زینب سے فرشتہ تک۔۔۔۔مہرساجدشاد

صور شہر میں ایک بچی زینب کی گمشدگی کاواقعہ رونما ہوا۔قصور میں سماجی سطح پر بچی کی گمشدگی پر احتجاج اور فوری بازیابی کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا، سوشل میڈیا نے اس معاملہ کو بھرپور طریقے سے اٹھایا یوں اسے حکومت اور سکیورٹی اداروں کی ترجیح بنوا دیا۔ ابھی اس پر کام ہو ہی رہا تھا کہ زینب کی مسخ شدہ لاش کوڑے کے ڈھیر سے مل گئی۔ احتجاج میں شدت آگئی ملک بھر سے یہی مطالبہ کیا جارہا تھا کہ سفاک قاتل کو پکڑ کر عبرت ناک سزا دی جائے۔ اُس وقت سیاسی ماحول بھی گرم تھا حکومت وقت کو ہر طرف سےکچوکے لگائے جارہے تھے سیاسی سطح پر اس معاملے کو سیاست چمکانے کیلئے بھرپور استعمال کیا گیا، حکومت کیخلاف ویڈیو پیغام دیئے گئے، اسمبلی کے اندر اور باہر پرجوش اور جذباتی تقریریں کی گئیں، حتی کہ بچی کی نماز جنازہ پڑھانے کیلئے بھی ایک سیاسی مذہبی جماعت کے سربراہ قصور پہنچ گئے۔

پنجاب حکومت اور اسکے اداروں پولیس اسکورٹی ایجنسیوں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور پنجاب فرانزک لیب کے باہم بہترین اشتراک عمل کا نتیجہ سامنے آیا اور جدید ٹیکنالوجی اور طریقہ تفتیش سے سفاک قاتل پکڑا گیا اور پھر مکمل پیروی سے اپنے منطقی انجام پھانسی کی سزا کو پہنچا۔اسکی سزا پر عمدرامد عوامی اجتماع میں کرنے کا مطالبہ بوجہ قانونی رکاوٹوں کے پورا نہ ہو سکا اور اسے جیل میں پھانسی پرلٹکا دیا گیا۔

اب اسلام آباد کے اہم ترین ٹاپ اسکورٹی والے علاقے کے پڑوس چک شہزاد کے علاقہ میں فرشتہ مہمند نامی دس سالہ بچی کے گم ہو جانے کا واقعہ پیش آیا۔ پولیس نے رپورٹ درج نہیں کی۔ والدین اور رشتہ دار تقریباً چار دن بچی کو ڈھونڈتے رہے، پھر وہی ہوا جس کو ہر کوئی سوچتا تھا لیکن لرز کر کہتا تھا نہیں ایسا نہیں ہوگا، فرشتہ کی لاش ملی، کسی انسان نما درندہ کی بھنبھوڑی ہوئی لاش، جنسی زیادتی کے بعد سفاکی کیساتھ قتل کی گئی فرشتہ مہمند کی لاش۔
اس لاش کو انصاف ملے اسکے لئے بنیادی پیش رفت تو ہو کچھ قانونی تقاضے تو پورے ہوں اسکےلئے فرشتہ کا باپ لاش کو سڑک پر رکھ کر بیٹھا رہا، کیونکہ یہ انصاف خودکار طریقے سے ملنے والی چیز تو ہے نہیں ،نہ ہی کوئی سستی چیز ہے جو ہر ایرےغیرے کو مل جائے۔

بتانا یہ ہے کہ زینب کیس سے لے کر فرشتہ کیس تک تقریباً تین ہزار آٹھ سو 3800 سے زائد بچوں کیساتھ جنسی درندگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ان میں سے تقریباً 65% یعنی 2000 سے زائد بچیاں اس سفاکی اور درندگی کا نشانہ بنیں۔ کتنے ہی بچے زخمی حالت میں ملے جن پر دماغی بیماریوں نے ایسے اثرات مرتب کئے ہیں کہ اب وہ نارمل زندگی گذارنے کیلئے طویل اور صبر آزما علاج کے محتاج ہیں۔

ہمیں کیا کرنا ہے ؟؟؟

جرم کے خاتمے کی طرف پہلا قدم مجرم کی فوری درست نشاندہی اور تیز ترین فوری سستا انصاف جس میں سخت ترین سزا سے اسے نشان عبرت بنایا جائے تاکہ سزا کا خوف ایسے جرائم کی روک تھام میں فوری اثر انداز ہو سکے۔

لیکن دوسری طرف بطور والدین ہمیں اپنے بچوں کیلئے زیادہ محتاط اور زیادہ اگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو انکی عمر کے لحاظ سے تمام خطرات سے اگاہ کرنا ان سے نمٹنے کےلئے تربیت دینا بھی ضروری ہے، یہ شرم اور جھجھک کی بات نہیں بلکہ جنگل میں محفوظ زندگی گزارنے جیسی بات ہے۔
اسکولوں میں باقاعدہ تربیت یافتہ کوچ ان چھوٹے بچوں کو اپنی حفاظت کیلئے تربیت دیں۔ گھر میں والدین اپنے بچوں کیساتھ زیادہ وقت گذاریں انہیں اپنے جسم کی حفاظت کرنا سیکھائیں۔
بہت سی جائنٹ فیملی سسٹم میں بچے زیادہ محفوظ رہتے ہیں گھر کے بزرگ ہر وقت انکے ارد گرد موجود رہتے ہیں اور کہیں تنہائی کے مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے انکی سرگرمیاں مثبت رہتی ہیں۔ لیکن اس سسٹم میں اگر تربیت کا فقدان ہو اور ماحول خراب ہو تو اپنے بہن بھائی کزن اور قریبی رشتے بھی خطرناک ہوتے ہیں یہی کم عمر بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

جرائم کے متعلق ہمارے معاشرتی روئیے نہائت قابل اصلاح ہیں۔ لڑکے اپنے لڑکپن میں قابل گرفت شرارتیں کرتے ہیں والدین انکی شرارتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور کہتے ہیں لڑکا جوان ہو رہا ہے ایسا تو ہوتا ہی ہے۔لڑکے قابل اعتراض حرکات کرتے ہیں تو والدین اسے لڑکپن کی غلطیاں کہہ کر چشم پوشی کرتے ہیں۔ پھر یہی باتیں پختہ ہوتی جاتی ہیں اور بے راہ روی بن جاتی ہیں۔
جبکہ لڑکیوں کے معاملے میں ہمارا معاشرتی رویہ نہایت سخت ہوتا ہے کوئی مسلۂ درپیش ہو جائے تو والدین لڑکیوں کو قصوروار گردانتے ہیں، جیسے اگر تم اکیلی نہ جاتی تو یہ نہ ہوتا، اگر تم اس طرح کے کپڑے نہ پہنو تو ایسا نہ ہو، اگر تم کسی سے بات نہ کرو تو کسی کو موقع نہ ملے۔
حالانکہ سادہ اصول ہے اگر ہم اپنی بیٹیوں کو باعزت باوقار اور محفوظ ماحول دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بیٹوں کو انسانیت سیکھانا ہوگی انکی نظر اور سوچ کو درست کرنا ہوگا۔ انکی کسی شرارت یا غلط حرکت یا بے راہ روی پر شدید ترین ردعمل دینا ہوگا، ایسا ردعمل اور سلوک جو ہمارے ارد گرد کہیں نہ کہیں واقعات میں ہمارے سامنے ضرور آتا ہے جیسے ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک والدہ اپنے بیٹے سے اس لئے سخت ناراض تھی کہ اس نے اپنی بیوی کو پیٹا تھا، والدہ کا موقف تھا یہ میری تربیت نہیں اس نے یہ حرکت کر کے میری توہین کی ہے۔
ایک کالج میں پڑھنے والے لڑکے نے اپنے دوستوں کیساتھ مل کر لڑکی کو چھیڑا، لڑکے کی والدہ اور اسکی بہنوں نے اسکی پٹائی لگائی کہ تم نے دراصل ہمیں چھیڑا ہے۔
ایک نوجوان اپنے دوستوں کیساتھ مل کر سوشل میڈیا پر لڑکیوں کو ہراساں اور بلیک میل کرنے کے کیس میں پکڑا گیا، اسکے والدین نے اپنے بیٹے کے کیس کی پیروی سے انکار کر دیا کہ یہ اپنی سزا بھگتے پھر ندامت کیساتھ واپس آئے تو ہم قبول کر لیں گے۔
ایک ڈکیتی کا نوجوان مجرم پھانسی پر لٹکایا گیا کیونکہ دوران ڈکیتی اس نے ایک خاتون کی آبروریزی کی تھی، اسکی ماں نے اپنے بیٹے کی لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی دوسری اولاد کو بھی سختی سے روک دیاکہ اس جانور سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، یہ لاش ایدھی فاونڈیشن نے دفن کی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply