سائیاں وے۔۔۔۔ محمد افضل حیدر

دِن کا پہلا پہر ماحول کے طول و عرض پر اپنی آمریت مسلط کر چکا تھا۔ گرمیوں کا سورج دِن کے آغاز سے ہی اپنے تیور دکھا رہا تھا۔دِتاّ کھیتوں کے بیچوں بیچ سے ہوتا ہوا منشی رب نواز کے پاس پہنچا جو کہ بھٹے کی چمنی کے پاس ایک چارپائی پر بیٹھا حقے کے کش لگا رہا تھا”مجھے کچھ پیسے چاہیے منشی جی۔“دتے نے تقاضا کیا۔ ”میں تجھے پہلے بھی تیری مزدوری سے زیادہ پیسے دے چکا ہوں۔ تم نے دو دِن پہلے جو پانسو لیے تھے اس کو کس کھوہ کھاتے میں ڈالا۔پتہ نہیں نشہ کرتے ہو یا جوا کھیلتے ہو، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ آخر تم اتنے پیسوں کا کرتے کیا ہو؟ پہلے بھی تمہارے حصے کی ایک ہزار اینٹ رہتی ہے بنانے والی۔ پہلے وہ پوری کرو پھر ایڈوانس۔پھر پیشگی ملے گا۔ چل میرا پتر شاباش! لگ جا کام کو۔۔ہر بار تیرے بندھے ہاتھ دیکھ کر میں بے وقوف نہیں بنوں گا۔ پیسے درخت پر نہیں اُگتے میں نے حاجی صاحب کو حساب دینا ہوتا ہے۔ پچھلی بار بھی تیری وجہ سے خواہ مخواہ بے عزتی کی انہوں نے۔اس نے تو یہاں تک کہہ دیا منشی جی! جو پیسے جمعرات کی جمعرات حساب میں نہیں آتے وہ تمہاری جیب سے جائیں گے۔“
اب توُ میرے مامے کا پتر تو نہیں کہ میں تیری خاطر بے عزتی بھی کراؤں اور پیسے بھی اپنی جیب سے ادا کروں۔ چل نس جا یہاں سے اور کوئی کام دھندہ ڈھونڈ یہ مزدوری تیرے بس کا روگ نہیں ہے!
”پر منشی جی! خدا کا واسطہ ہے۔۔۔۔۔ میری بچی بہت بیمار ہے کھانستی ہے تو منہ سے خون کی لپ آتی ہے۔۔۔ ڈاکٹر نذیر نے جواب دے دیا ہے کہتا ہے اسے شہر کِسے چنگے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ یا ہسپتال میں داخل کراؤ۔ آپ کو پتہ ہے شہر میں کتنا خرچہ ہے۔ میرے جیسا بھُوکا ننگا شہر کا خرچہ کہاں سے برداشت کرے گا۔خدا کے لیے میری مدد کر دیو آخری وار سمجھ کے۔ میں ساری زندگی آپ کا احسان مند رہوں گا۔ میں اپنے حصے سے زیادہ کام کروں گا۔ میری آخری بار سن لو۔۔۔ میرے بندھے ہاتھوں کی لاج رکھ لو منشی جی میری بچی مر جائے گی۔“
”ویکھ دِتے مجھے نہیں پتہ کہ تیری بچی بیمار ہے یا نئیں۔ پچھلی بار بھی توں بیوی کا کہہ کر دو سو لے گیا تھا۔“
منشی جی!خدا کی قسم اُس بار زرینہ بیمار تھی۔ اعتبار نہیں آتا تو ڈاکٹر نذیر سے پوچھ لینا۔۔ ابھی بھی اس کے اسی روپے دینے ہیں۔ اس کو ہیضہ پڑگیا تھا۔ بے چاری پہلے ہی مرتے مرتے بچی تھی اب شازیہ کی پریشانی میں سُک سُک کے تیلا ہو گئی ہے۔
مجھے کچھ نہیں پتہ بس سیدھی سی بات ہے کام کرو گے تو پیسے ملیں گے ورنہ نہیں۔
”منشی جی خدا کے لیے پیسے دے دو میں تیرے سامنے پھر ہاتھ جوڑتا ہوں۔ میں گھر دیر سے پہنچا تو بارہ وجے والی بس نکل جائے گی۔۔ بچی کو شہر لے کر جانا ہے ہو سکتا ہے وہاں داخل بھی کرانا پڑے میں واپسی پر دُگنا کام کر کے جاؤں گا، بس اس بار پیسے دے دو خدا تمہارا بھلا کرے گا۔“
چل اب زیادہ بکواس مت کرو ایک تو تم مصلیوں کی عادت ہوتی ہے پیچھے ہی پڑجانا۔پیسے میں تجھے دے دیتا ہوں مگر ایک شرط پر۔۔ تجھے اپنی گدھی ادھر میرے پاس باندھنی ہو گی۔۔۔ جب تم شہر سے واپس آؤ گے اور اپنے حصے کا کام کرو گے تو تمہیں یہ گدھی واپس مل جائے گی۔
پر منشی جی کھوتی تو گھر بندھی ہے میں یہاں سے جا کر اسے یہاں باندھنے آؤں گا تو بس نکل جائے گی بارہ وجنے والے ہیں۔
”بس فیر بھونکتا رہ اِدھر بیٹھ کر پیسے بھی نہیں ملنے والے۔۔“
منشی جی خدا واسطے مجھے پیسے دے دو۔ تم جیساکہو گے ویسا کروں گا بس اب جانے دے میری بچی مر جائے گی۔۔۔ تم گدھی کے بجائے مجھے باندھ لینا مگر اب بات مان لو میری!
”تَومر جائے مجھے کیا ہے؟زندہ رہ کر بھی کون سے جھنڈے گاڑھنے ہیں اُس نے۔۔ اسے مرنے دو تیری دو چار روٹیاں بچ جائیں گی۔ ویسے بھی جب جوان ہوگی تو اس کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے کہاں سے لاڑا لاؤ گے اس کے لیے۔۔۔ جہیز بھی دینا پڑے گا۔۔۔۔۔ اس سے اچھا نئیں کہ وہ سکون سے مر جائے“
”منشی خدا کے لیے میں مجبور ہوں میری مجبوری سمجھ لے خدا کے قہر سے ڈر“
اوئے چوڑھیا!توں کون ہوتا ہے مجھے خدا سے ڈرانے والا۔۔ میں تیرا بھلا سوچ رہا تھا مگر تو ہے کہ آگے سے بکواس پہ بکواس کیے جا رہا ہے۔۔۔۔۔ چل دفعہ ہو جا یہاں سے اور آ ئندہ کبھی مت آنا ادھر“
منشی خدا واسطے ترس کھا لو۔ تو میری برادری کو جانتا ہے سارے میرے جیسے ہیں مجھے کوئی پیسے نہیں دے گا۔ اگر میرے منہ سے کچھ غلط نکلا ہے تو مجھے معاف کر دے۔۔ بس کچھ
پیسے دے دے!!
”منشی نے ٹانگ چھڑاتے ہوئے ڈھیلی آواز میں کہا بے غیرتا چوڑھیا تجھے کہا ہے نہ اپنی کھوتی لا کے باندھ ادھر تجھے دیتا ہوں پیسے“۔۔۔ جتنی فضول بکواس ”یہاں کر رہا ہے اب تک تم نے گدھی لے بھی آنی تھی“۔۔۔۔۔
”منشی گدھی نہیں لا سکتا کچھ ہور کام کہہ دے۔“
ہور کام کیا کہوں میں تجھے۔۔۔۔۔ منشی رب نواز کھلی ہوئی باچھوں کے ساتھ اِدھر اُدھر تکنے لگتا ہے اور منہ ہی منہ میں اللہ دتے مصلی کو گندی گالی رسید کرتا ہے۔ اچھا چل یہ مٹی پڑی ہے ہزار اینٹوں کا گارا بنا دے اور پیسے لے لے۔۔ اور دیکھ کوئی بکواس مت کرنا ورنہ پیسے نہیں ملیں گے۔ پر منشی جی! َ۔۔۔۔۔ دتے مصلی کے منہ سے ایک سرد آہ نکلی اور وہ کسّی بیلچہ اٹھائے شلوار کو گھٹنوں تک کھینچے اور قمیض کے دونوں سروں کو آپس میں باندھ کر مٹی میں کود جاتا ہے۔
وہ سخت جان لڑاتا ہے تا کہ جلد از جلد یہ کام ختم کر کے بس کے ٹائم سے پہلے گھر پہنچ جائے۔۔ مگر پانی دور کے حوض سے بھر کر لانے کی وجہ سے مسلسل تاخیر ہوتی رہی۔۔۔۔ وہ اپنی طرف سے کام ختم کر کے منشی کے پاس گیا مگر منشی نے مٹی کا معائنہ کیا اور اسے سخت جھاڑ پلائی کہ اس طرح آدھی گوندھی ہوئی مٹی سے کس طرح اینٹیں بنیں گی۔منشی کی ڈانٹ کے بعد اُسے ایک مرتبہ پھر مٹی والے گارے میں اترنا پڑا۔ اس بار اس نے تسلی سے کام کیا اور پیسے لینے کے لیے منشی کے دفتر گیا منشی تھوڑی دیر پہلے ہی نماز کے لیے نکل چکا تھا۔بس نکلنے میں ابھی بھی 20منٹ باقی تھے۔ اس کا دِل بیٹھاجا رہا تھا۔ اس نے بے اضطراری میں دفتر کے باہر اِدھر اُدھر کے دو چکر کاٹے اور بجلی کی سی تیزی سے مسجد کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ منشی نے تسلی کے ساتھ نماز پڑھی جب باہر آیا تو مسجد کے دروازے پر دِتے کو دیکھ کر انتہائی حقارت سے منہ ہی منہ میں یہ کہا ”بے غیرت چوڑھا“ ”اِدھر آنے کی کیا ضرورت تھی“۔ میرے واپس آنے کا یقین نہیں تھا تجھے۔۔ اب میں کھاتے والا رجسٹر جیب میں لے کر گھوم رہا ہوں کیا۔!!
”منشی جی بس نکلنے والی ہے۔۔۔ دتے نے رعب میں دب کر کہا“۔
”تیری بس پہ بھی لعنت اور تجھ پہ بھی۔۔ بس کے چکر میں میرا سکون تو برباد نہ کرو“۔۔۔۔۔
منشی خراماں خراماں چلتا ہوا بھٹے پر آیا۔۔ سب سے پہلے اس نے گا رے کا معائنہ کیااور اس کے بعد ناک منہ چڑھاتے ہوئے اپنے بوسیدہ سے دفتر میں آیا۔وہاں سے رجسٹر نکالا اور دتے سے کہا بولو کتنے پیسے چاہیے۔؟؟
دتے نے انتہائی دبے ہوئے لہجے میں کہا۔”منشی جی دو ہزار رو پے“۔۔
”تمہارا دماغ خراب ہے۔ تین سو کی دیہاڑی کرنے والے کو دو ہزار کیسے دے دوں میں“؟۔۔۔
”پہلے بکواس کرنا تھا۔ فضول میں میرا وقت بر باد کیا۔“
پانچ سو تو پہلے ہی تیرے کھاتے میں درج ہیں اور اوپر سے دو ہزار مانگ رہے ہو۔ میرے ماتھے پر بے وقوف لکھا ہوا ہے۔ جو تجھے اتنے پیسے دے دوں۔۔۔ انتہائی ناگواری سے منشی نے جیب سے پانچ سوکا نوٹ نکالا اور اس کو تھما دیا۔ اب تیری طرف ایک ہزار ہو گیا۔
منشی جی یہ بہت تھوڑے ہیں۔ بچی کو لے کے شہر جانا ہے۔
”لعنت ہے تجھ پر اور تیرے شہر پر“۔ میرے پاس تو یہی ہیں اگر لینے ہیں تو لے نہیں تو دفع  ہو جا یہاں سے۔۔ منشی پانچ سو ٹیبل پر رکھ کر خود وہاں سے چلتا بنا۔ دتے نے چارونا چار پانچ سو روپے وہاں سے اٹھائے اور بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا۔گاؤں کے قریب بس سٹاپ کے پاس سے گزرا تو بس شہر روانگی کا ہارن بجا رہی تھی وہ تیزی سے ڈرائیور کی طرف دوڑا اور اسے منت سماجت کرنے لگا۔ڈرائیور نے کہا ابھی پانچ دس منٹ ہیں بس چلنے میں۔ اگر وقت پر آجاؤ تو تم بس پکڑ سکتے ہو۔ بس کا پکا ٹیم ہے اس سے زیادہ تاخیر نہیں کر سکتے۔
یہ سنتے ہی وہ سر پٹ بھاگنے لگا اور ہانپتے ہانپتے گھر کے دروازے تک پہنچا۔۔ بیوی زرینہ نے دیر سے آنے پر اُسے جلی کٹی سنانا شروع کر دیں جس پر اس نے کوئی توجہ نہیں دی اور گدھا گاڑی جوڑنے میں مصروف ہو گیا۔بڑے بیٹے پرویز سے کہا شازیہ کی چارپائی الٹی کر کے اس کے نیچے بستر ڈال کر جلدی سے گدھا گاڑی پر رکھے۔ بس نکلنے والی ہے تاخیر ہوئی تو کل کا انتظار کرنا پڑے گا۔
پرویز اور اس کی ماں نے تیزی کے ساتھ یہ تمام کام مکمل کیا اور وہ چاروں گدھا گاڑی پر بیٹھ کر بس اسٹاپ کی جانب نکل پڑے۔ بس اسٹاپ پر پہنچنے سے پہلے ہی بس نکل گئی تھی۔ ننھی شازیہ کا بخار اور کھانسی سے برا حال تھا۔ چہرہ زرد اور ہونٹ کالے پڑ چکے تھے۔ اسکے منہ سے اونگھنے کی خفیف سی آوازیں آرہی تھیں۔ گدھا گاڑی سڑک پر پہنچی تووہ ہاتھ سر پر رکھے بے اختیار رونے لگا۔ شہر یہاں سے کافی فاصلے پر تھا۔ شازیہ کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اُسے دوبارہ گھر لے جاتا۔ ان کو پریشان حال دیکھ کر قریب سے گزرنے والی دو بڑی عمر کی عورتیں ان کے قریب آئیں۔ انہوں نے بچی کی حالت پر استفسار کیا اور ان میں سے ایک قدرے بوڑھی خاتون نے بچی کو دیکھتے ہی چچ چچ چ چ چ ایک سسکا ری منہ سے نکالی ”شودھی ڈھیر ساری بیمار اے“
”میرا ماڑا پتر! سائیوں کی مرضی کے بغیر کسی کو سکھ نہیں ملتاجہاں ڈاکٹروں کا دوا دارو نہیں پہنچ پاتا وہاں اللہ کے نیک بزرگوں کی دعا اور تعویز دھاگا پہنچتا ہے۔ بچی کو شہر کے دھکے کھلانے سے بہتر ہے اسے حضرت پیر بابا سُکھے شاہ کی درگاہ پر لے جاؤ۔خلقت جھکتی ہے وہاں پر۔ہزاروں لوگ بھلے چنگے ہو رہے ہیں وہاں سے۔ میری اپنی شو گر ٹھیک ہوئی ہے وہاں سے!“
”جہاں ڈاکٹر جواب دے دیں وہاں سے سائیں کا علاج شروع ہوتاہے۔ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر ہے تم لوگ بچی کو سائیں کے دربار پر لے جاؤ بغیر کسی خرچے کے وہاں سے ٹھیک ہو کر نہ آئے تو مجھے کبھی معاف نہ کرنا۔“
اس بوڑھی خاتون کی یقین اور عقیدت سے لبریز گفتگو دتے کے سیدھی دِل پر لگی اور اس نے پتہ معلوم کر کے گدھا گاڑی کا رُخ سکھے شاہ کی درگاہ کی جانب موڑ دیا۔
دِتے کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی بیمار بچی کو شفا مل چکی ہو۔۔ اس کے چہرے پر اطمینان اور یقین کی چمک تھی۔ اس نے شلوار کے نیفے میں دبائے ہوئے پانچ سو کے نوٹ کو ٹٹولا اور ایک سرد آہ کے ساتھ منہ سے چ چ چ چ کی آواز نکالی آواز گدھی کے کانوں تک پہنچتے ہی اس نے ایک جست لگائی اور سر پٹ بھاگنے لگی۔۔۔۔۔ دِتے کو یقین سا ہونے لگا کہ یہ پانچ سو آج خرچ ہونے سے بچ جائیں گے۔
بھلا ہو اِن بیبیوں کا جنہوں نے ہمیں سیدھی راہ پر لگایا ہے۔ شہر جاتے تو خودبھی رُلتے اور اس معصوم کو بھی رُولتے۔ اللہ نے اِن بزرگوں میں بڑی جان رکھی ہے۔ یہ بڑے کرنی والے ہوتے ہیں۔ اِن کے ہاتھوں اور مزاروں پہ بڑی شفا ہے۔ تم دیکھ لینا دِتے اللہ نے ہماری شاجو کو آج بھلا چنگا کر دینا اے۔زرینہ نے دتے کو مخاطب  کرتے ہوئے کہا۔
ہوں۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔ان شاء اللہ۔۔۔۔۔دِتا جو کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا گدھا گاڑی کی واگ ہاتھ میں لیے بے حِس بیوی کی یقین اور عقیدے سے لبریز گفتگو سن کر بے اختیاری میں زبان سے صرف یہی کلمات ادا کر پاتا ہے۔
گدھا گاڑی بوجھل قدموں کے ساتھ خراماں خراماں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوتی ہے۔ رستے میں ننھی شازیہ پانی کا تقاضا کرتی ہے۔ دِتا کچی سڑک کے ایک کنارے کیکر کے درخت کے نیچے ریڑھی کو روک کر قریب ایک بوسیدہ سے نلکے سے پلاسٹک کی خالی بوتل میں اس کے لیے پانی لاتا ہے۔
پانی حلق سے نیچے اترتے ہی شازیہ جی متلانے کی شکایت کرتی ہے۔ دِتاسڑک پر پڑے کنوکا ایک سوکھا ہواچھلکا اس کے لیے اُٹھا کر لاتا ہے  اور اس سے اسے مسلسل سونگھتے رہنے کی تلقین کرتا ہے۔
شازیہ اُس سوکھے ہوئے چھلکے کو سونگھنے کی کوشش کرتی ہے مگر بے جان ہونے کی وجہ سے وہ چھلکا خوشبو سے عاری ہوتا ہے۔ کچھ ہی لمحوں بعد کھانسی کا ایک شدید وار اس پر قہر بن کر ٹوٹ پڑتا ہے۔۔ جگر کو چیرتی اور پسلیوں سے باہر جھانکتی کھانسی کے دوران ہی اس کے منہ سے بلغم، حکیم کی دوائی، نذیر کی نیلی پیلی گولیوں اور خون کے جالوں سے بھرا قے کاایک سیلابی ریلہ بر آمد ہوتا ہے جو کہ اس کے کپڑوں، نیچے پڑے بستر، ماں زرینہ کے دوپٹے تک کو بہالے جاتا ہے۔
دونوں میاں بیوی کے منہ سے بے اختیار یہ آوازیں آنے لگتی ہیں۔”اوئے ماں مری۔اوئے پیوں مری۔۔۔ میں صدقے تے میں قربان۔۔۔ میری جان۔۔ میں مراں“۔۔ دِتا قریب بہنے والے ایک نہری نالے سے پانی کی بوتلیں بھر بھر کر ان کو دیتا ہے جس سے وہ اپنے جسم سے بد بو دار قے کے چھینٹوں کو صاف کرتی ہے۔۔
کار یا موٹر سائیکل پر آدھے گھنٹے میں طے ہونے والا یہ معمولی سا سفر گدھا گاڑی پر دو گھنٹے بیس منٹ میں طے ہوتا ہے۔ ریڑھی کے ہچکولوں اور سر پر پڑنے والی تیز دھوپ نے بیمار شازیہ کے لیے زہر قاتل کا کام کیا۔۔۔ اس کی پتلیاں پھِری پھِری اور ہونٹ بے جان اور سیاہ زردہونے لگے۔۔ ایک چھوٹے سے گاؤں ”سُکھے والا“ کے قریب سے گزرنے کے بعد ایک پرانے قبرستان کے بیچوں بیچ ایک بڑے وسیع و عریض میدان میں ایک میلے کا سماں ہوتا ہے لاؤڈ اسپیکر وں سے نصیبو لال اور نور جہاں کے گانوں اور ورائٹی شوز کے اعلانات کانوں میں ایک ہیجان برپا کررہے ہوتے ہیں۔۔ آج سائیں کرم شاہ المعروف سُکھے شاہ ولی کے عرس کا دوسرا روز تھا۔۔ یہ میلہ ہر سال گرمیوں کے آغاز پر وساکھ کے مہینے میں زور و شور سے یہاں لگتا تھا۔ پورے ملک سے ناٹک کمپنیوں، سائیکل اسٹینڈ، ورائٹی شوز، موت کے کنویں، چڑیا گھر، کھلونوں کی دکانیں اور انواع و اقسام کی مٹھائیوں کی دکانیں یہاں سج کر میلے کی رونق بڑھاتی تھیں۔ ارد گرد کے دیہات سے لوگ ٹولیوں کی شکل میں ٹریکٹر،ٹرالیوں، گدھا گاڑیوں اور چنگ چی رکشوں پر لدے پھندے یہاں آتے تھے۔ پہلے در بارپر پہنچ کر حاضری دیتے،گلّے میں نذرانہ ڈالتے اور پھر کوئی ورائٹی شو میں گھس جاتا اور کوئی موت کے کنویں پر کھڑ ا ہوکر موٹر سائیکل سوار کے کرتب دیکھتا۔دِن کے پچھلے پہر یہاں کبڈی کا میچ ہوتا جس کو حضرت خرم شاہ (سوکھے شاہ سوئم) خاص طور پر اپنی پجارو گاڑی میں بیٹھ کر دیکھنے آتے۔۔۔ ان کے پنڈال میں آتے ہی لوگ دیوانہ وار ان کی طرف لپکتے کوئی ہاتھ چومتا اور کوئی قدموں میں گرتا کچھ مُرید اپنے ساتھ ڈھولچی والے کو لے آتے۔خرم شاہ کے ارد گرد ایک حصار سا بنا کر ڈھول کی تھاپ پر والہانہ رقص کرتے اور دس دس روپے کے نوٹوں کی برسات کردیتے۔
دِتا ریڑھی کو ہانکتے ہوئے میلے کے قریب ایک بر سیم کے کھیت میں شیشم کے درخت کے نیچے باندھنے لگا۔۔۔۔۔ اسی دوران ایک دھان پان سا لڑکا اس کے قریب بھاگتا ہواآیا اور کہنے لگا میلے کی تمام پارکنگ کا ٹھیکا ان کے پاس ہے اس لیے ریڑھی پارکنگ سٹینڈ میں کھڑی ہو گی یہاں کھلی جگہ میں نہیں باندھی جا سکتی۔۔۔ دِتے نے لاکھ عذرپیش کیا مگر وہ لڑکا نہ مانا او رریڑھی کو زبردستی وہاں سے کھول کر قریب ہی رسوں اور بانسوں کی مدد سے بنائے گئے ایک واڑے جس کو انہوں نے پارکنگ اسٹینڈ کا نام دے رکھا تھامیں کھینچ لایا۔ جہاں کثرت کے ساتھ سائیکل،موٹر سائیکل، چنگ چی رکشے اور کچھ گدھا گاڑیاں بھی موجود تھیں۔۔۔۔۔
دِتے نے زمین پر دو لائی بچھا کر ننھی شازیہ کو اس پر لٹایا اور ریڑھی کوکیکر کے تنے کے ساتھ باندھ دیا۔ اسٹینڈ والے نے ایک پر چی اس کو تھمائی اور پچاس روپے کا تقاضا کیا۔پیسوں کے تقاضے سے اس کی جان جاتی تھی۔ یہاں بھی اس نے صاف انکار کیا مگر وہ لڑکا باز نہ آیامسلسل بڑھتی تکرار کو دیکھ کر دِتے کے بیٹے پرویز نے دِتے کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھا”جانے دے ابا چھوٹی کی طبیعت خراب ہے دھوپ بہت زیادہ ہے یہاں کا قنون ہے انہوں نے پیسے نہیں چھوڑنے۔ دے دو پیسے انہیں۔“
دِتے نے نیفے سے پانچ سو کا نوٹ نکالا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں اور التجائیہ نظروں سے نوٹ اس کی ہتھیلی میں تھما دیا۔
دِتے نے بیٹی کو بازوؤں پر اُٹھالیا اوردبے قدموں کے ساتھ دربار کی جانب چلنے لگا۔ اسی دوران شازیہ نے ہونٹ سکیڑے اور انتہائی نحیف آواز میں پانی کا تقاضا کیا۔زرینہ نے اللہ دِتے سے کہا”یہاں کسی دُکان سے کالے سوڈے کی بوتل لے دو اس سے ہاضمہ بھی اچھا ہوجائے گا اور پیاس بھی ختم ہوجائے گی۔صبح سے ساداپانی پی پی کر اس کا جی الٹ رہا ہے“۔
دِتے نے قریب ہی ایک چھوٹے سے کھوکھے کے پاس پڑی  نواڑ کی ایک چھلنگا سی چارپائی پر شازیہ کو لٹا دیا اور اس کے لیے سوڈے کی بوتل لانے کے لیے چل نکلا۔۔۔۔۔
پیچھے سے زرینہ کی آواز نے اس کا تعاقب کیا۔
”بوتل کے ساتھ ایک آدھا لیمن کریم والے بسکٹ کا پیکٹ بھی لیتے آنا دِتے۔ بیچاری صبح سے بھوکی ہے۔ دِتا بغیر پیچھے مُڑے آگے کی جانب چل نکلا۔۔۔۔۔ ایک کھوکھا نما دکان سے اُس نے ایک لیٹر والی بوتل اور ایک لیمن کریم کے بسکٹ کا پیکٹ خریدا اور 80 روپے دکان دار کو ادا کر کے بیوی بچوں کے پاس پہنچا۔
”کوئی بھانڈا برتن ہے پاس جس میں بوتل ڈال کر اس کو پلا نی ہے؟“زرینہ نے نفی میں سر ہلا یا۔”تمہیں ذرا خیال نہیں آیا کہ گھر سے باہر جارہے ہیں کوئی بھانڈا برتن اٹھا لیتی۔بیمار بچی ساتھ ہے اس کا خیال ہی کر لیتی۔“
”دیکھ دِتے میرا تم سے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ پہلے ہی شاجو کی پریشانی سے میرا بولنے کو دِل نہیں کر رہا اوپر سے تم گلے پڑ رہے ہو۔ اس کی پریشانی سے اپنا آپ بھولا ہوا ہے اور تمہیں بھانڈوں کی پڑی ہے۔ زرینہ نے گفتگو کے دوران ہی بوتل کا ڈھکن کھولا اور منہ لگا کر پینے لگی۔۔ تین چار گھونٹ اس نے حلق سے میدے میں اتارے اور بوتل بیٹے کی جانب بڑھا دی لے پُتر گرمی ہے تو بھی پی لے ۔۔ پتہ نہیں بعد میں نصیب ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ پرویزنے بوتل پکڑی اور تین کے بجائے پانچ گھونٹ پی گیا۔ بوتل ابھی اس کے منہ کے ساتھ لگی ہوئی ہی تھی کہ دِتے نے اس سے چھین لی اور اپنے منہ کے ساتھ لگا لی۔دو گھونٹ پینے کے بعد اس نے بوتل شازیہ کی جانب بڑھائی۔۔۔ ”لے شاجیا پتر تو پی لے اب۔۔ تیری ماں نے تیرا جوٹھا پینا نہیں تھا اس لیے اس نے پہلے بوتل تجھے نہیں د ی“۔۔۔۔زرینہ نے شازیہ کو گردن اور کندھے سے اوپر اُٹھا کر اس کا سر گودمیں لے کربوتل کو اس کے منہ کے ساتھ لگا دیا۔۔۔۔۔ ساتھ ہی دِتے نے بسکٹ کا پیکٹ کھولا اور ایک بسکٹ نکال کر بیٹی کوکھلا دیا۔

دو تین بسکٹ کھانے کے بعد اس نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا کہ اب جی نہیں چاہ رہا۔۔۔۔۔
اسی دوران ڈھول کی آواز کانوں کو چیرنے لگی۔۔۔۔۔
دِتے نے باہر مٹھائیوں والے بازار میں آکر دیکھا تو ایک جلوس سا اس طرف آتا دکھائی دیا۔ جلوس سے بولو بولو سکھی لعل قلندر مست کے نعروں کی آوازیں شدت سے گونج رہی تھیں“
ہجوم میں سے ہی کہیں ”کرنی والا پیر میرا سائیں سُکھے شاہ مست“ کی آوازیں بھی کانوں کو سنائی دینے لگیں۔ نعرہ لگانے والوں میں سے ایک مست کہتا تو پورا ہجوم اونچی آواز میں مست کو دُہرا کر آواز کو فضا میں اُچھال دیتا۔
دِتے نے پاس ہی کھڑے ایک شخص سے پوچھا بھا ئی یہ جلوس کیسا ہے؟
عجیب شخص ہو یار؟اس شخص نے ناگواری کے ساتھ دِتے کی جانب دیکھا۔۔ دکھنے میں مقامی لگتے ہو مگر تمہیں اس چادر والی مر کزی بارات کا نہیں پتہ۔ حیرت والی  بات ہے۔بھئی یہ دربار کی پرانی روایت ہے۔۔ یہ بارات حضرت بابا سُکھے شاہ کے ننھیال سے ہر سال یہاں آتی ہے۔۔ سائیں ملازم شاہ جو کہ سُکھے شاہ کے نانا تھے بڑے کرنی والے بزرگ تھے انہوں نے اپنی زندگی میں یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔سائیں سُکھے شاہ دوم اس وقت زندہ تھے۔ یہ چادر ان کے پنڈ پسوئی شریف سے روانہ ہو کر تین دِن میں یہاں پہنچتی ہے رستے میں بہت سے پنڈ آتے ہیں جو کہ اس بارات کو کھانا دیتے ہیں۔ چادر میں نذرانہ ڈالتے ہیں۔ سائیں بڑے کرنی والے ہیں۔ اس چادر میں بڑی طاقت ہے ہزاروں بیماروں کو یہاں سے شفا ملی ہے اور وہ اچھے بھلے ہوئے ہیں۔
بھائی اس چادر سے شفا کیسے؟دِتے کے چہرے پر بھول پن کے آثار نمودار ہوئے۔
اوئے اللہ کے بندے! یہ صدیوں پُرانی رسم ہے اس کے نیچے سے گزرنے وا لے بیمار کو پیر سائیں اچھا بھلا کر دیتے ہیں۔ یہ چادر نادار اور دُکھی لوگوں کی ساری بیماریاں تکلیفیں پریشانیاں کھینچ کر ان کو پاک صاف اور اچھا بھلا کر دیتی ہے۔بچی تو میری بھی بیمار ہے بھائی!۔۔ پر ایک مجبور ی ہے۔۔ دِتے نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
کیسی مجبوری بھائی؟
بچی کافی بیمار ہے وہ چل پھر نہیں سکتی اتنے زیادہ رش میں چادر کے نیچے سے گزرنا اس کے لیے بہت مشکل ہے۔
او بھئی! تُو بہت بھولا ہے بچی بے چاری کو ضرور رولنا ہے ایسا کرو ایک پانی والی بوتل لو اور خود نیچے سے گزر جاؤ پانی مس ہوجائے گا۔ بچی کو پلا دینا اچھی بھلی ہو جائے گی۔اگر سائیوں نے چاہاتو۔
ہاں! یہ ٹھیک ہے۔ پر پانی کہاں سے ملے گا؟۔۔ او ہو۔ تیرے پانی لانے کے چکر میں یہ بارات نکل جائے گی اور پھر ایک سال کا انتظار کرنا پڑے گا۔ یہاں سامنے ایک کھوکھا ہے وہاں سے تیس روپے کی چھوٹی بوتل پانی کی ملے گی وہ لے آؤ جلدی سے بھاگ کر۔۔۔۔ جلوس جیسے جیسے دربار کی جانب بڑھے گا یہ رش بڑھتا جائے گا۔۔۔۔۔ دِتے نے کچھ لمحے کا تردد کیا پھر ایک بے جان پتلے کی مانند وہاں سے چل پڑا۔۔۔۔۔ کچھ ہی لمحوں بعد پانی کی ایک بوتل ہاتھ میں لیے وہ اس جگہ موجود تھا جہاں سے چلا تھا۔ چادر والا جلوس بھی سر پر پہنچ چکا تھا۔ڈھول اور نعروں کا شور ورائٹی شوز اور چڑیا گھروں پر لگے لاؤڈ اسپیکرسے آنے والی ٹِکٹاں لئی جاؤ۔۔۔۔۔ ٹِکٹاں لئی جاؤ۔۔۔۔۔ کی آوازوں سے کہیں زیادہ تھا۔۔۔۔۔ باقی چھوٹی موٹی آوازیں اس شورو غوغا میں دب کر بے جان اور بے اثر ہو گئی تھیں۔
دھوپ کی تمازت زوروں پر تھی دِتے کے زردی مائل سیاہ چہرے پر پسینے کے قطروں نے کیچڑ سا کر دیا تھا۔
جلوس کے قریب آتے ہی دِتے نے پیٹھ کو گردن سمیت جھکا لیا اور وہ موقع تاڑنے لگا کہ کہیں سے لوگوں کی کم تعداد دیکھ کر وہ نیچے سے گزر کر ایک عام پانی کو آبِ حیات میں تبدیل کرلے۔۔۔۔۔
ایک جگہ لوگوں کی چادر پر گرفت ڈھیلی دیکھ کر اس نے نیچے سے گزرنے کی کوشش کی مگر ایک بھاری بھر کم آدمی نے خود کو تھوڑا آگے سر کا کر اس کو پیچھے دھکیل پھینکا۔۔۔۔۔ اس نے نفرت آمیز لہجے میں اس کو دھتکارا کہ”بغیر نذرانے کے نیچے سے گزرنا چاہتے ہو کم بخت شخص“۔۔۔۔۔!!
دتے نے خود کو سنبھالتے ہوئے جیب کو ٹٹولنا شروع کیا اور پچاس کاایک بوسیدہ سا نوٹ مُٹھی میں دبا کر چادر میں پھینک دیا اور تیزی کے ساتھ چادر کے نیچے سے گزر گیا۔ دوسری طرف سے نکلتے ہی اس کے چہرے پر ایک فاتحا نہ مسکراہٹ تھی اس کو ایسا لگا جیسے اس نے اپنی بیٹی کی بیماری کے جن کو پچھاڑکر اس کے لیے تندرستی جیت لی ہو۔ وہ دوڑتا ہوا بیوی بچوں کے پاس آیا اور انہیں اس متبرک پانی کی افادیت بتا ئی۔ پانی کی بوتل کو شازیہ کے خشک ہونٹوں سے لگا یا اس نے ایک آدھ گھونٹ پیا اور ہاتھ سے بوتل کو پیچھے دھکیل دیا۔”کتنا اچھا ہو گیا۔۔۔۔۔ شا جو کے لیے پانی دم ہو گیا۔۔۔۔۔ اس کرموں والی چادر کے نیچے سے مقدروں والے گزرتے ہیں۔۔۔۔۔ سائیوں نے ہمت دی اور میں کتنی آسانی سے نیچے سے گزر گیا۔ سائیوں نے چاہا تو میری شاجو بہت جلد چنگی بھلی ہوجائے گی“۔۔۔۔۔ اب ایسا کرتے ہیں دربار پر چلتے ہیں اسے سائیں سکھے شاہ سرکار کے قدموں میں گراتے ہیں اور اُں سے رو رو کر اس کے لیے شفا مانگتے ہیں۔ مجھے یہاں کے لوگوں سے مل کر لگا ہے یہ بہت کرموں والا آستانہ ہے ایویں ہی نہیں اتنی مخلوق یہاں پر آرہی۔۔۔۔۔ یہاں لوگوں کی مرادیں پوری ہور ہی ہیں تو ہی لوگ دور دور سے آ کر جھک رہے ہیں یہاں۔۔۔۔۔ دیکھو بہانہ ہی بنتا ہے۔ وہ بھلی عورت ہمیں نہ ملتی تو ہم کیسے آتے اور پھر بس کا نکل جانا بھی سائیوں کی طرف سے تھا۔۔۔۔۔ سائیوں نے کھچ کی ہے تبھی ہم اِدھر آئے ہیں۔۔۔۔۔ دیکھو اس سے بڑھ کر اور ان کا کیا کرم ہو سکتا ہے کہ آج چادر والا جلوس نکلنا تھا۔ہم دیر سے آتے یا پھر کسی دن آتے تو کرموں والی گھڑی پھر ہاتھ کبھی نہ آتی۔ دِتے کے لہجے میں یقین اور اُمید کی پختگی تھی۔۔۔۔۔ اس نے بات ختم کرتے ہی شازیہ کوکندھوں سے لگایا اور دربار کی جانب چل نکلا۔

دربار کے مر کزی گیٹ سے تھورے فاصلے پر کچھ لوگوں نے بانسوں کو جوڑ کر ایک رکاوٹ کھڑی کر رکھی تھی۔ قریب ہی ایک دیوار پر ایک بورڈ لٹک رہا تھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا۔برائے مہربانی اپنے جوتے یہاں جمع کر وا کر آگے جائیں۔ دِتے اور بچوں نے نیم خواندگی کی وجہ سے بورڈ کو نظر انداز کیا اور جوتوں سمیت دربار کے مر کزی دروازے کی جانب جانے لگے۔۔۔۔۔ اسی اثنا میں سامنے کھڑے سیاہ رنگت اورپیلی آنکھوں والے ایک ادھیڑ عمر شخص نے ان کو اندر جانے سے روک لیا۔۔۔۔۔ ”نظر نہیں آتا تم کو؟تمام لوگ اپنے جوتے اِدھر اتار کر جمع کر وارہے ہیں اور تم اندھوں اور ڈھیٹوں کی طرح آگے بڑھ رہے ہو اس کے لہجے میں نفرت اور غصے کی کاٹ تھی۔۔۔۔۔
معاف کرنا بھائی ہمیں پتہ نہیں چلا۔“
دِتے نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا اور اپنا نائیلون کا ٹانکوں سے اَٹا جوتا اتارنے لگا اور ساتھ بیوی بچوں کو بھی جوتے اتارنے کی تلقین کی۔ سب نے جوتے اتارے اور اسٹینڈ پر پڑی ایک میلی کچیلی پلاسٹک کی ٹوکری میں رکھ دیے۔ اس آد می نے ٹوکری میں 36نمبر کا ایک ٹوکن رکھا اور اسی طرح کا ایک اور کارڈ دِتے کو تھما دیا۔دِتے نے اسے جیب میں ڈال لیا اور آگے کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔۔۔
”اچھا سُنو! پیسے ابھی دو گے کہ واپسی پر؟
کیسے پیسے بھائی؟ دِتے نے استفسار کیا۔“
”او ئے اللہ کے بندے!جوتوں کے پیسے جو تم نے اِدھر جمع کروائے ہیں۔“
”بھائی پیسوں کی بات تھی تو ہمیں بتا دیتے ہم جوتے جمع نہ کرواتے تم نے زبردستی اتروائے ہیں۔ ہم نے سمجھا دربار والے جمع کر رہے ہیں۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ تم جوتے ہمیں واپس کر دو۔۔۔۔۔ہم باری باری سلام کر لیں گے“۔۔۔۔۔
”یار تم ضرورت سے زیادہ بیوقوف ہو۔۔۔۔۔ اب تمہیں کیا سمجھاؤں کہ لاکھوں روپے کا ٹھیکہ ہے جوتوں کا۔۔۔۔۔ دس دس روپے تم لوگوں سے لے کر بڑی مشکل سے پیسے پورے کرتے ہیں۔ اب ٹوکن لگ گیا ہے میں نے مالکوں کو حساب دینا ہوتا ہے۔ چلو چالیس روپے نکا لو جلدی سے۔۔۔۔۔“ اس نے دھمکا نے والے انداز میں کہا۔۔۔۔۔
بھئی میں غریب مزدور آدمی ہوں۔۔۔۔۔ میرے پاس نہیں ہیں پیسے۔آپ ہمارے جوتے واپس کر دو۔
اب واپس نہیں ہو سکتے جوتے۔۔۔۔۔ پتہ نہیں جاہِل گنوار کہاں کہاں سے چل کر آجاتے ہیں درباروں پر۔۔۔۔۔
اس نے دِتے کے بازو سے پکڑا اور اِدھر زرینہ بول پڑی”دے دو چالیس روپے اِسے کیوں اتنے سے پیسوں کے لیے جگہ جگہ اپنی بے عزتی کرواتے پھرتے ہو“۔۔۔۔۔دِتے نے نہ چاہتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب کو ٹتولتے ہوئے دو دس دس اور ایک بیس کا نوٹ نکال کر اس کو تھما دیا اور حسرت ویاس کی تصویر بنا بچی کو کندھے سے لگا کر مر کزی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ دروازے سے گزر کر مرکزی صحن میں آیا جہاں ہزاوں کی تعداد میں لوگ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کہیں نعرے گونج رہے تھے اور کہیں سے ڈھول کی مدھم مدھم سی آوازیں آرہی تھیں۔ کہیں پر لوگ لنگر تقسیم کر رہے تھے تو کہیں پر میٹھے مکھانوں کو فضا میں اچھال کر اس کی بارش کر رہے تھے۔ دِتا اور باقی گھر والے ہجوم کے بیچوں و بیچ میں سے رستہ بناتے مزار کی جانب بڑھنے لگے۔۔۔۔۔ روضے کے باہر سیڑھیوں کے آٹھ دس زینے تھے۔ اس کے پاس دو افراد ہار مونیم اور طبلہ ٹانگوں میں دبائے قوالی گا رہے تھے۔۔۔۔۔ دِتا اُن کے قریب سے گزرا تو انہوں نے قوالی کی ریاضت تھوڑی تیز کر دی۔۔۔۔۔ قوالی کے بول کچھ یوں تھے۔
”سارے ولیاں دا سردار
ایہہ سُکھے دا دربار
ایہدا خالی نہ جاندا وار
شفا پاوے ہر بیمار
جیوے سائیں سُکھے شاہ لجپال“
زرینہ نے دِتے کو کہنی ماری اور جیب سے پیسے نکالنے کا اشارہ کیا۔ دِتے نے نیم دِلی کا مظاہرہ کیا تو زرینہ نے ترش لہجے میں اس سے کہا ”یہ درباروں کے منظورِ نظر ہوتے ہیں ان کو نذرانہ دینا ضروری ہوتا ہے پیسے نہ دیں تو بد دعا دیتے ہیں“۔ دِتے نے ہونٹ بھینچتے ہوئے دس دس روپے کے دو نوٹ نکالے اورقوالی کرنیوالے دونوں اشخاص کو تھما دیے۔ انہوں نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا اور قوالی میں مصروف ہوگئے۔۔۔۔۔ وہ لوگ سیڑھیاں چڑھ کر روضے کی جانب بڑھ گئے۔ روضے کے دونوں اطراف پھولوں اور چاروں قل سے مزین چادریں،تسبیحیں، مکھانوں کے پیکٹ ترتیب سے جڑے ہوئے تھے۔ روضے کا دروازہ تاریخی نوعیت کا تھا جس پر کسی ماہر کاریگر کے ہاتھ سے ہوئی چوب کاری قابلِ دید تھی۔اس نے دروازے کی جانب قدم بڑھایا ہی تھاکہ پیچھے سے ایک شخص بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھا اور دوپھولوں کے ہار اس کے ہاتھ میں تھما دیے اور ایک چار قل والی چادر اس کے کندھے پر ڈال دی۔ یہ سارا عمل اتنی تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہوا کہ اللہ دتہ اس پر کوئی ردِ عمل نہیں دے سکا۔ اس نے ایک بار نظر اُٹھا کر اوپر دیکھا اور دربار کی طرف چل پڑا۔
وہ مزارکے اندر آیا تو عقیدت مندوں کا تانتا بندھا ہوا تھا ایک بڑی سی قبر کے اوپر سرخ رنگ کی مخمل کی چادر اور اس کے اوپر گلاب کے پھولوں کی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔ مزار کے ارد گرد شیشم کی لکڑی کی ایک باڑ لگی ہوئی تھی باڑ کو کسی ماہر کاریگر نے پالش کیا تھا، گنبد کے بیچوں و بیچ ایک بڑی سی زنجیر کے ساتھ رنگ برنگے برقی قمقموں سے مزین ایک بڑا سا فانوس لٹک رہا تھا۔ مزار کے گرد کچھ لوگ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ کچھ عقیدت مند قبر کے سامنے سجدہ ریز تھے۔ کچھ لوگ گڑ گڑا کر اپنی آرزوئیں سائیں سُکھے شاہ کے سامنے پیش کر رہے تھے۔ دِتے نے پیر سائیں کی قبر کے پاؤں والے حصے کے ساتھ ننھی شازیہ کو لٹا کر قبر کی چادر ہاتھوں میں تھا م کر گڑ گڑا نا شروع کر دیا۔
”پیر سائیں۔۔۔۔۔ میری دھی نوں بچا لو۔۔۔۔۔ ایہہ تیرے حوالے اے۔۔۔۔۔ میں بڑا غریب تے ماڑا ہاں۔۔۔۔۔ میری اس ماڑی تے نیمانی دھی نوں شفا دے دیو۔۔۔۔۔ میری جھولی اچ خیر پا دیو۔۔۔۔۔ سوہنا سُکھے شاہ ولی توں بڑا لجپال ایں“۔۔۔۔۔ دِتے کی بیوی دعا سے فراغت کے بعد قبر کے اطراف میں پڑے لکڑی کے رنگین برج اُٹھا کر ننھی شازیہ کے کپڑوں پر پھیرنے لگی۔ اس چھوٹے سے برج کو کئی بار بچی کے جسم کے ساتھ سر سے لیکر پاؤں تک پھیرا گیا۔ اس عورت کو یقین تھا جیسے سُکھے شاہ کی قبر پر پڑا یہ لکڑی کابرج اتنا ہی طاقتور اور متبرک ہے جتنا کہ خود سُکھے شاہ۔ منتوں مُرادوں کے طویل سلسلے کے بعد وہ لوگ مزار کے اندرونی حصے سے اُٹھ کر مزار کے مرکزی دروازے کی جانب بڑھنے لگے۔ دروازے کے قریب پہنچنے پر وہاں کھڑے ایک شخص جس نے سر پر سبز رنگ کی ٹوپی اور گلے میں لال رنگ کی چادر لٹکا رکھی تھی۔ ایک بڑے سے گلّے کو ہاتھ میں تھامی لکڑی کی چھڑی سے پیٹنا شروع کر دیا۔
”گلے میں پیسے ڈالتے جائیں جی۔۔۔۔۔
دربار شریف کی خدمت کرتے جائیں جی“۔۔۔۔۔
من کی مرادیں پوری ہوں گی۔
اللہ دتے اور اس کے گھر والوں نے وہاں سے گزرنا چاہا مگر اس نے چھڑی کو اور شدت سے گلّے پر مارنا شروع کر دیا۔ اور تھوڑے در شت لہجے میں صدا بلند کی۔۔۔۔۔ ”دربار کی خدمت کر کے جائیں جی!“
دِتے نے چا رونا چار جیب میں ہاتھ ڈالے اور بیس روپے کا ایک نوٹ تہہ کر کے گلّے میں ڈال دیا۔ گلّے کے ساتھ پڑی ایک بوسیدہ سی میز پر نمک کی چھوٹی چھوٹی پڑیاں اور سرسوں کے تیل کی چھوٹی چھوٹی شیشیاں پڑی تھیں۔ کیا ہوا بچی کو؟ اس آدمی نے کندھے کے ساتھ لگی شازیہ کی جانب اشارہ کیا؟ تاپ چڑھاہے جی اسے۔۔۔۔۔ کالی کھانسی بھی ہے۔۔۔۔۔کبھی کبھی خون بھی آتا ہے کھانستے ہوئے۔۔۔۔۔
”او ہو! سائیں چنگی کرے گا۔۔۔۔۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ایسے کئی مریض یہاں سے بھلے چنگے ہو کر گئے ہیں۔ تین کام کرنے ہیں تم نے اس کے بعد بچی خودپاؤں پر چل کر نہ آئے تو پھر کہنا“
یہ لو نمک کی دو پڑیاں اور ایک تیل کی شیشی۔۔۔۔۔ یہ مزار سے مسّ شدہ ہے پیر سائیں کی خاص دعا ہے اِن تبرکات کو۔۔۔۔۔ تیل کو جسم اور سر پر لگانا ہے اور نمک تھوڑا تھوڑا کر کے کسی بھی کھانے والی چیز میں شامل کر کے بچی کو کھلانا ہے۔۔۔۔۔
”بڑی مہربانی بھائی اللہ تمہارا بھلا کر ے۔“
دِتے نے تیل کی شیشی اور نمک کی پڑیاں ہاتھ میں تھام کر التجائیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
مہربانی کی کوئی بات نہیں بھئی۔اس آدمی نے جواب دیا۔
”اچھا دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ یہاں ایک بیری ہے وہ سُکھے شاہ اول نے اپنے ہاتھوں سے لگائی تھی۔ اس کے بیروں میں شفا ہے! اس کے نیچے بیٹھنا ہے۔ جھولی میں بیر گر گیا تو سمجھو سائیں نے کرم کر دیا ہے۔ اور تیسرا کام یہ کہ دربار شریف کے بڑے گیٹ کے بائیں طرف سیڑھیوں سے نیچے اُتر کر ایک کچا کمرہ ہے مٹی کی اینٹوں سے بنا ہوا ہے اس میں جائے نماز اور ایک صف بھی پڑی ہے ایک تو وہاں دو نوافل ادا کرنے ہیں دوسرا بچی کو چلہ گاہ کے اوپر لٹانا ہے“۔۔۔۔۔ وہاں سے نکلتے ہی آپ بچی میں بہت بڑا فرق دیکھیں گے۔
بڑی مہربائی بھئی!۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ کے وسیلے سے میری بچی ٹھیک ہوجائے۔ سائیں آپ کا بھلا کرے دِتے نے باہر نکلتے ہوئے دعا دی۔۔۔۔۔
مہربانی کی کوئی بات نہیں بھائی۔۔۔۔۔”بس نمک او ر تیل کے پیسے دے دو تمہاری مہربانی ہو گی“۔ پیسے۔۔۔۔۔ جی پیسے؟دِتاّ پیسوں کے تقاضے پر بھونچکا سا رہ گیا۔۔۔۔۔۔ چیزیں بازار سے خرید کر یہاں رکھی ہیں بھئی! اسی کی قیمت لے رہا ہوں۔ لوگوں کو یہ تین چیزیں 100روپے میں دیتا ہوں تم ماڑے لگ رہے ہو۔50روپے دے دو۔ صرف چیزوں کی قیمت ہے، ورنہ تبرک کی قیمت ہم میں سے کون ادا کر سکتا ہے۔
”بھئی غریب آدمی ہوں پیسے تو نہیں ہیں۔ میرے پاس۔۔۔۔۔ تم چیزیں واپس لے لو“۔۔۔۔۔
دِتے نے نمک اور تیل کی شیشی اس کی طرف بڑھا دی۔

”اب واپس نہیں ہوگا“۔۔۔۔۔ ”بہت بد بخت شخص ہو“۔۔۔۔”بیٹی کی بیماری کو پیسے کے ترازو میں تولتے پھرتے ہو“۔۔۔۔۔
پچاس روپے خرچ کر کے بچی ٹھیک ہو جائے تو اور کیا چاہیے تجھے۔۔۔۔۔ ہسپتالوں میں ہزاروں خرچ ہوں گے بوتلوں ٹیکوں کی سوئیوں سے بچی کو تکلیف دو گے تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔۔!! ”لے لو نمک اور تیل کی شیشی کیوں ضد کر رہے ہو ایسی چیزیں واپس نہیں موڑتے سائیں ناراض ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اللہ نے اس میں ہماری بچی کی زندگی رکھی ہو۔۔۔زرینہ نے دِتے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔“
دِتے نے بوجھل دِل کے ساتھ جیب سے پچاس کا پان کے دھبے والا ایک نوٹ نکال کر اس آدمی کو تھما دیا اور باہر صحن کی جانب چل دیا۔ ابھی وہ لوگ صحن میں پہنچے ہی تھے کہ پیچھے سے ایک شخص نے دِتے کا کندھا تھپتھپا یا۔پھولوں اور چادر کے پیسے تو دے دو۔پیسوں کے تقاضے سے دِتے کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا اور وہ بڑی مشکل سے بول پایا۔ بھئی یہ سامان آپ نے زبردستی میرے ہاتھ میں پکڑا یا تھا۔زیادہ ہوشیار مت بنو۔ اگرسامان نہیں چاہیے تھا تو مجھے واپس کر دیتے۔ نکا لو ڈیرھ سو روپے۔ دِتے کو کچھ کچھ سمجھ آگئی تھی کہ یہاں پیسے کے بغیر کوئی چیز بھی مفت میں نہیں ملتی اور ان لوگوں سے بحث فضول ہے۔ اس نے سوکانوٹ نکالا اورہاتھ جوڑ کر اس کو تھما دیا۔اب اِن لوگوں کو شفا والی بیری کی تلاش تھی۔ ایک جگہ دربار سے ملحقہ برآمدوں میں سے ایک برآمدے میں کچھ لوگوں کا ہجوم سا لگا تھا۔ دِتے نے بچی کو کندھے کے ساتھ لگائے اس ہجوم کے پاس کھڑے ایک شخص سے استفسار کیا۔
”بھائی یہاں کوئی بیری ہے جس کے بیروں میں شفا ہے۔مجھے وہاں جانا ہے۔“
جگہ کا تو مجھے پتہ ہے پر مگر وہاں خیریت سے جانا چاہتے ہو؟
”میری بچی بیمار ہے۔۔۔۔۔ سُنا ہے اس بیری کے بیروں میں بڑی شفا ہے۔۔۔۔۔ بیمار بھلے چنگے ہوجاتے ہیں۔“
بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ وہاں بھی ضرور جانا۔۔۔۔۔ بہت کرموں والی بیری ہے۔۔۔۔۔ میں نے بہت ساروں کی جھولیاں بھرتے ہوئے دیکھا ہے وہاں سے!!۔۔۔۔۔
”یہاں سے تھوڑے سے فاصلے پر لنگر خانے کے قریب پرانی مسجد کے پاس بیری ہے وہاں اس کے نیچے کچھ دیر بیٹھنا۔۔۔۔۔ کوئی نہ کوئی بیر گرے گا وہی بچی کو کھلا دینا اللہ ضرور مُراد پوری کرے گا۔اور ہاں تم نے بابا جی سے تعویذ لیا ہے بچی کے لیے۔؟“
نہیں لیا۔۔۔۔۔ بابا جی کون ہیں؟“ دِتے نے اس سے پوچھا۔ ”بابا جی شاہ صاحب کے خاص خلیفہ ہیں انہیں سُکھے شاہ دوم کی خاص دعا ہے“۔۔۔۔۔”اِن کی دعا اور تعویز میں سائیوں نے خاص کرم رکھا ہے۔“
دیکھو! ”سائیوں نے تمہیں خود خلیفہ جی کے پاس بھیج دیا ہے۔ تھوڑا رش گھٹتا ہے تو بچی کو دکھا کر ایک تو دعا لے لو، دوسرا تعویز لے لو۔۔۔۔۔سائیوں نے چاہا تو بچی بھلی چنگی ہو جائے گی۔“
دِتے کی آنکھ میں ممنونیت کی چمک جاگی اور اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے اس آدمی کا شکر یہ ادا کیا۔
دو تین عورتوں اور ایک آدمی کے بعد ایک نیم بے ہوش شخص کو خلیفہ جی کے سامنے پیش کیا گیا۔ خلیفہ نے دبنگ لہجے میں اس سے دو تین سوال کیے اور پھر اپنے پاس پڑی لاٹھی نما چھڑی سے اس کو زور سے پیٹناشروع کر دیا۔ چھڑی کی ہر ایک ضرب کے بعد اس نیم مردہ شخص کی آوازیں اور آہ و بکا آسمان کو چھو رہی تھیں۔
”گستاخ بد تمیز بتاؤ چھوڑتے ہو یا نہیں اسے۔۔۔۔۔ تم نے ہمارے مرید میں گھُسنے کی جرأت کیسے کی“
”خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔ مجھے مت مارو۔۔۔۔۔ اوئے مجھے نہ مارو“
مسلسل پٹنے کے بعد وہ آدمی بے ہوش ہو گیا۔ خلیفہ نے جلالی انداز میں اشارہ کیا اسے لے جاؤ۔۔۔۔۔ اُس منحوس روح نے چھوڑ دیا ہے اِسے اب بھلا چنگا ہو جائے گا۔
خلیفہ ساٹھ پینسٹھ کاایک چوڑا چکلاّآدمی تھا۔ داڑھی اور سر کے بالوں کا رنگ مہندی کے رنگ کی وجہ سے لال تھا۔۔۔۔۔ سفید رنگ کا بڑی بڑی جیبوں والا کرتا اور سر پر سبز رنگ کی پگڑی زیب تن کر رکھی تھی۔ دِتے نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے ننھی شازیہ کو اُن کے قدموں میں ڈال دیا۔
”انہوں نے اپنی لال سرخ آنکھیں دِتے کے چہرے پر گاڑھ دیں اور کہا کچھ بتانے کی ضرورت نہیں مجھے سب پتہ ہے۔ اس کے بعد انہوں نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھا اور شازیہ پر پھونک دیا۔ انہوں نے ایک دو بار اس کے بالوں کو سہلایا اور پاس بیٹھے ایک چیلے سے ڈبے میں پڑے تعویزوں کا تقاضا کیا۔
چیلے نے کاغذ کے دو چھوٹے چھوٹے ٹکرے جن پر کالے رنگ کے مار کر کے ساتھ آڑھی ترچھی لائنیں لگی تھیں خلیفہ صاحب کو تھمادیے۔ اور کہا ایک کو چمڑے میں سلوا کر اس کے گلے میں ڈالنا ہے اور دوسرا پانی میں بھگو کر پلاناسائیوں کا کرم ہوجائے گا۔

دِتے نے ان کے ہاتھ چومے اور عقیدتاً قدموں کو چھوا اور اٹھنے لگا مگر پاس بیٹھے چیلے نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کی جیب کی جانب اشارہ کیا۔ دِتے نے اپنی سادہ لوحی کی بدولت اشارے کو نہ سمجھا تو چیلے نے اپنی دولائی جس کے اوپر وہ بیٹھا تھا ایک کونا اوپر کو اُٹھا دیا۔ٹاٹ کے نیچے رنگ برنگے نوٹوں کا ڈھیر لگا تھا۔ اس کا واضح اشارہ نذرانے کی طرف تھا۔ دِتا اس کے اس عمل سے بھانپ گیا کہ یہاں بھی پیسے دیے بغیر جان نہیں چھوٹنے والی۔۔۔۔۔ دِتے نے کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ جیب کو ٹٹولا اور وہاں سے ایک دس اور ایک بیس روپے والا نوٹ نکال کر چیلے کو تھما دیا۔
اس دھان پان سے لڑکے نے سر پر پلاسٹک کی سفید رنگ کی جالی والی ٹوپی اوڑھ رکھی تھی پیسے پکڑ کر دولائی کے نیچے رکھ لیے۔
وہاں سے فراغت کے بعد دِتا بیری کی تلاش میں لنگر خانے تک آیا جہاں پر لوگوں کا ایک اژدہا م سا لگا تھا۔ لوگ لنگر کی دال کے لیے ایک دوسرے کے اوپر گر رہے تھے۔ دِتے نے وہاں پر رکنا مناسب نہ سمجھا اور پرانی مسجد کی طرف بڑھ گیا۔
پرانی مسجد کے چھوٹے سے صحن میں کاٹھیا بیروں والی ایک پرانی سی بیری تھی، جس کے تنے کے ساتھ رنگ برنگے دھاگوں کے تنے کے ساتھ کئی چھوٹے چھوٹے تالے لٹکے ہوئے تھے۔ تیس چالیس کے قریب مرد اور عورتیں بیری کے نیچے جھولی پھیلائے بیٹھے ہوئے تھے۔ دِتا بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ بیری کے نیچے جھولی پھیلا کر بیٹھ گیا۔اس دِن موسم خشک اور گرم تھا ہوا کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔ بیری کا پتا تک نہیں ہل رہاتھا۔ دِتا اور اس کے گھر والے لگ بھگ آدھا گھنٹہ بیری کے نیچے بیٹھے رہے مگر اوپر سے کچھ بھی نہ گرا۔ اس پریشان حال خاندان کو اضطراب میں دیکھ کرایک دھان پان سا بوسیدہ لباس میں ملبوس شخص ان کے قریب آیا اور دِتے کے کندھے پر ہاتھ رکھنے کے بعد کہا۔”بھائی اپنے ساتھ کوئی بوریا بسترلے کر آئے ہو یہاں“؟
نہیں۔۔۔۔۔ ”پر ریڑھی کے اوپر ایک دولائی پڑی ہے مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟“
”میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ اگر گھر کو واپس لوٹنے کا ارادہ رکھتے ہو تو آج یہ بیر والی تیری مُراد پوری نہیں ہوگی۔ موسم خشک ہے اس لیے دو تین دِن بیر کے نیچے گرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔“
”تو پھر ہم کیا کریں بھائی؟”ہم تو بہت پریشان ہیں ہماری بچی بیمار ہے۔۔۔۔۔ بہت دور سے آئے ہیں۔ دو ر سے آئے ہو“۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔ چلو آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔۔دِتے نے شازیہ کو اس کی ماں کی گود میں ڈالا اور دھان پان سے آدمی کے ساتھ چل پڑا۔تھوڑا سا چلنے کے بعداسے ایک لمبوترے سے اسٹور نما کمرے میں لے گیا۔ جس میں تین چار پرانے بانس لکڑی کے سیمنٹ زدہ پھٹےّ اور ایک بوسیدہ سا پلاسٹک کا پائپ پڑا تھا۔
بھائی بیر ابھی مکمل پکے نہیں ہیں اور لوگ موسم شروع ہونے سے پہلے ہی یہاں ڈیرہ جما کر بیٹھے ہیں۔“
اس موسم میں اتنی ہوا بھی نہیں چلتی کہ اس سے بیر ٹوٹ کر ان کی جھولی میں آگر یں۔ ہاں البتہ رات کے وقت کبھی کبھار اچھی ہوا چلتی ہے۔میں اسی بیری والے صحن میں سوتا ہوں۔ ہوا چلنے کے بعد جو بیر گرتے ہیں میں اپنی نیند داؤ پر لگا کرا نہیں اٹھا لیتا ہوں اور سائیوں کے کرم سے دُکھی لوگوں کی خد مت کرتا ہوں انہی باتوں کے دوران اس نے ایک بوسیدہ سی چارپائی پر پڑی دو لائی کے نیچے میں سے بیروں سے بھرا ایک شاپر نکالا اور اس میں سے چند پکے بیر چُن کر دِتے کو تھما دیے۔
بیروں کو دیکھتے ہی دِتے کی باچھیں کھل گئیں۔ اور ممونیت کی خفیف سی لہر اس کے سیاہی مائل زرد چہرے پر آکر ٹھہر گئی۔
”مجھے سمجھ نہیں آتا میں کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کروں بھائی۔ آپ نہ ملتے تو سارا دِن بیٹھے رہتے بیری کے نیچے۔“
”شکریہ کی کوئی بات نہیں بھائی!یہ تو سائیوں نے میری ڈیوٹی لگائی ہے اسی لیے تو خدمت کرتا ہوں سب کی۔ اچھا میں تو بھول ہی گیا بچی کو بیر کھلانے کے ساتھ ساتھ یہ جندری بھی بیری کیساتھ لگے جنگلے کو ضرور لگانا۔ اس سے بچی پر جو نحوست موجود ہے وہ اسی جنگلے کے ساتھ ہی قید ہوجائے گی۔ اور اس کی چابیاں پرانے کنوئیں میں پھینکنی ہیں، بہت متبرک اور شفا والا پانی ہے اس کا۔ سُکھے شاہ اوّل کے والد سائیں مبارک شاہ نے اپنے ہاتھوں سے وہ کنواں تعمیر کروایا تھا۔ کہا جاتا ہے انہوں نے کسّی کا ایک ہی وار کیا تھازمین خود بہ خود پھٹتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی نظروں کے سامنے پاک اورصاف پانی کا ایک کنواں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
سبحان اللہ! یہ تو بڑے کرموں والا کنواں ہے۔ ہم ادھر بھی جائیں گے اپنی بچی کو لیکر وہ کہاں ہے میرے بھائی؟ دِتے نے دھیمے لہجے میں استفسار کیا۔”یہاں دربار کے احاطے سے نکل کر پرانے قبرستان کے پاس ایک کھجور کا درخت ہے وہاں یہ کنواں موجود ہے۔ وہاں سے پانی کا ایک پیپا بھر کر اس بچی کو نہلا دینا ساری سختیاں دور ہوجائیں گی۔ سائیوں کے کرم سے۔“
بڑی مہربانی بھئی! سائیں تمہارا بھلا کرے۔
مہربانی کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔ بس 80روپے دے دیں مجھے خدمت کا اجر مل جائے گا۔
پیسوں کا تقاضا سن کر دِتے کا دِل بیٹھ سا گیا اور تھوڑی دیر پہلے چہرے پر ناچنے والی چمک افسر دگی کی نحوست میں تبدیل ہو گئی۔
”غریب آدمی ہوں بھئی۔۔۔۔۔ اگر یہ سب کچھ پیسوں سے خریدنا تھا تو مجھے پہلے بتا یا ہوتا۔۔۔۔۔“
عجیب بے وقوف آد می ہو یار۔۔۔۔۔ بھلا خود سوچو آج کل کے دور میں پیسوں کے بغیر کچھ ممکن ہے۔۔۔۔۔ کوئی اپنا گنا ہ مفت میں نہیں دیتا اور تم اتنی خاص اور متبرک چیزوں کو پیسوں کے بغیر حاصل کرنا چاہتے ہو؟۔۔۔۔۔
یہ سب سننے کے بعد دِتے نے التجائیہ نظروں کے ساتھ زرینہ کی طرف دیکھا مگر اس نے نظریں چُرالیں دِتا سمجھ گیا کہ وہ یہ ہی چاہتی ہے کہ بچی کی صحت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ دِتے نے ڈوبتے دِل کے ساتھ جیب کو ٹٹولا اور سو کا نوٹ نکا ل کر اس آدمی کو تھما دیا۔ نوٹ کو دیکھتے ہی ایک فاتحانہ سی مسکراہٹ اس آدمی کے چہرے پر پھیلی اورجھٹ سے غائب ہوگئی۔ اس نے اپنی اوپر والی جیب سے بیس روپے کا نوٹ نکال کر دِتے کو تھما دیا۔ اور دروازہ بند کرنے کی غرض سے باہر نکل آیا۔ سب اب وہ پرانے قبرستان کے پاس کھجور کے درخت کے نیچے موجود سُکھے شاہ کے والد کے کنویں پر آن پہنچے تھے۔ کنویں کے پاس بھی لوگوں کا خاصا ہجوم تھا۔ کنویں کے ارد گرد باڑ لگی ہوئی تھی۔ اور اس کو اوپر سے لو ہے کی مضبوط جالی سے بنے جنگلے سے ڈھانپا گیا تھا۔ درمیان میں ایک رہٹ نصب تھا۔ جس کو ایک تگڑاسا بیل چلا رہا تھا۔ پانی کنویں سے نکل کر پکی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنے ایک تالاب میں آرہا تھا اور اس تالاب پر ایک موٹا تازہ آدمی جس نے اپنے سرکو جو گیا رنگ کے ایک صافے سے ڈھانپ رکھا تھا ایک بڑے سے منجے پرآلتی پالتی مار کربیٹھا تھا۔ چارپائی کے ساتھ ہی ترتیب سے قطار میں پڑے گھی کے خالی کنستر پانی سے لباب بھرے پڑے تھے۔ لوگ قطار میں لگ کر اس آد می کو 50روپے ایک پیپے کے ادا کر کے پیپا اُٹھا تے اور یکا یک اپنے یا اپنے ساتھ آئے مریض کے اوپر انڈیل دیتے اور ”سُکھے شاہ سائیں لعل قلندر“ کا نعرہ بلند کرتے اور گیلے جسم کے ساتھ وہاں سے باہر آجاتے۔
تالاب کے ارد گرد بانسوں کی ایک باڑ نصب تھی اس لیے لوگ وہاں سے پانی خرید کر پیپا کندھوں پر اٹھاتے اور پاس ہی گندم کے کھیت کے درمیان سے گزرتی ایک پگڈنڈی پر کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نہا لیتے۔
دِتے نے کنویں کے پچھواڑے شیشم کے ایک درخت کے نیچے کپڑا بچھا کر شازیہ کر سُلا دیا اور خود ہاتھ میں جندری کی چابیاں تھامے کنویں کے قریب پہنچ گیا۔ وہ لوگوں کو پیچھے دھکیلتا رہٹ کے پاس کھڑا ہو کر کنویں کے حلقے میں جھانکنے لگا تو پیچھے ایک مضبوط ہاتھ نے کمر سے پکڑ کر اسے پیچھے دھکیل دیا۔ بڑی بڑی مونچھوں والا وہی تگڑا آدمی جو کہ تھوڑی دیر پہلے چارپائی پر بیٹھا تھا اب دِتے کے سامنے کھڑا تھا۔
کیا کر رہے ہو اِدھر۔۔۔۔۔ بیل کے نیچے آکر مرنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ کیوں جھانک رہے ہو کنویں میں؟ اس کے لہجے میں غصہ اور رعونت تھی؟

یہ چ چ۔۔۔۔۔ چابیاں پھینکنی تھیں جی اس میں۔۔۔۔۔ دِتے نے مر عوب ہو کر کانپتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ ”مجھے دو چابیاں“۔۔۔۔۔”عقل ہی نہیں ہے تم لوگوں میں۔۔۔۔۔ بندہ کسی سے پوچھ ہی لیتا ہے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں جاہل کہیں کے۔“اس نے چھیننے والے انداز میں چابیاں دِتے سے لیں اور اسے پیچھے دھکیل دیا۔ دِتے سے چابیاں لے کر اس نے ایک بڑے سے ڈبے میں پھینک دیں جہاں پہلے ہی چھوٹی بڑی چابیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔۔۔۔۔
دِتا کچھ دیر یہ منظر دیکھتا رہا دِتے کو سمجھ آگئی تھی کہ یہاں بھی پیسے دیے بغیر جان نہیں چھوٹے گی۔ اور وہ بھی پورے پچاس روپے۔۔ وہ بوجھل قدموں سے پیچھے ہٹا اور بیوی سے کہا۔
”50روپے کا ایک پیپا دے رہے ہیں پانی کا۔۔۔۔۔ یہاں مفت کچھ بھی نہیں ہے جندری کی چابیاں بھی اس نے کنویں میں نہیں پھینکنے دیں۔ سب مل کر لوٹ رہے ہیں لوگوں کو۔۔۔۔۔ کوئی خیال نہیں ہے کہ کوئی کتنا غریب ہے اور وہ پیسے اس نے کہاں سے اور کیسے کمائے ہیں۔“ میرا تو ایمان اُٹھ گیا ہے اِن سب چیزوں سے۔۔۔۔۔ دِتے کی آواز بھرا ئی ہوئی،لہجے میں بے بسی اور شکایت تھی۔ وہ اندر ہی اندر خود کو کوس رہا تھا کہ وہ یہاں کیوں آیا۔ اُسے سر پر چڑھے500روپے اور اس کو چکانے میں منشی کی نوکری اور اس کی گالیوں کا سارا منظرآنکھوں کے سامنے ناچتا ہوا نظر آیا۔
”ایسی باتیں مت کر دِتے۔۔۔۔۔ سائیں بُرا مان جاتے ہیں۔۔۔۔۔ جہاں اتنا کچھ کر لیا ہے وہاں یہ بھی سہی۔ اتنی دور سے روز روز تھوڑی آیا جاتا ہے۔ تم اپنی طرف مت دیکھ بلکہ ان لوگوں کو دیکھو جو ہزاروں کے حساب سے یہاں آکر جھک رہے ہیں۔ وہ کملے تھوڑی ہیں۔ کچھ یہاں سے لیکر جاتے ہیں تو ہی تو آتے ہیں ادھر۔۔۔۔۔ پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے میں خود بھٹے پر جا کر تیرے ساتھ مجدوری کروں گی۔ ہماری بچی ٹھیک ہوجائے بس اس سے چنگا کچھ بھی نہیں ہے۔جاؤ لے آؤ پانی کا پیپا اس کو نہلاتے ہیں سائیں شفا دیں گے۔“
دِتا کچھ ہی دیر میں پانی کے ایک ٹین کے ساتھ وہاں پر موجود تھا اس نے پانی کندھے پر اٹھا رکھا تھا پیپے کے پیندے سے پانی چھلکنے کی وجہ سے اس کے کپڑے خاصے گیلے ہو گئے تھے۔ زرینہ نے شازیہ کو کندھوں سے تھام کر بٹھا دیا اور دِتا گلاس بھر بھر کر اس کے اوپر پانی ڈالتا رہا۔۔۔۔۔ سر اور ماتھے سے ٹپکنے والا پانی جب اس کے ہونٹوں کے پاس پہنچا تو اس نے ہونٹوں کو ہلکی سی جنبش کے ساتھ سکیڑا اور پانی کے چند قطروں کو حلق میں اتار لیا۔ گرمی کے اس سخت موسم میں ٹھنڈے پانی سے نہا نا اس کے لیے کافی سود مند ثابت ہوا اور اس کی جھکی ہوئی گردن میں تھوڑا ٹھہراؤ آگیا اور چہرے پر بشاشت پھیل گئی۔
اب وہ واپس جانے کے لیے پرانے قبرستان کے قریب سے گزر رہے تھے۔ قبرستان کی یہ جگہ دربار کے احاطے کے ساتھ ایک فصیل کے ساتھ جڑی ہوئی تھی دربار کا مر کزی دروازہ بھی یہاں سے خاصا قریب تھا۔ اس فصیل کے ختم ہوتے ہی ایک تنگ مگر گنجان بازار تھا۔ جو مر کزی دروازے کی طرف جاتا تھا۔ بازار کے دونوں اطراف کھلونوں، میٹھی گولیوں، چادروں اور تسبیحات کی دُکانیں تھیں۔ اس بازار کی نکڑ پر قبرستان کی فصیل کے پاس گلاب اور موتیے کے پھولوں کی ایک دُکان تھی۔ وہاں ایک بڑا سا بینر لگا ہوا تھا۔ جس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔
سائیں سُکھے شاہ اول کے مزار کی مقدس مٹی یہاں دستیاب ہے پیکٹ کی قیمت 30روپے۔اس دکان پر لوگوں کا کافی رش لگا ہوا تھا۔ کچھ لوگ پھولوں کی پتیاں، موتیے اور گلاب سے بنے ہار خرید رہے تھے۔ مگردونوں کی اکثریت وہاں سے مقدس مٹی خرید نے میں مصروف تھی۔
دِتے نے ایک آدمی سے وہاں لگے رش کا سبب معلوم کیا تو دوسری طرف سے جواب آیا۔ بہت شفا والی مٹی ہے ابھی دو دِن پہلے ہی یہ لوگ سائیں کی پرانی قبر جو کہ گزشتہ ہفتے مسمار کی گئی تھی اور اب زیرِ تعمیر ہے،وہاں سے سائیں کی خاص اجازت سے لیکر آئے ہیں۔
”میرے اپنے بچے کو کالی کھانسی تھی میں نے دو تین بار چٹائی ہے۔ سائیوں کی مہربانی سے بہت زیادہ فرق پڑا ہے پہلے کھانسنے سے خون آتا تھا اب نہیں آتا“۔
اس آد می کی باتوں سے دِتے کا متزلزل یقین کچھ پختہ ہو گیا۔ وہ پھولوں والی دکان کی جانب بڑھا۔ قیمت پوچھنے پر پتہ چلا ایک پیکٹ 30روپے میں دستیاب ہے۔ دِتے نے جیب ٹٹولی تو اس میں سے 20روپے کا ایک بوسیدہ سا نوٹ برآمد ہوا۔ دِتے نے 20روپے اس آد می کی جانب بڑھائے تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا کہ 30روپے لاؤ ورنہ مٹی نہیں ملے گی۔ دِتا واپس مڑا اور زرینہ سے کہا میرے پاس 20روپے ہیں مٹی 30روپے میں دے رہے ہیں۔ اس لیے چلتے ہیں۔ ٹھہرو میں دیکھتی ہوں۔ زرینہ نے اپنے دوپٹے کے پلّو سے بندھے 10روپے جو اس نے دو دِن پہلے سبزی خریدتے وقت بچائے تھے، نکال کر دِتے کو دیے اور وہ بھاگا بھاگا مٹی خرید لایا۔
اب وہ لوگ کھیتوں کے ساتھ ایک پگڈنڈی نما کچی سڑک پر اپنی گدھاگا ڑی پر موجود تھے۔ تمام لوگ خامو ش تھے۔۔۔۔۔ دِتے کے ہاتھ میں گدھی کی نکیل کی رسی تھی مگر وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک بار پھر تصویریں ناچ رہی تھیں۔ دربار پر آنے اور جانے کے تمام مناظر اس کے دماغ میں جاگ اُٹھے تھے۔500روپے کو کتنی آسانی کے ساتھ اس سے اینٹھا گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اِن پیسوں کی اس کی زندگی میں کتنی اہمیت تھی۔ وہ غریب تھا شایداس لیے اِن پیسوں کے کھو دینے کا درد اس کے سینے میں شدت سے جاگ اُٹھا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ غریب ہی کیوں پیدا ہو اوہ بھی امیروں کے گھر جنم لے سکتا تھا۔ آج بھی توسیکڑوں کے حساب سے لوگ اپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں دربار پر آئے تھے پھولوں کی بڑی بڑی ٹوکریاں اور بڑی بڑی چادریں قبروں پر ڈال رہے تھے۔ انہوں نے تو کئی 500روپے آج خرچ کر دیے تھے مگر ان کے چہرے واپسی پرکتنے کھِلے کھِلے تھے۔ وہ اپنے ہزاروں روپے خرچ کر کے یہاں سے نکل رہے تھے مگر پھر بھی مطمئن تھے۔ ان کا تو کوئی بچہ بھی بیمار نہیں تھا پھر بھی پیسے خرچ ہونے پر مطمئن تھے۔ میری تو بچی بھی بیمارہے میں 500روپے خرچ کرکے اس کے لیے شفا خریدی ہے مگر دِل اتنا بوجھل اور اداس کیوں ہے۔ 500روپے ہی تو لگے ہیں کوئی کائنات تھوڑی چھن گئی ہے۔۔۔۔۔!!

Advertisements
julia rana solicitors

”دِتے شازیہ کو تھوڑی سی مٹی نہ کھلا دیں“
خیالات کے گرد اب میں پھنسے دِتے کو زرینہ کی تھکی ہوئی ہرزہ سرائی نے نکالا۔۔۔۔۔
ھمھم۔۔۔۔ہاں! پیکٹ کھول کر تھوڑی سی مٹی پانی کے ساتھ چٹا دو اسے۔ زرینہ نے جلوس کے نیچے سے گزر کر دم کیے گئے پانی کے ساتھ پیکٹ میں سے تھوڑی سی مٹی نکال کر زندگی کی سرخی سے عاری اس کے ہونٹوں کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے کھول کر چٹکی بھر مٹی اس کے منہ میں ڈالی اور ساتھ ہی تھوڑا سا پانی اس کے لبوں سے لگا دیااور منہ ہی منہ میں سائیاں وے۔۔۔۔۔ سائیاں وے کا ورد شروع کر دیا، مگر کچھ ہی دیر میں وہی چٹکی بھرمٹی کیچڑ بن کر اس کے منہ سے باہر آ گئی۔

Facebook Comments

محمد افضل حیدر
محمد افضل حیدر شعبہء تدریس سے وابستہ ہیں.عرصہ دراز سے کالم , اور افسانہ نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھا رہے ہیں..معاشرے کی نا ہمواریوں اور ریشہ دوانیوں پر دل گرفتہ ہوتے ہیں.. جب گھٹن کا احساس بڑھ جائے تو پھر لکھتے ہیں..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply