• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میانداد کی عمران پہ تنقید ۔ کون صحیح کون غلط ۔۔۔سید عارف مصطفٰی

میانداد کی عمران پہ تنقید ۔ کون صحیح کون غلط ۔۔۔سید عارف مصطفٰی

مجھے 18 اپریل 1986 کا وہ دن کسی صورت نہیں بھول سکتا کہ جس روز میں اُس وقت تک کی 26 سالہ زندگی میں سب سے زیادہ جذباتی اور خوش ہوا تھا اوروفور مسرت سے ، خلاف طبیعت بچوں کی طرح چھلانگیں مارتا پھر رہا تھا کیونکہ میرے پسندیدہ ترین اسٹار کرکٹرمیڈیا کے ڈارلنگ جاوید میانداد نے شارجہ کے میدان میں ناممکن کو ممکن کردکھایا تھا اور اپنے ایک حیرت انگیز چھکے سے پاکستان کو بھارت کے خلاف آسٹریلیشیا کپ کے اعصاب شکن مقابلے میں فتح کی ٹرافی دلوادی تھی –

میں اس سے قبل 1980 میں ریڈیو پاکستان کراچی کی جانب سے منعقدہ ایک گرینڈ کرکٹ کوئز مقابلے میں رنگون والا ہال میں انکے ہاتھوں سے اپنا انعام وصول کرچکا تھا اور یوں میانداد سے میرا قلبی تعلق بہت پرانا رہا ہے جو بعد کے برسوں میں بوجوہ بتدریج مدہم پڑتا گیا اسکی وجوہات میں بعد میں بیان کروں‌ گا ۔۔۔ فی الوقت تو میرے پیش نظر انکا ایک بیان ہے کہ جس میں انہوں نے میڈیا پہ آکے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کو ختم کرنے کے حوالے سے عمران خان کو خوب جلی کٹی سنائی ہیں اور شدید جذباتیت پہ مبنی چند تقاریر کی ہیں اور جو آجکل میڈیا اور سوشل میڈیا پہ بہت زیادہ نمایاں ہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ جذباتی اپیل رکھنے والی سوچ کی آندھی کے سامنے تنقید کا چراغ جلانا کبھی آسان نہیں رہا اور مسئلہ یہ ہے کہ جاوید میانداد ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کےحوالے سے میڈیا کے سامنے ایک نہایت پاپولر مؤقف لیے کھڑے ہیں اورانکا یہ اختلاف رائے بھی کسی ایرے غیرے کا نہیں بلکہ ایک ایسے لیجینڈ کرکٹر کا ہے کہ جسے قوم کی اکثریت بہت پسند کرتی رہی ہے – ویسے بھی سوچوں کا یہ فرق محض اختلاف رائے ہے کوئی قومی سطح کا تنازع  ہرگز نہیں ہے لیکن بہر حال ملک میں اسپورٹس کی بہتری اور فروغ کی خاطر عمران خان اور میانداد کی سوچ کے اس فرق کا ایماندارانہ تجزیہ بہرطور کیا جانا چاہیے ۔۔۔ اچھی بات اس معاملے میں یہ ہے کہ اس بار اس اختلاف میں وہ روایتی تعصبی رنگ تلاش نہیں کیا جاسکے گا کہ جس میں عمران کو پنجاب کا نمائندہ اور کراچی کا دشمن بناکے دکھایا جاتا رہا ہے کیونکہ اس تنازع کا یا اختلاف رائے کا اثر اور نقد فائدہ یا نقصان سارے ملک کےکھلاڑیوں کے لیے ہے اور تقریباً یکساں ہے

جیسا کہ اب سب واقف ہوچکے ہیں کہ عمران خان ملک میں ڈیپارٹمینٹل کرکٹ کے بجائے علاقائی کرکٹ کے فروغ کے حامی ہیں اور انکا یہ نکتہء نظر کوئی نیا نہیں بلکہ برسوں پرانا ہے اور اسکا اظہار وہ متعدد انٹرویوز میں تواتر سے کرتے چلے آئے ہیں اور بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ انکی اس رائے اور سوچ کی کسی طرف سے باقاعدہ مخالفت بھی سننے یا دیکھنے میں نہیں آئی ۔ لیکن اب جب انہوں نے اس سوچ پہ عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے تو جیسے ہرطرف اک طوفان سا بپا ہوگیا ہے – میانداد کا اس بارے میں بیانیہ یہ ہے کہ عمران خان ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرنے کا قدم اٹھاکے شدید غلطی کےمرتکب ہو رہے ہیں کیونکہ اس سے کرکٹرز کو بہت مالی فائدہ پہنچتا رہا ہے اور اچھے کرکٹرز کے چناؤ میں اسی وجہ سے یہ ڈیپارٹمینٹل سرپرستی بڑی مددگار رہی ہے۔۔۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ ایک جگہ چوک گئے اور تائید میں عمران خان کے کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کا غلط حوالہ دے بیٹھے جبکہ کاؤنٹی کرکٹ تو برطانیہ کی ڈیپارٹمینٹل کرکٹ نہیں بلکہ سراسر علاقائی کرکٹ ہے- میری دانست میں میانداد کا یہ نکتہء نظر جزوی طور پہ درست اور جزوی طور پہ غلط ہے کیونکہ ملک میں جن کھیلوں کا دائرہء مقبولیت وسیع نہیں اور انتظامی ڈھانچہ مستحکم نہیں وہاں تو یقیناً ڈیپارٹمنٹل سرپرستی کی شدید ضرورت ہے کیونکہ ان کھیلوں کے کھلاڑیوں کو تو کرکٹرز کی زکوۃ کے برابر بھی معاوضے نہیں  ملتے جیسے ہاکی ، فٹبال ، ٹینس اور بیڈمنٹن و اسکواش ( لیکن ان لیجنڈ کرکٹرز کو کبھی اس معاملے میں صدائے احتجاج بلند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ) ۔

سچ تو یہ ہے کہ اقوام عالم میں جن مذکورہ کھیلوں کی مقبولیت کا دائرہ انتہائی وسیع ہے ان میں ہمیں کوئی جانتا تک نہیں اور اسی لیے ان اسپورٹس کو سرکاری اور ڈیپارٹمینٹل سرپرستی کی ضرورت کرکٹ سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ان میں کامیابی پاسکنے کا مطلب حقیقی طور پہ اسپورٹس کی دنیا میں عالمی مقبولیت اور قابل فخر پہچان پالینا ہے کیونکہ انہیں دنیا بھر میں ہر براعظم کے لوگ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور ان میں سے ہر کی مرکزی عالمی تنظیموں کے رکن ممالک کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے جبکہ کرکٹ تومحض ایک ڈیڑھ درجن ممالک تک ہی محدود ہے اور ہم خواہ کرکٹ کا ورلڈ کپ لگاتار دس بار بھی کیوں نہ جیت لیں ہماری اسپورٹس کی دنیا میں کوئی مستحکم شناخت بن ہی نہیں پائے گی کیونکہ زیادہ سے زیادہ اٹھارہ بیس ممالک کے باشندے ہی اس جینٹلمین گیم کے ناظرین اور مداحوں میں شامل ہیں ۔۔۔ حتیٰ کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے باشندے تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کرکٹ کس بلا کا نام ہے اور اسی لیے نوبت یہ ہے کہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ جیسے اہم ترین مقابلے میں بھی نہایت مضحکہ خیز طور پہ گنتی پوری کرنے اور راؤنڈ بھرنے کے لیے کینیا اور اسکاٹ لینڈ جیسے نان ممبرز کو بھی کھلانا پڑجاتا ہے جبکہ فیفا کے دو سو سے زائد ممبرز میں سے ورلڈ کپ کھیلنے والی   دو ڈھائی درجن ٹیموں کو چننے کے لیے سخت مقابلوں اور کوالیفائنگ راؤنڈ منعقد کیے جاتے ہیں

لیکن میرے اس بیان کا یہ مطلب بھی ہرگز نہ لیاجائے کہ میں کرکٹ کی سرپرستی کا بالکل قائل نہیں ، لیکن میری دانست میں چونکہ کرکٹ کماؤ پوت ہے اور اسکی مرکزی و ضلعی انتظامی کیفیت اور آمدنی کا پہلو خاصا مستحکم ہے لہٰذا اس سے وابستہ کھلاڑیوں کے لیے گزر بسر کچھ زیادہ قابل تشویش نہیں ہے بالخصوص جبکہ اسے اہم ٹورنامنٹس کے ملکی و بین الاقوامی حقوق کی فروخت ، گیٹ منی اور اشتہاری مدات کی مد میں آمدن کے علاوہ اسپانسرز کی غیرمعمولی دلچسپی بھی میسر ہے- ڈیپارٹمینٹل کرکٹ کی حمایت کرتے ہوئے یہ برسر زمین حقیقت بھی ہرگز فراموش نہ کی جائے کہ اس سے کھلاڑیوں کو دیئے جانے والے خطیر معاوضے سے قطع نظر، ملک میں موجود کرکٹ ٹیلنٹ  تلاش کرنے میں اسکا کوئی خاص رول نہیں ہے کیونکہ عام طور پہ ہوتا یہ ہے کہ یہ ڈیپارٹمنٹس اپنی ٹیموں میں روایتی بھرتیاں ہی کرتے ہیں اور قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے علاوہ فرسٹ کلاس کرکٹ کے وہی 25-30 ٹاپ کھلاڑی جن میں سے اکثر مختلف وقتوں میں نیشنل ٹیم میں بھی ان آؤٹ ہوتے رہتے ہیں تو وہ انکی مل بانٹ کرکے اپنی ٹیمیں بنالیتے ہیں جبکہ بالکل نئے ٹیلنٹ کی شمولیت کی گنجاش دس پندرہ فیصد سے زیادہ بچتی ہی نہیں – جبکہ علاقائی کرکٹ میں اگر یہ مقابلے ڈویژنل سطح کے ہوں تو بہت نیچے سے بھی کھلاڑی چنے جاسکیں گے جو کہ نچلی سطح کے ابتدائی کئی مرحلوں کے مقابلوں سے چھن کے اوپر تک آئیں گے –

علاقائی کرکٹ کی بڑی خوبی اس کی پشت پہ موجود غیرمعمولی عوامی جوش و خروش ہے جو ڈیپارٹمنٹل مقابلوں میں بالکل مفقود ہے کیونکہ فطری طور پہ کسی بھی فرد کی پہلی وابستگی اپنی مٹی سے ہے اور لاہور، اسلام آباد یا کراچی کے عوام کو اس جذباتی عنصر میں تو دلچسپی یقیناً ہوسکتی ہے کہ وہ کوئٹہ پشاور یا ملتان کو ہرادیں مگر کسی کو اس سے کیا سروکار کہ  نیشنل بینک،  ریلوے یا واپڈا کی ٹیم پی آئی اے ،حبیب بینک یا کسٹمز کو مات دے دیتی ہے یا نہیں اور اس حقیقت کو کافی حد تک پاکستان سپر لیگ اور انڈین پریمیئر لیگ کے مقابلوں میں باآسانی دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک طرح سے علاقائی کرکٹ کی ہی ایک شکل ہے اور اس کی کامیابی کی اساس بڑی حد تک اسی طرز احساس پہ مبنی ہے- گویا علاقائی کرکٹ بہت نچلی سطح سے کھلاڑیوں کے چناؤ میں بہت مددگار بھی ہوسکتی ہے اور کھیل میں عوامی دلچسپی کو بھی ابھار اور برقرار رکھ سکتی ہے اور عوامی دلچسپی اور جوش و خروش ہی وہ پہلو ہے جو اسپانسرز اور اشتہار دینے والوں کے لیے جاذب توجہ ہے – اور اس پہلو سے تو ان علاقائی ٹیموں کو اسپانسرز کی اور زیادہ سرپرستی میسر آنا یقینی ہے – لیکن اس سے ڈیپارٹمینٹل کرکٹ کے نام پہ چند ایسے ایکسپرٹس کی چودہراہٹ کا یقیناً خاتمہ ہوجائے گا کہ جو اپنے ماضی کی شہرت یا لابنگ کی قؤت کے بل پہ اس کرکٹ کو اپنے ماہرانہ نرغے میں لیے بیٹھے ہیں ، ویسے بھی یہ بالکل یقینی بات ہے کہ علاقائی مقابلوں کے کھلاڑیوں کو انفرادی طور پہ بھی ، ملک کی سینکڑوں کارپوریشنیں باآسانی مل جل کے اسپانسرکرسکتی ہیں اور اسکے علاوہ اشتہارات پہ اضافی ٹیکس لگا کے حکومت بھی اس مد میں اپنا بھرپور حصہ ڈال سکتی ہے-

جہاں تک میانداد کا تعلق ہے ، بلاشبہ انہوں نے اپنے کھیل کے دور میں ملک کو غیر معمولی کامیابیاں دلائی ہیں لیکن اپنے بعد کے دور میں انہوں نے صرف باتوں سے کام چلایا ہے اور انکی مہارت و قابلیت سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا گو کہ ملک میں کرکٹ کے فروغ اور بہبود کے لیے پی سی بی نے انہیں ساڑھے سات لاکھ روپے ماہوار کی تنخواہ پہ اپنی صلاحیتیں روبہ عمل لانے کے لیے طویل عرصہ ڈائریکٹر جنرل کی اسامی پہ بھی فائز کیے رکھا لیکن انہوں نے تو وہاں کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھانا تو دور بری طرح سے مایوس کیا اور مبینہ طور پہ تو وہ بعد میں دفتر کا رخ بھی کم ہی کیا کرتے تھے لیکن کون ہے کہ جو ان سے اس پست کارکردگی کا حساب لے سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انکی ڈیپارٹمینٹل کرکٹ کے لیے اسی وقت سمجھ میں آتی کہ جب وہ یہ ثابت کرسکتے کہ ملک میں کرکٹ کے ٹیلنٹ کی تلاش میں یہ طریقہ علاقائی کرکٹ سے زیادہ عملی اور موثر ہے نہ کہ وہ محض آمدن ہی کو اسکی خوبی بتانے تک محدود ہیں – کاش وہ اپنے نئے پرانے ساتھی اسٹار کھلاڑیوں کی مدد مداحوں کی اعانت اور تجارتی برادری سے تعلق ہونے کی بناء پہ تاجروں کے تعاون سے کھلاڑیوں کی بہبود کے لیے عملاً خود بھی کوئی بہبودی ادارہ بنانے میں دلچسپی لے لیتے تو آج یہ مسئلہ اس قدر گھمبیر بھی نہ رہ جاتا-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply