آخر طویل جدوجہد کے بعد12دسمبر2012ء کو میں جی ایچ کیو سے پاکستان آرمی کے مسیحی شہداء کی فہرست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔۔۔اس فہرست میں شہداء کے لواحقین کے ایڈریس کچھ کے نمبر بھی درج تھے۔ فہرست میں نام، رینک، پاکستان آرمی نمبر ،حاصل کردہ اعزاز ،شہادت کی تاریخ وغیرہ اور دیگر تفصیلات بھی درج تھی۔52 شہداء کی فہرست میں اکثر ناموں کے آگے رینک کے خانوں میں این سی ای درج تھا۔ باقی رینک تو سمجھ آئے تھے مثلاً میجر ،حوالدار، لانس نائیک یا سپاہی لیکن این سی ای میرے لئے نیا لفظ تھا ۔۔۔میں نے (تحریک شناخت) پاکستانی مسیحیوں کی دھرتی سے نسبت آزادیٔ ہند قیامِ تعمیر ودفاعِ پاکستان میں ان کے اجداد اور مسیحیوں کی موجودہ نسلوں کی پاکستانی معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں کردار کے ذریعے ان کی قابلِ فخر شناخت کو اجاگر کرتی ہوئی فکری تحریک ’’ تحریکِ شناخت‘‘ کے فعال رضا کار کرنل ( ر)البرٹ نسیم سے پوچھا سر یہ این سی ای کیا ہوتا ہے.؟ انہوں نے بتایا یہ لفظ “نان کمباٹنٹ انرولڈ “کا محقف ہے۔ جس کا ترجمہ آپ غیر لڑاکا فوجی کر سکتے ہیں.. یہ فوج کی ہر یونٹ کے ساتھ پیشہ ور فوجیوں کو دیگر سہولیات پہنچانے میں معاونت کرتے ہیں۔ مثلاً نائی ،دھوبی، ترکھان، بیرے خانساماں، صفائی والے یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ..کہ مسیحی این سی ای صفائی والے ہی ہوتے ہیں… دوسرے شعبوں میں مسیحی این سی ای بہت کم ہوتے ہیں ..بلکہ نہ ہونے کے برابر ہی ہوتے ہیں… کرنل صاحب کی اس وضاحت کے بعد میں نے جب پھر فہرست پر نظر ڈالی تو جو چیز مجھے اس فہرست میں سب سے حیران کن چیز نظر آئی وہ ایک شہید این سی ای آصف عدیل کے نام کے آگے اعزاز کے خانے میں تمغۂ بسالت لکھا ہوا ہے۔ تو میرے لئے یہ خوشگوار حیرت تھی.. میں نے سب سے پہلے اسی شہید کے گھر والوں سے رابطہ کیا فون شہید کے بھائی نے اٹھایا پتہ چلا ان کا نام طارق ہے میٹرک تک پڑھے ہوئے ہیں. کاتھولک چرچ میں بطورِ کیٹی کٹسٹ (مناد) جسے پنجاب میں باؤ ( بابو کا پنجابی ترجمہ) کہا جاتا تھا . جو کہ ایک نہایت اپنا نیت آور عزت احترام والا لفظ ہوتا تھآ ۔۔۔آج کل بائو کو پھر بابو بنا دیا گیا ہے، خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان دنوں وہ کمالیہ میں تعینات تھے۔ ان سے میں نے شہید کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ مزید معلومات کے لئے درخواست کی ۔کہ جب وہ اپنے گاؤں پہنچے تو اپنے والد، والدہ سے مزید معلومات لے کر مجھے دیں۔ اس کے بعد اکثر ان سے بات رہتی ایک دن باتوں ہی باتوں میں میں نے جھجکتے ہوئے باؤ طارق سے پوچھا کہ شہید کا ٹریڈ کیا تھا۔؟ جھجکتے ہوئے اس لئے کہ کرنل صاحب مجھے بتا چکے تھے کہ مسیحی این سی ای زیادہ صفائی والے ہی ہوتے ہیں. یہ ایسا پیشہ ہے… جسے برصغیر کے معاشروں میں ذات پات اور طبقاتی نظام نے گالی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس لئے نہ صرفِ پیشے سے منسلک مسیحی بلکہ زیادہ تر,پاکستانی مسیحی اپنی ساری توانائی اسی میں صرف کر دیتے ہیں …کہ ہمارا اس پیشے یا اس پیشے سے منسلک افراد سے کوئی تعلق نہیں۔
برصغیر پاک و ہند کا معاشرہ ہزاروں سال پہلے جب آریان یا شمال سے آنے والے فاتحین نے سندھ (موجودہ پاکستان) اور ہند (موجودہ ہندوستان) کی سرزمین کو روندا اور مقامی لوگوں کو قابو کرنے کے لیے ذات پات کے مذہبی شکنجے میں پھانس کر انہیں ذہنی و جسمانی غلامی میں دھکیلا جس کے نتیجے میں آج ہزاروں سال گزرنے کے باوجود سندھ اور ہند کے معاشرے۔۔۔ اس گھناؤنے اور غیر انسانی ذات پات کے نظام سے چھٹکارا نہیں پا سکے۔۔۔ آج بھی اس معاشرے میں کام کرنے والا کمی کمین اور استحصال کرنے والا حاکم ٹھہرتا ہے۔ برصغیر میں انگریز کی آمد کے ساتھ جب نئے معاشرتی نظام میں کچھ نئے ذرائع روزگار متعارف ہوئے مثلاً پولیس کا نظام۔ یہ بیورو کریسی کا نظام اور اس طرح کے کئی سفید پوش پیشے متعارف کروائے گئے تو برصغیر کے گاؤں دیہاتوں میں اس طرح کے ہزاروں قصے سنے اور سنائے جاتے ہیں ۔۔۔کہ کیسے کسی حجام، ترکھان، لوہار، ماچھی ،جولاہے غرض ایسے ہاتھ سے کام کرنے والے عظیم ہنرمندوں یا محنت کشوں میں سے کسی کا بیٹا پڑھ لکھ کر کلرک، سپاہی، تھانے دار یا اس طرح کا کوئی نچلے یا درمیانے درجے کا سرکاری ملازم ہو جاتا۔۔۔ تو بے چارہ اس مریض معاشرے کے استحصالی غاصبوں کے بنائے ہوئے حقارت آمیز پیشوں سے تعلق کا پتا نہ چلنے کے خوف سے اکثر اپنے ماں باپ کو بھی اپنا ماں باپ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا۔ ہزاروں سال کے ارتقائی عمل سے گزر کر باقی ہنرمنداور محنت کش تو کسی حد تک اس احساسِ کمتری سے نکل آئے لیکن صفائی، ستھرائی کے کام سے منسلک افراد کی روحوں اور وجودوں میں بھرا گیا ,یہ احساسِ کمتری آج تک نہ نکل سکا اور خاص کر سندھ (موجودہ پاکستان) کے مسیحیوں پر تو چھاپ لگ گئی ہے۔ کہ مسیحی ہے ۔ تو ضرور اس کا پیشہ یہ ہی ہوگا۔۔صفائی ستھرائی کے پیشے کو ایسا حقارت آمیز بنا کر پیش کیا گیا۔۔ کہ پاکستانی مسیحیوں کی عمومی طور پر زیادہ توانائی اس تگ ودو میں خرچ ہو جاتی ہے۔۔۔ کہ ہمارا صفائی ستھرائی کے پیشے سے منسلک افراد سے کوئی تعلق نہیں۔ (شناخت نامہ)
میرے اس سوال کے جواب میں باؤ طارق نے جلدی جلدی اور گھبرائے اور شرمندگی بھرے لہجے میں جان چھڑاتے ہوئے کہا یونٹ میں الیکٹریشن وغیرہ کا کام کرتے تھے ۔۔۔اور فوراً فون بند کر دیا۔
مجھے اپنے سوال پر شرمندگی ہو رہی تھی۔۔ میں اپنے آپ کو کوستا رہا ۔۔کہ میں نے یہ سوال کیوں کیا اور باؤ طارق کو اس کرب میں کیوں مبتلا کیا ایک ایسا کرب جسے برصغیر کے واسی ہزاروں سال سے سہہ رہے ہیں۔۔۔ ہندوستان کے دلتوں نے تو اپنی اس شناخت کو اپنے لئے فخر بنا لیا ہے۔۔ اور اسی شناخت کے ساتھ فخر سے جینا سیکھ لیا ہے ۔۔۔لیکن پاکستانی مسیحی اس کرب کو سہتے اور اس پر بات کرنا نہیں چاہتے حالانکہ جب تک کسی عذاب کا ذکر نہ کیا جائے اُس کا علاج کیسے ہو گا۔؟ اس کے بعد میں نے کئی دفعہ فون کیا کیونکہ باؤ طارق نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے گھر چک42 گ ب سمندری ضلع فیصل آباد جا کر میری اپنے دوسرے گھر والوں سے بات کروائے گا۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے میرا فون اٹھانا بھی چھوڑ دیا قارئین آپ اندازہ کریں کہ کرب کی وہ کیا سطح ہو گی؟ جب کسی تمغۂ بسالت جیسے بہادری کے اعزاز یافتہ شہید کا بھائی اس خوف سے میرا فون اٹھانے سے کترا رہا ہو کہ مجھے یہ پتہ نہ لگ جائے۔ کہ شہید کا کس ٹریڈ سے تعلق تھا۔ شہداء جو کہ قوموں کی ہرطرح کی پستیوں کے دھونے دھو دیتے ہیں۔۔اور وہ قوموں کو عزم نو دیتے ہیں ۔۔وہ بھی ذلتوں کے یہ دھبے نہیں دھو پا رہے ۔۔انہی شہداء کے وارثوں کے رویوں پر میں نے تحریک شناخت کے اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی کتاب”شناخت نامہ” میں ذیشان لبھا کے شخصی خاکے میں لکھا تھا۔
اس کے باوجود جان جیسی عظیم شے قربان کرنے والے این سی ای ( NCE) کے لواحقین آج بھی اس خوف میں مبتلا ہیں.. کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے کہ شہید کا تعلق صفائی ستھرائی کے شعبے سے تھا۔ نہ جانے یہ قصور معاشرے کا ہے ؟ یا اس پیشے سے سے وابستہ افراد کا .؟
کیونکہ ذات پات اور چھوت چھات کے اس معاشرے میں بہت تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ ماضی میں کمی کمین سمجھے جانے والے بہت سارے عظیم محنت کشوں کی نسلیں مثلاً ترکھان، لوہار، موچی، جولاہے غرض صفائی ستھرائی کے علاوہ ہر طرح کے محنت کش اس بیماری سے نکل چکے ہیں۔ لیکن فاتحین غاصبین نے ان دھرتی واسیوں کو چھوت چھات اور پیشے کی بنا پر ذلتوں کی ایسی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلا ہے۔۔۔ کہ یہ خوف ان سے نکلتا ہی نہیں کہ کسی کو پتہ نہ لگ جائے ۔۔کہ ان کا تعلق کسی طرح سے صفائی ستھرائی کے پیشے سے تعلق رکھنے والوں سے ہے۔
(شناخت نامہ)
ان کے اس رویے کے بعد میں نے بڑی تگ و دو سے ان سے شہید کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی۔ کیونکہ یہ شہید آصف عدیل(تمغۂ بسالت) پاکستانی مسیحیوں کی تاریخ کا ایک اہم کردار ہے۔۔ بعد میں اس موضوع پر مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ اب تک افواجِ پاکستان میں صرف30مسیحی بہادری کے اعزاز حاصل کر سکے ہیں ۔۔ جن میں سے اعزاز یافتہ شہید افسر 13ہیں ۔۔ جبکہ جے سی اوز اور او آرز یا دوسرے رینک یعنی جونیئر کمیشن افسرز اور دیگرعہدے دار 15ہیں۔جن میں این سی ای صرف 2ہی اعزاز یافتہ ہیں۔ ان شہداء میں سے کئی کی مختصر کہانیاں میری کتابوں ’’ شناخت نامہ، شہدائے وطن ،شانِ سبزو سفید اور چوبیس چراغ‘‘ حیدران کے مسیحی ساتھی ” افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل”میں دھرائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن ایک چیز مجھے دکھ دیتی ہے ۔ کہ یہ کیسا احساسِ کمتری پاکستانی مسیحیوں کی روحوں میں بھر دیا گیا ہے۔ جسے شہداء کا لہو بھی نکال نہیں پا رہا ؟..
