میں اُس کو غور سے
حیرت سے سُنتی ہوں
بڑے سے
ہر سہولت سے سجے گھر میں
وہ اپنے ساتھ رہتی ہے
وہ کہتی ہے
“کسی بھی شام کے بھیگے اندھیرے میں
وہ اپنی شدت پسند جذبات سے
بہکی ہوئی آواز میں
مُجھ سے یہ کہتا ہے
” میں آ جاؤں؟”
تو سر سے پاؤں تک
میں اک سحر آلود سی مستی میں
یکدم ڈُوب جاتی ہوں
میں اپنے نرم تکیوں میں
اُسے محسُوس کرتی ہوں
میری جلتی ہوئی آنکھوں کو بند کر کے
فقط آواز سُنتی ہُوں
میرے دن بھر کی وحشت سے
تھکے ٹُوٹے بدن پہ
اُس کے میٹھے لفظ
اک جادُو جگاتے ہیں
اُسے معلُوم ہوتا ہے
کہ میری کیا ضرورت ہے
وہ میرے درد کو
ساری تھکن کو
بھوک کو
لفظوں سے ایسے ڈھانپ لیتا ہے
کہ میں اُس رات خُود کو
پھر سے زندہ سا سمجھتی ہوں
وہ مُجھ کو زندگی دیتا ہے
مُجھ سے کُچھ نہیں لیتا ”
میں حیرت سے پھٹی آنکھوں سے
کانوں میں دھڑکتے دل کی گہرائی سے
اُس کی بات سُنتی ہُوں
سماجی دائروں
پابندیوں
کی قید سے آزاد ہو کر
سوچتی ہوں کہ
اگر تنہائی کے مارے
بدن کی بھوک کا روزہ
کسی آواز کی دُنیا میں جا کر کھولتے ہیں تو
بھلا اس میں بُرا کیا ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں