرف تنقید مقصود ہے اور دوسرے میں آپ دیکھ سکتے ہین کہ باطن کی کون کون سے آلائشین دکھانا مقصود ہے۔

غامدی صاحب نے دین پر غور وفکر کرکے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اپنی بات کو وہ تحمل و بردباری سے پیش کرتے ہں اور صبر و سکون سے اس پر نقد بھی سنتے بھی ہیں، مزید یہ کہ وہ اپنی رائے کو بدلنے کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ تو بھائی آپ ان کو اور ان کے متاثرین کو ہو سکے تو اپنی دلیل سے قائل کر لیجیے، کس نے روکا ہے۔ ابلاغ کر دیجیے، کوئی مان لیتا ہے تو ٹھیک نہیں تو آپ کا فرض ادا ہو گیا۔ آپ دلیل کا زور لگائیے، استدلال کا میدان سجائے، مباحثہ کیجیے، لیکن یہ دنگل کیوں کرنے لگتے ہیں۔ کیا خدا کا دین خطرے میں پڑ گیا ہے ایک غامدی صاحب کی وجہ سے اور اس خدا کو آپ کی دریدہ دہنی کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ یعنی پہلی بار ایسا ہوا کہ دین کی حفاظت کے لیے بد اخلاقی کا ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدارا،اس مباحثہ سے ہمیں کچھ سیکھنے دیجیے۔ ہم قائل ہوں گے تو دلیل سے ہوں گے، دنگل سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ ایسے رویوں سے آپ ہمیں خود سے اور دین سے ہی متنفر کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ہو سکے تو ہمیں اپنی دلیل سے قائل کر لیجیے، اس کے لیے آپ کو طنز و تشنیع کے نشتر چلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی چاہیے، ورنہ ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ آپ کی دلیل یا تربیت میں ایک چیز کمزور ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply