مسلمانوں کا گٹار ۔۔۔۔ ثاقب الرحمان

آپ نے اکثر گٹار کے بارے میں سنا ہو کچھ آزاد خیالوں نے یہ چیز دیکھی بھی ہو گی اور ایمان سے عاری کچھ افراد نے تو اسے بجایا بھی ہو گا۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس لفظ کا مطلب کیا ہے ۔ جدید موسیقی Rock Music نے اس لفظ کو کافی کریہہ بنا دیا ہے اور اسے مغربی موسیقی کے ساتھ خاص کر دیا ہے حالانکہ اس لفظ کے تانے بانے انگریزی یا فرانسیسی سے نہیں بلکہ ایشیائی زبانوں (عربی ، فارسی) سے ملتے ہیں۔

یہ لفظ گیٹ اور ٹار سے مل کر بنا ہے جو دراصل گیت اور تار سے ماخوذ ہے۔ مسلمان جب سپین میں فاتح ہوئے تو وہاں کے لوگوں نے مسلمانوں کی تلوار اور عربی نسل کے گھوڑے کے ساتھ ساتھ گتارہ بھی حاصل کیا۔ یہی لفظ سپین والوں کے لئے گٹارہ ہو گیا جس کی جدید شکل گٹار ہے۔

گٹار میں عمومی طور پر چھ تاریں ہوتی ہیں۔ تار سے موسیقی نکالنے والا مکمل آلہ سب سے پہلے فیثا غورث نے بنایا اور فیثا غورث نے ہی موسیقی کو ریاضی کی ایک زیلی شاخ کا درجہ دیا۔ فیثا جی کے بربط میں چار تاریں ہوتی تھیں پھر ایک مسلمان نابغے “یعقوب ابن اسحاق الکندی” نے اس میں ایک تار کا اضافہ کر دیا۔

فیثاغورث کی طرح یعقوب الکندی بھی موسیقی کو روح کی غذا سمجھتے تھے اور الکندی خود ایک اچھے طبیب بھی تھے ، سو نسخے میں چند منٹ کے سریلے اور مدھر ساز کا بھی اضافہ فرما لیتے تھے۔ فیثاغورث نے چار تاروں کا استعمال کیا اس کی وجہ فطرت کے چار عناصر “ہوا ، پانی ، آگ اور مٹی” تھے ۔ ان چار تاروں کے پیچھے یونانی کاسمولوجی کار فرما تھا یا یوں سمجھ لیں کہ یہ چار تار ان کے چار عناصری عقیدے کو بھی تقویت دیتے تھے۔

یعقوب الکندی نے ان میں ایک تار کا اضافہ فرما لیا۔ ایک تار کے اضافے سے یہ تعداد پانچ ہو گئی ۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھا کہ وہ اہل تشیع تھے اور پنجتن پاک کو مانتے تھے بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ الکندی بھی فیثاغورث کی طرح کائنات کے عناصر کو مناتے تھے اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ گیتارے کی تاروں اور جہان کی مادی طاقتوں میں ایک ربط ہے ۔ ہوا ، پانی ، آگ اور مٹی کے علاوہ پانچواں تار “ایتھر” Aether کا تھا. ارسطو کا خیال تھا کہ ساری دنیا چاہے وہ آگ ہو یا پانی یا پہاڑ وغیرہ، سب ایک بنیادی مادے سے وجود میں آئی ہے اس مادے کو ارسطو جی نے Aether کا نام دیا۔ اور اسی مناسبت سے الکندی نے اپنے گیتارے میں ایک تار کا اضافہ کیا۔

یعقوب الکندی ( 185-259ھ ) عراق کے شہر بغداد میں رہتے تھے قرون وسطی کے زمانے میں انکو چند بڑی اور نمایاں شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ امام شافعی رح کا دور تھا اور بلاشبہ علمی لحاض سے یہ مسلمانوں کا عہد زریں تھا۔ ایمان اتنے مضبوط ہوتے تھے کہ ایک گیتارے سے برباد نہ ہوتے تھے ۔ ہمارے زمانے کے موسیقاروں کے ہتھیلیوں کے نیچے آہنگ بکھیرتا طبلہ بھی ایک مسلمان امیر خسرو کی ایجاد ہے۔

آج مسلمانوں کا عہد زریں بیان کرنے کے لئے اسحاق الکندی اور خسرو جی کا نام پیش کرنے سے گریز کی ایک وجہ یہ موسیقی بھی ہے۔ نصابی کتب میں ان کے نام نہیں ملتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب ازہان ایجاد کا شغف رکھتے ہیں اور اس پر قدرت بھی رکھتے ہیں تو وہ ہر علم کو شہکار بنا دیتے ہیں ۔ جب فکریں مٹکے میں پڑی رہ کر خمیر یافتہ ہونے لگیں تو ایجاد باقی نہیں رہتی صرف رخنہ باقی رہتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply