ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی

ادب برائے ادب کا مطلب ادب کو صرف اور صرف حظ کی حد تک محدود رکھنا ہے ۔جب قارئین کوئی فن پارہ پڑھتے ہیں اور اس سے حظ اٹھا تے ہیں۔ ایسے فن پارے میں جذباتی آسودگی ہی اصل مقصد ہوتی ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس ادب برائے زندگی میں ادب کو کسی خاص نصب العین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جیسے کہ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک اورتحریک ادب اسلامی اس کی بڑی مثالیں ہیں ۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ادب برائے زندگی کا رخ اندر سے باہر کی طرف ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ داخل سے خارج کی طرف ہوتا ہے جبکہ ادب برائے ادب کا رخ باہر سے اندر کی طرف ہوتا ہے یعنی خارج سے داخل کی طرف ہوتا ہے۔ اردو ادب میں ادب برائے ادب کی مثالیں بے شمار ہیں لیکن حلقۂ اربابِ ذوق کا ابتدائی بیس سالہ دور بطورِ تحریک اس قسم کے ادب کے لیے ایک قوی مثال قرار دی جاسکتی ہے ۔ادب برائے ادب ایسا ادب بھی کہلاتا ہے جو باعث تسکین ہو اور جس کو پڑھ کے لطف حاصل کیا جائے جبکہ ادب برائے زندگی سے مراد وہ ادب ہے جو زندگی کے مختلف مقاصد سے ہم آہنگ ہو اور کسی واضح یا کسی حد تک غیر واضح نصب العین کا حامل ہو ۔

مزید آسانی کے لیے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ادب برائے ادب کا مقصد شوق پورا کرنا ,یا محض ادب تخلیق کرنا ہوتا ہے ۔ اس سے حقیقی معنوں میں کسی ادب پارے کا لطف کشید کیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ ادب برائے زندگی کا مقصد زندگی کے مسائل, مشکلات,دکھ سکھ تمام پہلوؤں کی ترجمانی ہے,اور معاشرے میں تبدیلی لانا بھی اس میں یوں شامل ہوتا ہے کہ ادب معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے۔زندگی اور ادب براہ راست اک دوسرےسے منسلک ہیں ۔ زندگی ہو یاکہ ادب ۔۔ دونوں کا مفہوم اپنے معنی میں اک بحر بےکنار ہے جس میں اختلاف رائے کے لاتعداد جزیرے ہیں اور ان کی متفقہ”تعریف” ناممکن ہے ۔ کسی بھی زبان میں جب” ادب”کی بات کی جاتی ہے تو عام طور سے اس سے مراد وہ ادب ہوتا ہے جسے اردو زبان “ادب لطیف یا ادب جمیل” کا عنوان دیتی ہے ۔۔ یہ ادب وجدان کی گہرائی سے ابھرتا ہے ۔ سوچ و فکر و خیال کی راہ چلتے جامعیت خیال کی منزل پر پہنچ کر صدا کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے ۔ یہ اظہار جو کسی بھی زبان میں ” صدا”بن کر سامنے آتا ہے اپنی موزونیت و لطافت کی بنا پر” ادب”کہلاتا ہے ۔ ادب کے بنیادی ستون “خیال کی پرواز ” اور” زبان پر گرفت ” ہیں ۔
خیال ” رنگینی ، گہرائی ، نزاکت اور مشاہدے” کی قوت کو ہمراہ لیئے جب کسی بھی زبان میں ” ندرت بیان ، حسن ادا ، جدت ، روانی ، قدرت اظہار سے” صدا کی صورت تحریر و تقریر میں ڈھلتا ہے تو” ادب ” سامنے آتا ہے ۔سرسری سی نگاہ میں ادب کا کوئی خاص مقصد سامنے نہیں آتا ۔ ادب لطیف و جمیل میں شامل بہت سے ایسے فنون لطیفہ ملتے ہیں جو کسی بھی” مادیت”نفع اور مقصد سے بیگانے دکھتے ہیں اور اسی باعث یہ کہتے ہیں کہ ادب کا مقصد ادیب کی محض اک دماغی سرخوشی اور فکر کی مستی سے لطف اندوز ہوتے اپنے خیال کو دنیا کے سامنے لانا ہے ۔ چاہے یہ دنیا محض اک فرد پر مشتمل ہو ۔ اور دماغی سرخوشی کے حامل فکر کی مستی کو ہمراہ لیئے جب ایسے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے خیال ” معانی” سے جگمگا اٹھتے ہیں ۔ انہیں اپنی روح بیدار ہنستی کھیلتی جمالیاتی احساسات پر رقص کرتی نغمے چھیڑتی محسوس ہوتی ہے ۔ وہ نغمے جو کہ” زندگی”کے رنگوں سے سجے ہوتے ہیں ۔۔اسی لیئے” ادب” کو کسی بھی” تہذیب”کا وہ کلیدی عنصر قرار دیا جاتا ہے جو کہ تہذیب کو ترقی کی راہ پر چلاتے اسے عظمت عطا کرتا ہے ۔۔۔۔۔کسی بھی تہذیبی معاشرے کے وہ فرد جو کہ معاشرے کی اصلاح کے طلبگار ہوتے ہیں اس اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ،وہ اپنے”علم ،ذہانت، توانائی ” کو یا تو مذہب پر صرف کرتے ہیں یا کہ ان سے ادب کے چراغ روشن کرتے ہیں ۔

کسی بھی “تہذیب” میں ادب کی حیثیت یا تو” مذہب” کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام انسان سما جائیں ۔یا پھر انسانیت کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام مذہب سما جائیں ۔۔مشرقی اور مغربی تہذیبوں میں جنم لینے والا ادب بہر صورت ” مذہب اور انسان ” کے درمیان پیدا ہونے والے ان اختلافات پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ” حقیقت و مجاز ” کی تلاش میں ہر انسان کو پیش آتے ہیں ۔۔ہر تہذیب میں ادب بہت سی اقسام میں تقسیم الگ الگ ناموں سے سامنے آتا ہے ۔۔۔اور ایک ہی حقیقت کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے ۔ یہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ چاہے ” فحش ادب ہو ،چاہے مزاحمتی، تعمیری یا تنقیدی “۔ادب کسی بھی زباں ، خطے یا تہذیب کا ہو فطرت اور رومانوی رنگ ہر ایک ادب میں مشترک اور لازم و ملزوم ہے۔ جس سے ادب کو چار چاند لگ جاتے ہیں ہمارے رومانوی شاعروں کو کسی نہ کسی طور سے انگریزی رومانوی شاعروں سے بہت زیادہ مماثلت حاصل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اختر شیرانی کی شاعری پر جان کیٹس کی شاعری کا رنگ غالب نظر آتا ہے تو غلط نہ ہو گا مجھے ہمیشہ سے رومانوی اور نیچرکی شاعری سے رغبت رہی اور میں نے ہمیشہ رومانوی شاعروں کو ذوق کے ساتھ پڑھا ہے ۔ انگریزی ادب میں کیٹس اور اردو شاعری میں اختر شیرانی کے ہاں مجھے دوران مطالعہ متعدد منی، تخلیقی، تخیلی، اسلوبی مماثلتیں ملی ہیں۔ دونوں شاعروں کے ہاں مشترک علامتیں، استعارے، تشبیہات، مناظر فطرت، داخلی کیفیات کثرت سے پائی جاتیں ہیں۔ جس خاکداں کا ذکر جان کیٹس کے ہاں کیا گیا ہے وہی خاکداں اختر شیرانی نے بھی موضوع بنایا ہے اور اس سے جڑی زندگی کی حقیقتیں بیان کی ہیں فرق اتنا ہے کہ کیٹس کے ہاں خاکداں اپنی تہذیبی علامت کے طو پر استعمال ہوا ہے اختر نے اپنی تہذیبی روایت میں خاکداں کو دکھایا ہے۔ محبت کا موضوع اور رومانی خیالات دونوں کے ہاں یکساں رنگ کے حامل ہیں۔

اردو تنقید کی تاریخ میں حالی نے مغرب سے استفادہ کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا لیکن کلیم الدین احمد کی تنقید سے پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ مغرب میں تنقید کا کیا مذاق ہے۔ تخلیقات کو ادبی اصولوں کی بنیاد پر توجہ کی نظر سے دیکھنا اور ادب کے عالمی سرمائے کے آئنیے میں ان کا جائزہ لینا کلیم الدین احمد کا اصل کارنامہ ہے۔ اپنے تنقیدی فیصلوں میں انہوں نے روایتی وضع داری نبھانے کی بجائے حقیقت پسندانہ بے باکی کامظاہرہ کیا اردو تنقید کے لیے یہ چونکانے والی بات تھی۔ خاص طور پر مسلمہ شخصیات اوراصناف کی تاریخ پرگفتگو کرتے ہوئے کلیم الدین احمد کے سخت اورشدّت کے ساتھ بیان کیے گئے، جملوں سے اردو کے ایوان تنقید میں ہنگامہ برپا ہوا۔ اختلافات کے باوجودکلیم الدین احمدکے ادبی رویوں کے خلوص ،سچائی اور ذہانت کوماناگیا۔ اوراسی لیے اردوتنقید میں انھیں ممتازمقام عطاکیاگیا۔اردو تنقید کی تاریخ میں حالی نے مغرب سے استفادہ کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا لیکن کلیم الدین احمد کی تنقید سے پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ مغرب میں تنقید کا کیا مذاق ہے۔ تخلیقات کو ادبی اصولوں کی بنیاد پر توجہ کی نظر سے دیکھنا اور ادب کے عالمی سرمایے کے آئنیے میں ان کا جائزہ لینا کلیم الدین احمد کا اصل کارنامہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں قرآن پاک کے حوالے سے ادب کے دونوں پہلو :
یہ عظیم کتاب ادب برائے ادب اور ادب برائے تفریحی لٹریچر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ زندگی کے ٹھوس حقائق ومعاملات سے بحث کرتی ہے اور وہ بھی سنجیدہ اور باوقار انداز سے ، مگر اس کے باوجود یہ ادب پارہ اور انتہائی مؤثر دل نشین کلام بھی ہے جو اپنے نفسِ مضمون کے لحاظ سے تمام تر نصیحت ہونے کے باوجود اس خشک روی سے مبرّا ہے جو ناصحین کی تحریر وتقریر کا خاصہ ہے۔ ایک ایک لفظ موتیوں کی طرح جڑا ہوا ہے ۔ ایک ایک سطر شاخِ گل ہے اور ایک ایک صورت خیابانِ بہار ! مگر حُسنِ بیان کے اتنے ضخیم مجموعے میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ نگارش اصل مقصد کی راہ سے ذرّہ برابر ادھر اُدھر ہو جائے اور آرٹ کی لذت وکشش قاریِ کتاب کو اپنی رو میں بہا لے جائے۔ کوئی ایک جملہ تو کجا،ایک لفظ نہیں جسے ’ادب برائے ادب‘ قرار دے کر مقصدی ضرورت سے زائد قرار دیا جا سکے۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply