کامریڈ! تُم خوش قسمت ہو۔۔۔ جاویدخان

سیدی (سید ابواعلیٰ مودودی)،سید ابوالخیر مودودی (سیدمودودی کے بڑے بھائی) اور جو ش ملیح آبادی،نیاز فتح پوری کے اخبار سے منسلک تھے۔ماحول علمی تھا،ادبی تھااور بہت ہی دوستانہ بھی۔یہاں تک کہ جب نظریاتی اختلافات بڑھ کر سمندر کے دو الگ الگ کنارے ہو گئے۔تو تب بھی دلوں میں نفرتیں جگہ نہ بنا پائیں۔جب سر د جنگ کے عفریت نے لاکھوں جانیں ہڑپ لیں تو اس وقت قلمی دنیا کے سبز اور سرخ گوریلے بھی ایک دوسرے پر پل پڑے۔حمید اختر نے اپنے اخبار میں ”مودودی ٹھا ہ“ جیسی سرخیاں بھی لگائیں۔ابوالاعلی ٰ کو لوگ چھوٹے مودودی اور ابولخیر صاحب کو بڑے مودودی کہتے تھے۔سید ابوالخیر اور سید ابوالاعلیٰ کی شخصیات ایک دوسرے کی ضد تھیں۔ابولخیر صاحب پر حیدر آبادی بانکے کی مکمل چھاپ تھی۔سفید حیدر آبادی باجامہ،پان بیڑی سے لیس علم وادب کے سمندر کا تیراک۔ابوالاعلی ٰ نے پہلے پانچ سال بائیں بازو سے الفت بنائے رکھی۔پھر دائیں بازو کی منفرد قیادت سنبھال لی۔ان کاقلم بے باک چلاتو چلتا ہی گیا۔سید مودودی کو بائیں بازو کے حملوں کاجواب ہی نہیں دینا ہوتاتھا بلکہ دائیں بازو کے ملاوں کے فتووں کو بھی سہنا پڑتا تھا۔اچھرہ ذیلدار پارک لاہور میں اپنے صحن میں،ان پر قاتلانہ حملہ کرنے والا کوئی یہودی یا پھر سڑخ فوج کا گوریلہ نہ تھا۔بلکہ ایک گستاخ کو ٹھکانے لگا کرجنت حاصل کرنے والا سچا مسلمان تھا۔

بات قلمکاروں کی ہورہی تھی۔جو نظریاتی محاذوں پر ایک دوسرے کے خلاف قلم لے کر صف آرا تھے۔مگر جنگ میں کمینگی،کینہ،کھوٹ اور جھوٹااور چھوٹاپن اپنا قد نہ نکال سکے۔سیدمودودی دائیں بازو کے منفرد قلم کار مانے جاچکے تھے۔وہ گردے کی پتھری کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔تو مولانا کے نظریاتی مخالف دوست بے تاب دیرینہ دوست کو دیکھنے چلے آئے۔حاضر جوابی اور مزاح ان سب دوستوں کی یکساں خوبی تھی جس کا اعتراف اکثر تحریروں میں ملتا ہے۔مودودی تکلیف میں تھے۔ایسے میں جوش اپنے جھتے کے ساتھ آدھمکے اور آتے ہی فقرہ کسا”دیکھو مودودی ! اللہ تمھیں سنگسار کر رہا ہے۔باز آجاو!۔“ مولانا بے اختیار مسکرا دیے۔اختلافات لاکھ سہی،جہاں انسانی قدریں زندہ ہوں،بالکل مری نہ ہوں وہاں محبتیں ساری نفرتیں اور حجاب پار کر کے آجاتی ہیں۔

جو ش بلا کے بلا نوش تھے۔ڈوبتے سورج کے وقت پیتے تھے، مگر خود کبھی نہ ڈوبے۔بعد عصر پینا ان کا معمول تھا۔جوش نے اپنی سوانح عمری ”یادوں کی برات“ میں لکھا ہے کہ ایک دن ان کی بیوی نے مستقبل کے بارے میں معاشی الجھنوں اور خدشات کا ذکر چھیڑ دیا۔باتوں باتوں میں جو ش کو بھی پریشانی نے پکڑ لیا اور وہ اس پریشانی میں سو گئے۔رات کے کسی پہر انھوں نے خواب دیکھا ”ایک تاب ناک چہرے والے بزرگ کے روبرو ہیں۔جو ش دیکھتے ہی پاؤں میں گر پڑے۔انھوں نے اٹھایا تو جوش نے روتے ہوئے کہاآپ ہی میرے محمد ﷺ ہیں؟جن کو میں نے لڑکپن میں دیکھا تھا(پرانے خواب کی طرف اشارہ)؟۔انھوں نے فرمایا ہاں میں وہی تمھارا محمد ﷺ ہوں۔ پائنتی کی طرف ایک شخص باادب کھڑا تھا۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ نظام دکن ہے تمھیں دس برس تک اس کے زیر سایہ رہنا ہے۔“بقول جوش وہ جاگے تو دیر تک روتے رہے۔ایک اجنبی خوشبو کمرے میں پھیلی تھی۔جسے جوش  کی بیوی بیگم اشرف جہاں نے بھی محسوس کیا۔تابناک چہرے والی بزرگ ہستی نے جوش کو اپنے قدموں پر سے اٹھاتے ہوئے کہا تھا ”تم روتے کیوں ہو؟تم ہنسنے کے لیے بنے ہو۔“مگر جوش جاگے تو دل کھول کر روئے۔نظام دکن کے ہاں جو ش نے دس سال گزارے۔ایک ہجو لکھنے پر جوش اور نظام کی ناراضگی ہوئی تو جوش چلے آئے۔

مابعد الطبیعاتی دنیا پراسرار ہے۔خوابوں کی انجانی دنیا مادی سرحد کے بہت پار بستی ہے۔ایک ایسے ہی خواب نے شیخ سعدی کو نعت کا چوتھا مصرا مکمل کروایا تھا۔جگر مراد آبادی نے ایک مشاعرے میں نعت کہنے سے قبل شراب سے توبہ کرلی تھی۔جگر،جوش سے زیادہ بلا نوش واقع ہوئے تھے۔جوش نے اپنی کتاب ”یادوں کی برات“کے ایک باب ”میرادین“ کی ابتدا میر کے اس شعر سے کی ہے۔
میر کے دین و مذہب کو،کیا پوچھو ہو تم،ان نے تو
قشقہ کھینچا،دیر میں بیٹھا،کب کا ترک اسلام کیا۔

جوش نے بانی اسلام اورسقراط پر دو سطروں میں بحث مکمل کر لی ہے۔”انھوں نے جاہلوں کے درمیان حقائق کو آشکار کر کے،سقراط کی مانند،زہر کاپیالہ نہیں پیا،اور حقائق کو دل نشیں لباس پہنا کر چشمہ حیواں پر قبضہ کر لیا۔سقراط نے اپنی قوم کی ذہنی سطح سے بلند ہو کر زبان کھولی،اس کو ہمیشہ کے واسطے خاموش کردیا گیا۔محمد ﷺ نے اپنی قوم کی ذہنی سطح پر قدم رکھ کر بات کی،اور وہ بات،اذان بن کر،اس دنیا میں اب تک گونج رہی ہے“

علم اورنیکی کسی ایک کی میراث نہیں،یہ ہر انسان کاپیدائشی حق ہے اور بنیادی فرض ہے۔جو ش نے خرافات بھی لکھی ہیں۔ اہل علم ان سے کئی زیادہ ہیں۔ متقی اور پرہیز گاروں کی بھی کمی نہیں۔مگراس خواب اور واردات میں وہ جد امقام پر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

من میں اِک تڑپ ہے کہ موت کی سرحدکے پار رہنے والوں تک،کوئی سندیسہ بھیج سکوں، تو جو ش کو خصوصی کہلا بھیجوں کہ۔ارسطو اورسیرت پاک ﷺ پر لوگوں نے دفتر کے دفتر لکھ ڈالے مگر کامریڈ تمھارے چند جملے اس باب میں سب دفتروں پر بھاری ہیں۔اور ہاں کامریڈ! تم جانتے ہو تمھیں کس نے اپنے قدموں سے اٹھایا اور تم کس کے قدموں پر گرے تھے۔وہ شب وہ گھڑیاں تمھاراسرمایہ ہیں ۔
کامریڈ۔۔۔۔! تُم کتنے خوش قسمت ہو۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply