منشیات زدہ معاشرہ۔۔سلطان فرید

والدین ایک حسرت سے اپنے بچے کو پالتے پوستے ہیں، امید و یاس سے اسکول میں داخل کراتے ہیں تاکہ وہ بڑا ہو کر ایک ذمہ دارشہری کی طرح زندگی گزار سکے اور ان کی پیری کا عصا ثابت ہو۔ کوئی اچھا سا افسر بن کر اپنے معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرے، اپنی قوم کی بہتری کے لیے جہدوجہد کرے اور اپنے والدین کا کانام روشن کرے۔

لیکن بہت ہی کم بچے ہوتے ہیں جو اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کئی بچے غلط ماحول میں پڑ کر منشیات جیسی بری راہ کو اپنا کر ان کے ارمانوں کو ٹھیس پہچاتے ہیں اور اپنی زندگی کو تاریکی کی طرف دکھیل دیتے ہیں۔ جب وہ اسکول سے باغی ہو کر معاشرے کے بے حس اور مردہ ضمیر درندوں کے جال میں پھنس کر اپنی زندگی کو داؤ پر لگا لیتے ہیں۔ اس راہ کو اپنا کر وہ بدقسمت بچہ اپنے والدین کا نام روشن کرنے کے بجائے ان کا نام اپنے خراب اعمال کی وجہ سے بدنام کرتا رہتا ہے۔

منشیات کا عادی شخص اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے کبھی اپنے اور کبھی دوسروں کے گھر کا سامان چور کرتا رہتا ہے اور اپنے ماں باپ کے اس خواب کو چورچور کرتا ہے جو انہوں نے ایک دن دیکھا تھا کہ ہمارا بچہ پڑھ لکھ کر ایک اچھا ڈاکٹر، انجینیئر، پولیس آفیسر بنے گا۔

منشیات پھیلانے کا ٹھیکہ ہمارے علاقے میں بسنے والے میر و سرداروں اٹھا رکھا ہے۔ میر و سردار پیسے کے لالچ کی وجہ سے ایسے کاروبار کو پروان چڑھا کر کئی گھروں کو اجاڑنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ چند ہی روز پہلے اپنے علاقے مشکے میں ایسے ہی ایک نوجوان کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ نہ جانے اس کی ماں نے اس کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچا ہوگا لیکن آج اس ماں پر کیا بیتی ہوگی جو اپنے بچے کو اس حال میں دیکھتی ہوگی، اس کی بہنوں اور بھائیوں پر کیا بیتتی ہوگی، جن کا بھائی اس غلیظ عادت کا شکار ہے۔

کافی عرصے سے بلوچستان بالخصوص ضلع آواران میں منشیات کو اشیائے خوردنوش کی طرح بکتا دیکھ کر دماغ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا کہ انسان اپنی زندگی آخر اس طرح برباد کیوں کرتا ہے؟ وہ کیا وجوہات ہیں جو انسان کو اس طرح کی بربادی اور بری علت اپنانے پر مجبور کرتی ہیں۔ علاقے میں اس طرح سرعام ملنے کی وجہ سے بہت سے نوجوان اس غلیظ عادت کو اپنانے لگے ہیں۔

مجھے ڈر ہے کہ آنے والے وقت میں منشیات سے عادی افراد زیادہ نہ ہوں۔ جس کے برے اثرات ہمارے علاقے پر مرتب ہوں گے۔ اس غلیظ چیز کو، جو جنگل کی آگ کی طرح تیزی سے پھیل رہی ہے، اگر روکا نہ گیا تو ہماری آنے والی نسل بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں اپنے نوجوان ساتھیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ خود اس بری صحبت کا حصہ نہ بنیں اور دوسروں کو بھی اس سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ نیز معاشرے میں اس برائی کو ختم کرنے کے لیے آواز اٹھائیں تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسل اس سے محفوظ رہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ ان منشیات کے اڈوں کے خاتمے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے رہیں۔ اب مزید تماشائی بن کر اپنی نوجوان نسل کے مستقبل کو داؤ پر لگتا ہوا دیکھ نہیں سکتے۔ اس ناسور کے خاتمے کے لیے نوجوان متحد ہوں تو اس غلیظ عمل کا خاتمہ کرنے میں ہم جلد کامیاب ہوں گے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