کیا ہمیں اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ ایک پیشہ ہے۔۔ جیسے دوسرے پیشے اور آج کے جدید دور میں علم و ہنر سے پیشہ تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر کوئی اس سے منسلک بھی ہے تو اُسے اس سے شرمانے یا خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہمارے مذہبی اداروں نے اس ہزاروں سال پرانی بیماری کا علاج بڑی طویل المیعاد منصوبہ بندی سے کیا ہے۔۔۔ لیکن مذہبی اداروں کی موجودہ قیادت یا تو اہل نہیں ہے۔۔ یا بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہی ہے ۔۔۔ایسے معاشرے میں افواجِ پاکستان کی ہائی کمان اور پالیسی ساز خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔۔ جو بلا تفریق رنگ، نسل ،مذہب ، عہدہ اپنے سب شہداء کی تدفین پورے فوجی اعزاز سے کرتے ہیں۔ افواجِ پاکستان میں مساوات کی یہ ایک اعلیٰ روایت اور پاکستانی معاشرے کے لئے قابلِ تقلید مثال ہے۔۔ کہ شہید چاہے جرنیل ہو یا این سی ای شہید بس شہید ہے۔۔ کاش ہمارے معاشرے کے دوسرے شعبوں میں بھی یہ کلچر پروان چڑھے۔
ایسا معاشرہ جس میں اس پیشے کواس بیمار معاشرے نے ایسی تہمت اور گالی بنا دیا ہے۔۔۔ جسے شہداء کا لہو بھی دھو نہیں پا رہا۔۔۔ شائد معاشرے نے یہ طے کر لیا ہے۔۔ کہ یہ پیشہ ہے ہی نہیں یہ ذلت ہے۔ تہمت ہے۔ ایک عذاب ہے۔ ایک کرب ہے۔ ایک درد ہے۔ جسے غاصب بڑے جبر طاقت دھرم کرم کے نام پر محکوموں، غلاموں کے مقدروں میں لکھ دیتے ہیں۔۔۔ اس کا خراج ان کی آنے والی نسلیں بھی ادا کرتی ہیں ۔ اس پیشے کے ساتھ کچھ المیے ایسے بھی ہیں۔ کہ اس میں آپ جتنی مرضی مہارت حاصل کریں ۔۔اس کی ابتدا اور انتہا ایک ہی ہے ۔۔جب کہ دوسرے کئی پیشوں میں اگر مہارت اور ترقی حاصل کر لیں تو آپ کا معاشرے میں مقام تبدیل ہو جاتا ہے۔ مثلاً نائی بہت سے پارلر شاپس کا مالک ہو کر باعزت ہو سکتا ہے، موچی کی مہارت کی انتہا جوتے کی بہت بڑی فیکٹری ہو سکتی ہے۔ اسی طرح لوہار اسٹیل ملوں کا مالک ہو سکتا ہے۔۔ غرض ترکھان ، جولاہا وغیرہ یا برصغیر میں جو بھی پیشے کبھی حقارت سے دیکھے جاتے تھے ۔۔ان محنت کشوں نے انہی پیشوں میں رہتے ہوئے بھی، اس معاشرے میں عزت پائی ۔۔لیکن اس پیشے میں مہارت کی انتہا سے کچھ نہیں بدلتا سوائے اس کے کہ ذلتوں کی چھاپ گہری ہوتی جاتی ہے۔۔ اور نسلوں کا پیچھا کرتی ہے۔ اس پیشے میں رہتے ہوئے اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو وہ یہ ہی ہے کہ اگر کوئی حالات کے جبر سے یہ پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس پیشے میں رہتے ہوئے ساتھ کسی اور ہنر کا علم حاصل کرے اور اس سماجی لعنت سے نکلے ۔۔۔ ایسی چند روشن مثالیں ہیں بھی ۔کیونکہ جہاں مجموعی طور پر لوگ سماجی رویوں میں تبدیلی کے لئے کوشاں نہیں ہوتے۔۔ وہاں پر انفرادی سوچ ہی جنم لیتی ہے۔ اور برصغیر کے مسیحیوں میں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ اور کوئی یہ بھی نہ کر سکے ۔تو وہ اپنی اولادوں کو تو اس لعنت سے چھٹکارا دلوا سکتا ہے ۔۔جس کی ہزاروں لاکھوں مثالیں موجود ہیں۔ ماضی میں ہمارے چرچز اور ان سے منسلک تعلیمی اداروں نے ماضی میں اس مسئلے پر بڑا کام کیا۔ اور بے تحاشا اس پس منظر کے والدین کی اولادوں کو علم و ہنر کے ذریعے ان ذلتوں سے نکالا۔ ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے چرچز اور تعلیمی ادارے جب انہی لوگوں کے ہاتھ آئے، جو ان ذلتوں سے نکل کر آئے تھے ۔۔ تو انہوں نے بے حسی یا پتہ نہیں اپنی کون سی بشری کمزوریوں کی بدولت اس طرح کے طویل المیعاد منصوبوں کو شدید نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے۔۔۔ اور اجتماعی بھلائی کی جگہ ذاتی مفادات کے حصول میں کوشاں ہو گئے۔ جس سے مسحیت کی اصل روح اور تعلیم کے مطابق پسے ہووں کی روحانی کے ساتھ فکری ،شعوری ،تعلیمی معاشی ،سماجی ،معاشرتی تہزیبی، اور سیاسی ترقی کے لئے بنائے گئے چرچ اور انکے زیر انتظام بنائے گئے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ۔۔ جس کے نتیجے میں پیدا ہوئے والے خلا کو ترقی یافتہ ممالک کے خوشحال، خدا پرست، شہریوں کے جذبہ تبلیغ نے غریب ملکوں میں نوسر بازی کی ایک نئی صنعت نے پورا کیا۔جس نے خصوصی طور پر پاکستان میں مسیحو کو مذہبی ودیگر انارکیوں مبتلاء کردیا ہے ۔ جس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ اور مزید کی توقع ہے ۔۔ جس سے ہزاروں سال کی ذلتیں سہتے دھرتی کے ان بچوں کا ذلتوں سے عظمتوں کی طرف سفر بھی رک گیا ہے ۔۔۔ اگر یہ ایسے ہی جمود اور مفاد پرستی ،بے حسی کوتاہ اندیشی کا شکار رہا ،اور مذہب کے نام پر ہم نے جہالتوں کے سبق عام کرنے کا عمل نہ روکا تو اندیشہ ہے ۔ یہ سفر اونچائی کی بجائے دوبارہ انہیں شعوری، معاشی و دیگر پستیوں کی طرف تیزی سے شروع ہو جائے گا۔ بلکہ ہوچکاہے ۔۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے ۔۔وہ سماجی آگاہی کی ایک فکری تحریک کے بانی رضا اور 20کتب کے مصنف ہیں ۔جن چار رئیل اسٹیٹ کے موضوع پر جن میں نمایاں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اور 15کتب تحریک شناخت کے اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے ہیں ۔جن میں نمایاں” دھرتی جائے کیوں پرائے”، شان سبزو سفید ، پاکستان کے مسیحی معمار ،کئی خط اک متن ، اور شناخت نامہ دی آئی ڈنٹنٹی ہیں
Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں