وحدانیت۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر اور کرم ہے ہم پر اور باقی تمام مسلمانوں پر کہ اُس نے ہمارے لئے بہترین دین یعنی اسلام کا انتخاب کیا اور انتخاب کے بعد ہمارے لئے رہبرِ کامل پیغمبر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ ﷺ کو قرآن مجید کی صورت میں ایک لازوال حکمت و دانائی سے بھرپور کتاب بھی ہماری رہنمائی کے لئے عطا کی گئی جس کی ہر ایک آیت میں ہمارے لئے مکمل رہنمائی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذاتِ اقدس اور باری تعالی کی وحدت کے بارے میں ہم ، آپ اور ایک عام مسلمان کیسے جان پائے؟

اللہ تعالی کی صِفت لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ میں تو ہر مسلمان یہ جان لیتا ہے کہ “نہیں کوئی عبادت کے لائق سوائے اللہ تعالی کی ذات کے” مگر اِس اقرار کی تشریح کیسے کی جائے کیسے آسان الفاظ میں توحید کو بیان کیا جائے کہ جس کی رو سے ہر مسلمان پر یہ واضح ہو جائے کہ بیشک اللہ تعالی ہی تمام جہانوں کا پروردگار ہے وہی پالنے والا اور حکمت والا ہے؟
اِس کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایک نظر ڈالیں اور جان لیں کہ وحدانیت کا مطلب کیا ہے؟

وحدانیت کیا ہے یا توحید کے  کیا معانی ہیں؟

توحید کے  معنی ایک ماننے کے ہیں جس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو اور یہ صفت ہے اسلام کو قبول کرنے کی اور عقیدے کی  بنیاد ہے۔ ہم اِس کو ایسے بیان کر سکتے ہیں کہ دل اور دماغ سے اِس بات کو قبول کرنا اور زبان سے اقرار کرنا کہ تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہے اُس کا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں نہ حکومت میں نہ عبادت میں اور وہ اکیلا ہے۔

اب دوسری بات یہ ہے کہ کلمہ پڑھنے اور اسلام قبول کرنے کے بعد یہ سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات مبارک کی موجودگی کی دلیل کیا ہے؟

اِس کا جواب دینا کسی بھی صاحبِ ایمان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں پھر بھی یہ ضروری ہے کہ یقین آجائے اور اِس پر یقین آنے کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اگر دو یا زیادہ خدا ہوتے تو انکی رائے میں کبھی نہ کبھی ضرور اختلاف ہوتا اور دنیا کے نظام میں خلل واقع ہوجاتا لیکن دنیا کے نظام میں خلل نہ ہونا اور ایک ہی قسم کے نظام کا نظر آنا اِس بات کی دلیل ہے کہ اِس کائنات کا مالک ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالی کی ذات اقدس ہے۔

فطری طور پر جب بھی کوئی انسان کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے خواہ وہ مصیبت اتفاقی ہو یا پھر پرانی، انسان کی  زبان پر صدا صرف مدد کے لئے ہی بلند ہوتی ہے اور وہ صدا اُس کے خالق و مالک کو پُکارنے والی ہوتی ہے جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خواہ انسان اپنی شخصیت کے پردوں میں کتنا ہی کیوں نہ خود کو چھپا لے اُس کی روح اِس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اُس کو پیدا کرنے والا ایک ہی ہے اور وہ واحد و برتر و اعلی ہے۔

آسان الفاظ میں یہی کہ اللہ تعالیٰ کا موجود ہونا آفتاب سے زیادہ روشن ہے۔ اُس کی ہستی کا یقین ہر شخص کی فطرت میں داخل ہے۔ خصوصاً مصیبتوں میں ، بیماریوں میں ، موت کے قریب ، اور اکثر یہ فطرت اصلیہ ظاہر ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے منکرین بھی اللہ تعالی ہی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں اُن کی زبانوں پر بے ساختہ اللہ تعالی کا نام آہی جاتا ہے۔

ایک اور سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے اللہ تعالی کی ذات اقدس کی پہچان کیسے ہو؟

اِس سوال کا جواب تو برسوں سے لاتعداد علماء کرام ، جید مفتیان کرام اور بڑے بڑے اسلامی سکالرز دے چکے ہیں اور یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ دنیا اور کائنات کے طول و عرض میں ایسے ایسے شاہکار اللہ تعالی کی وحدانیت و قدرت کو ظاہر کرتے ہیں جن کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد کسی انسان کے  شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ہم اگر اِس زمین میں موجود لاتعداد جانداروں پر نظر ڈالیں خواہ و زمینی ہو یا ہوا میں محوِ پرواز ہوں، نباتات ہوں یا  حیوانات ہوں ہر ایک ذی روح میں ہمیں اللہ تعالی کی قدرت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
تھوڑی سی عقل والا انسان بھی دنیا کی تمام چیزوں پر نظر کرکے یقین کر لے گا کہ بیشک یہ آسمان و زمین ، ستارے اور سیارے ، انسان و حیوان اور تمام مخلوق کسی نہ کسی کے پیدا کرنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ آخر کوئی ہستی تو ہے جس نے اِن کو پیدا کیا اور جس طرح چاہتا ہے اُن میں تصرف کرتا ہے۔

جب ہم کسی کرسی وغیرہ جیسی چیز کو دیکھتے ہیں تو فوراً سمجھ لیتے ہیں کہ اِن کو کسی نہ کسی کاریگر نے بنایا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے اتنی وسیع کائنات کو بنانے والا نہ ہو؟
یہ زمین یہ آسمان یہ سورج اور چاند کے اوقات؟ یہ دریاوں اور سمندروں میں موجیں مارتا پانی؟ یہ پھل اور پھولوں سے لدے سبزہ زار؟ یہ سمندر کی تہہ میں عظیم ترین مخلوقات کیا یہ سب اِس بات کی دلیل نہیں کہ اِن سب کو بنانے والا بھی کوئی موجود ہے؟ بیشک یہی دلیل کافی ہے کہ جب ایک چھوٹی سی کرسی کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتی تو پھر یہ کائنات وجود میں کیسے آئی؟

وحدانیت کی دلیل قرآن مجید میں کہاں ہے؟

اِس کا جواب ہمیں وحدانیت پر قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے ملتا ہے۔

1: ترجمہ:
اور تمھارا خدا ایک خدا ہے اُس کے سوا کوئی خدا نہیں، بے انتہا کرم کرنے والا بار بار رحم فرمانے والا۔
(البقرۃ 163)

2: ترجمہ:
اللہ کی گواہی ہے کہ بجز اُس کے کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور اہل علم بھی اِس کے گواہ ہیں اور وہ عدل سے انتظام رکھنے والا ہے۔
(آل عمران 18)

توحید کے مرتبے کونسے ہیں یا توحید کی شرائط کیا ہیں؟

اللہ تعالی کی وحدت پر ایمان لانے کے لئے ضروری ہے کہ ذیل کے چار شرائط پر ایمان لایا جائے۔

1: اللہ تعالی کے سوا کسی کو معبود نہ سمجھا جائے۔

2: تمام روحانی اور جسمانی و مادی عالم کا خالق سوائے اللہ تعالی کے کسی کو نہ جاننا اور نہ ہی ماننا۔

3: آسمان اور زمین اور اِن کے درمیان موجود تمام ہونے اور نہ ہونے کو اللہ تعالی کی ذات سے مخصوص سمجھنا۔

4: اللہ تعالی کے سوا کسی کو عبادت کے لائق نہ سمجھنا۔

اللہ تعالی کی ذات کی موجودگی پر ایمان کیسے اور واجب الوجود ہونا کیا ہے؟

واجب الوجود ایسی ذات کو کہتے ہیں جس کا وجود ضروری اور حق ہے۔ یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی جس کو کبھی فنا نہیں کسی نے اُس کو پیدا نہیں کیا بلکہ اُسی نے سب کو پیدا کیا ہے جو خود اپنے آپ سے موجود ہے اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کی صفت ہے۔

اللہ تعالی کا ذاتی نام کیا ہے اور صفاتی نام میں فرق کیسے ہو؟

اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام “اللہ” ہے اِس کو اسمِ ذات بھی کہتے ہیں اور لفظ اللہ کے سوا دوسرے نام جو اللہ تعالی کی کسی صفت کو ظاہر کرے اُسے صفاتی نام یا اسمائے صفات کہتے ہیں۔
جیسے کہ : رحمان ، رحیم ، عزیز ، غفار ، قہار ، اللہ تعالی کے صفاتی نام ننانوے ہیں۔

اللہ تعالی کی وحدت پر ایمان لانے کے بعد ایمان کے ارکان کونسے ہونگے؟

جب بندہ اللہ تعالی کی وحدت پر ایمان لاتا ہے تو وہ اُن تمام احکام کو ماننے کا اقرار کرتا ہے جو کہ احکام الہی اور دین الہی یعنی اسلام کی بنیاد ہیں وہ یہ ہیں کہ:

1: اِس امر کی شہادت اور گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں۔
2: نماز قائم کرنا۔
3: زکوٰۃ دینا۔
4: حج کرنا۔
5: ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔

اللہ تعالی کی وحدانیت حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کیسے ثابت ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے احادیث مبارکہ سے تمام مسلمانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اللہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ:

ترجمہ: جب جبرائیل علیہ السلام نے ہادی کائنات جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کی بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت کر اور اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کر اور فرض نماز قائم کر، اور فرضی زکوۃ ادا کر۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر 50 صحیح مسلم حدیث نمبر 9)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو توحید و رسالت ﷺ پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: انسان خطا کا پُتلا ہے اور عین ممکن ہے کہ غلطی   ہو جائے، راقم سے بھی اِس تحریر میں کسی بھی قسم کی غلطی ہو سکتی ہے قارئین سے التجا کی جاتی ہے کہ بصورت کوئی غلطی مطلع کرکے ثواب دارین حاصل کریں شکریہ۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply