دلائے رام کا تھیٹر۔۔۔۔۔محمد سجاد کھوسہ

آج دوستوں کیلئےکچھ الگ اور معلومات سےمزین پیش خدمت۔۔ یہ ہے مشہور دلو_رام یا  دلائے_رام کا تھیڑ
ایک چھپی تاریخ ۔ایک جائےعبرت۔ ایک شہر،خموشاں جو بڑےبڑے راز اپنے سینےمیں چھپائےتاریخ کے  کھوجیوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔۔
گزشتہ دنوں سیاحتی اور بائیکرز گروپ “مولویز آن بائیکس ” کے دوستوں اور انکے لاہور سے تشریف لائے معزز مہمان کاشف بھٹی صاحب کے ساتھ ایک بار پھر اپنے جام پور شہر کے نزدیکی تاریخی مقام دلائے رام کا وزٹ کیا۔۔
یہ جام پور سے 7 کلومیٹر شمال مغرب کی جانب ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور کی تاریخی اہمیت کی حامل تحصیل جام پور کے بارڈر پر واقع ہے ۔ اس کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ شہر کسی خدائی آفت میں تباہ ہوا۔۔ یہ قلعہ نما شہر الٹ دیا گیا یا پھر سیلاب میں غرق ہوا۔ یہ شہر تقریباً  دو مربع سے زائد زمین پر مشتمل لگتا ہے ۔ یہاں کے اردگرد کے رہنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ یہاں سے بڑے قیمتی نوادرات نکلتے رہے ہیں  جوکہ یہاں سے پھر سرداروں کے ذاتی میوزیم یا پھر بلوچستان تک بیچے جاتے رہے ہیں ۔ یہاں سے دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بھی نکلتی رہی ہیں۔ اسی جگہ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ بشیر احمدانی صاحب نے ان لوگوں کے مذہب کے متعلق جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ شائد کسی دیوی کی پوجا کرتے تھے۔ جو کہ دو زانو بیٹھ کر ہاتھ اٹھائے بیٹھی ہے۔ ایسے کئی بت دیکھے گئے۔ اور اس کے علاوہ دیگر بھٹی کے پر بنائے گئے چھوٹے چھوٹے بت بھی دیکھے گئے ہیں۔۔ غالبا” یہ لوگ بت پرست ہی تھے۔۔ یہ بھی بتایا کہ انکی تہذیب و تمدن موہنجودڑو کی تہذیب سے ملتی جلتی ہے

یہ  تھیڑ ایک عالی شان شہر ( جو پھر تباہ ہوا ) کا پورا نقشہ پیش کرتا ہے۔ میں نے جب اس کے کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو کر اسے دیکھا تو ذہن میں عجب ہیبت تجسس اور بے چینی پیدا ہوئی ۔ ان لوگوں کے گھر بھی بڑی سی پکی و کچی اینٹوں کے اور بڑے منظم انداز میں بنے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ایک جگہ ان کی گندم کے سٹور کے نشانات بھی ملتے ہیں جہاں گندم کے بڑے سے دانے جلے ہوئے ملتے ہیں۔ انکے بازاروں کے نشانات۔ انکے راجے کے محل کے نشانات۔ چوکوں چوراہوں کے نشانات ، محلہ جات اور میدانوں کے نشانات اور قبرستان کے بھی نشانات ملتے ہیں ۔

ان سب کو دیکھتے ہوئے میں کئی بار خیالات کے گھوڑے دوڑاتا ہوا ان کے دور میں چلا گیا۔ کبھی یہ ہیبت و جلال کا نشاں بنے راجاوں کی حکمرانی میں رہا یہ ایک قلعہ نما شہر ، اردگر اسکی فصیلیں ( جو مٹی سے بنائی گئیں ) بازار کی رونقیں ، حسن و جمال سے لبالب محفلیں، تلواروں کی جھنکار ، کھلے میدانوں میں گھڑ سواروں اور تیر اندازوں کے مقابلے ، اس دور کی تعلیم حاصل کرتے بچوں کی اٹھکھیلیاں، محلوں اور کالونیوں میں زندگی کی روانیاں ، حسین و جمیل دوشیزاوں کی خوش کن آوازیں ، وہ شہر کی روشنیاں ۔۔۔ لیکن ۔۔ لیکن پھر۔۔ پھر میرے خیالات ٹوٹ جاتے کہ آخر ۔۔۔ نجانے ہوا کیا ۔۔۔ ؟؟؟ نجانے یہ لوگ کیوں تہہ بالا ہوئے ؟ نجانے کس عذاب کا شکار ہوئے کہ آج تک انکی صحیح تاریخ کا بھی پتہ نہ  چل سکا ۔۔ یہ قلعہ نما شہر آخر کیوں تاریخ کے کھوجیوں کی پہنچ میں نہ  آ سکا۔۔ ؟؟

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ برائی میں پڑے ہوئے لوگ تھے ۔ کچھ کہتے ہیں انکا راجہ بڑا عیاش تھا۔ ایسا عیاش کہ ہر نو بیاہی لڑکی کو پابند کیا جاتا کہ وہ شادی سے پہلی رات راجہ کیساتھ گزارے گی۔ جس سے پھر اس شہر پر عذاب نازل ہوا ۔۔( یہ وہ باتیں ہیں جو کنفرم نہیں صرف سنی سنائی ہیں)

اس مقام کے بارے میں مختلف روایات بتائی جاتی ہیں ۔ کچھ روایات میں ہے کہ یہ قدیم ترین ایرانی تہذیب کا ایک شہر تھا۔۔ کچھ کے نزدیک یہ بدھ مت مذہب کے ماننے والوں کے راجہ جس کا نام دلائے رام تھا کی راجدھانی ہے ۔۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہاں کی مٹی بڑے اچھے اثرات والی ، چیکلی اور زرخیز ہے جس کے سبب پچھلے وقتوں سے لوگ یہاں سے مٹی بھی اٹھاتے رہے ہیں ۔۔

اس خطے کو دیکھنے والے ہمارے بہت سے دوستوں اور اردگرد کے لوگوں نے بڑے بڑے حیران کن دعوے بھی کیے ہیں اور اس پر بہت اچھا لکھا بھی ہے۔۔
مولویز آن بائیکس کے ہمارے دوست مرشد عمران اخگر لکھتے ہیں۔
”یہ بدھ مت کے قدیم ترین ایرانی النسل آبادیات کے باقیات جو کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے دور کی صدی کی باقیات ہیں مورخین کے مطابق یہ براہمن شہزادے دلو رائے کے نام آباد کیا گیا شہر تھا جو کہ اپنے وقت میں ایک ترقی یافتہ اور پررونق شہر تھا ، اس کے کھدائی سے قیمتی اشیا بھی برآمد کی گئیں ہے۔

سب سے بڑی بات کہ یہ شہر دو منزلہ تھا اس کی ایک منزل سطح زمین پر اور دوسری سطح زمین سے نیچے تھی اور یہ ہزاروں سالوں تک زمین تلے دبی رہی ہے اور 1858 میں اسے انگریز ڈپٹی کمشنر نے پہلی دفعہ اس کی کھدائی کرائی تھی ، 1876 میں علاقے کے اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر نے ایک کتاب “تواریخ آف ڈیرہ غازی خان  ” لکھی اور اس میں تفصیل بیان کی  ،اس باتوں کے علاوہ مقامی لوگوں میں مختلف قسم کے باتیں اور قصے مشہور ہیں۔
محروم جنوبی پنجاب کی طرح یہ قیمتی ورثہ بھی سالوں نظر انداز رہا اور فروری 1964 میں پہلی دفعہ اس کو تاریخی ورثہ سمجھ کر اس کے حفاظتی اقدامات کےحوالے احکام دیئے گئے جس کی روشنی میں ایک مقامی گارڈ کو تعینات کیا گیا،اور کوئی پوچھنے والا تو تھا نہیں ، 2010 میں ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے سروے کے مطابق ان کھنڈرات کا کل رقبہ 80 ایکڑ ھے جو کہ لگتا یوں ہے کہ پہلے موجودہ رقبہ سے 4 گنا زیادہ ہوا کرتا ہوگا۔
حکومتی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے قیمتی نوادرات چُرا لیے گئے ہیں جوکہ جس میں مقامی سطح ور ملکی لیول کی مافیا ملوث ہے، کچھ حصہ مقامی کاشتکاروں کے پاس بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے،

Advertisements
julia rana solicitors


ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ چُرا ئے گئے سبھی نوادرات واپس لئے جائیں اور ہمارے تاریخ دانوں اور تاریخ کے طلبہ کے لئے اس تاریخی جگہ پر ریسرچ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اور ضلعی سطح پر ایک میوزیم بنایا جائے اور کھدائی کے دوران نکلنے والی تاریخی اشیا کو وہاں رکھا جائے۔ بلکہ جو کچھ یہاں سے نکالا جا چکا وہ بھی بازیاب کرایا جانا چاہیے اس سے پورے ملک سے لوگ یہاں انہیں دیکھنے اور ریسرچ کرنے آئیں گے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply