اینیمل فارم  اور  تحریک ناکام۔۔۔۔ساجد محمود خان

نوبل انعام یافتہ جارج آرویل کا  شہرہ آفاق ناول اینیمل فارم (Animal Farm) انصاف اور مساوات کے نام پر اٹھنے والی خیالی تحریکوں اور ان کے طریقہ واردات کو نہایت عمدہ طریقے سے آشکار کرتا ہے۔ جارج آرویل نے اس ناول میں کمیونزم کی تحریک اور اس کے بنیادی اصولوں کی حلاف ورزی پر نہایت عمدہ طریقے سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ناول کے کردار فارم کے مختلف جانوروں  پر مشتمل ہیں جو انسانوں کے ظلم وزیادتی سے تنگ آکر ان کو اس فارم سے نکال باہر کرتے ہیں اور اپنی انصاف پسند نئی  حکومت قائم کرتے ہیں مگر انصاف کی بنیاد پر بنائی گئی یہ حکومت ظالم انسانوں کی بنائی گئی حکومت سے بھی بدتر ثابت ہوتی ہے اور وہاں بھی ایک نیا طبقہ اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔ پھر یہی انقلابی جانوروں کے حکمران ہر وہ کام کرتے تھے جن کے لیے انھوں نے انسان کو بدنام کیا ہوا تھا۔
تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کے لوگ بھی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک نئی تحریک شروع کر کے رائج نظام کو بدلنے کی ابتدا کی مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا اگر بدلہ ہے صرف انکے آقا بدلے ہیں۔ایسی تحریک اور انقلاب صرف آپ کو ایک آقا کی غلامی سے دوسرے آقا کی غلامی میں بھیج دیتے ہیں۔ بسا اوقات انسان ایک قابل آقا کی غلامی سے ایک نالائق آقا کی  غلامی میں آ جاتے ہیں۔کبھی کبھی تو ایسے لوگوں پر حیرت بھی ہوتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ چند دن یاچندافراد کے آنے سے پورا نظام بدل جائے گا حالانکہ حقیقت میں کسی بھی نظام کو بدلنے کے لیے معاشرے کی  اجتماعی سوچ کو بدلنا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی معاشرے کی  اجتماعی سوچ اسی وقت بدل سکتی ہے جب ان کی تعلیم اور تربیت پر لمبے عرصے تک پیسہ خرچ کیا جائے ۔
جب تک نظام حقیقی معنوں میں نہیں بدلتا صرف اس کا نام بدلنے سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اس بات کی مثال اسی طرح کی ہے کہ ایک نکمے اور کنگال شخص کا نام اگر آپ فقیر رکھ دیں تو تب بھی وہ نکما اور کنگال ہی رہے گا اور اگر اسی شخص کا نام آپ نواب رکھتے ہیں تو تب بھی وہ شخص نکما اور کنگال ہی رہے گا۔ اسی طرح کسی بھی نظام کو دوسرے نام سے پکارنے یا پھر یہ دعویٰ  کرنا کہ یہ نظام نیا اور بہترین ہے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے جب تک عملی طور پر اس نظام کو بہتر بنانے کے لئے عملی طور پر اقدامات کیے جائیں۔ ترقی کا سفر چند افراد کے بدلنے سے نہیں بلکہ معاشرے کی اجتماعی سوچ بدلنے سے ہوتا ہے۔ جمہوریت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں آپ کو ایسے مداری چاہیے ہوتے ہیں جو عوام کو یہ باور کرا سکیں کہ ان کے تمام مسائل کا حل صرف ان کے پاس ہے اور وہ عوام کو بار بار یہ باور کراتے ہیں کہ اگر ملک کے مسائل سے جان چھڑانی ہے تو ان کی  پارٹی کو ووٹ دیں اور انہیں کے امیدواروں کو کامیاب کریں تاکہ آپ کے تمام مسائل حل ہو سکیں۔ جونہی پارٹی برسراقتدار آتی ہے پتہ چلتا ہے کہ نظام کی تبدیلی کے لیے وقت اور وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے۔تبدیلی چند دنوں یا  چند گھنٹوں کا کھیل نہیں کسی بھی معاشرے یا قوم کے نظام میں تبدیلی ہی تبدیلی آتی ہے جب وہ ایک مسلسل جدوجہد سے گزرتے ہیں۔ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں آپ کو انتخابات کے وقت ایسے ایسے نعرے سننے کو ملیں گے ایسے ایسے وعدے سننے کو ملیں گے جن کے اوپر پارٹیوں نے کسی بھی قسم کی تحقیق نہیں کی  ہوتی مگر عوام سے جھوٹے وعدے کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آتے ہی  یہ تمام وعدے پورے کریں گے۔ اور عوام  یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اب ہم حقیقی معنوں میں فقیر سے نواب بن جائیں گے۔

Facebook Comments

ساجد محمود خان
۔ سیاسیات کا طالب علم۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اینیمل فارم  اور  تحریک ناکام۔۔۔۔ساجد محمود خان

  1. جدلیاتی مادیت اور کارل مارکس
    ہیگل کی فکر میں مثالیت اپنے نقطہء عروج کو پہنچ گئی تو اس نے یہ کہ کر مادی عالم دین کی تخلیق ہے مادے کے معروضی وجود سے انکار کردیا ۔یہ نقطہ ء نظر جدید سائنس کے منافی تھا ،جس میں عالم مادی کو حقیقی سمجھ کر اس کے قوانین دریافت کیے جاتے ہیں۔ہیگل کی مثالیت کے خلاف جو ہمہ گیر ردعمل ہوا ،کم و بیش تمام نئے مکاتب فکر پر اس کا عکس پڑتا ھو ا دیکھائی دیتا ہے۔ ہربارٹ اور فوئر باخ ، ہیگل کے ناقدین میں پیش پیش تھے ۔ان فلاسفہ نے مثالیت کو رد کرکے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرائی کہ حیات ہی علم کے اصل ماخذ ہیں اور سچا ،حقیقی اور قابل اعتماد علم حواس ہی کے وسیلے سے حاصل کیا جاتا ہے البتہ محسوسات کو منظم ضرور کرتا ہے ۔
    لڈوگ فوئر باخ ،مذہب اور مثالیت کا مخالف تھا اور انہیں بے مصرف تخیل آرائی کے کرشمے سمجھتا تھا ۔باخ نے بے باک ہوکر اور مدلل انداز میں مثالیت کا نہ صرف رد کیا بلکہ اس نے مذہب اور مثالیت کے مابین گہرے ربط و تعلق کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ اہل مذہب اپنے دینی عقائد کا اثبات مثالیت پسندی سے کرتے رہے ہیں کیونکہ مذہب اور مثالیت میں فکری و ذوقی رشتہ موجود ہے ۔ کارل مارکس اور انجلز نے یہ کہ کر بات کو آگے بڑھایا کہ مقتدر طبقہ مذہب کی طرح مثالیت سے بھی اپنے خصوصی مفادات کے تحفظ کا کام لیتا ہے ۔ کارل مارکس ،ہیگل اور فوئر باخ کے درمیان ایک ضروری واسطہ تھا جس سے متاثر ہو کر کارل مارکس جو شروع شروع میں ہیگل کی مثالیت کا پر جوش مداح تھا ، مادیت سے رجوع لایا لیکن فوئر باخ نے ہیگل کی مثالیت کے ساتھ اس کی جدلیات کو بھی رد کردیا تھا ۔اس طرح بقول مارکس پانی کے ساتھ بچے کو بھی ٹب سے باہر پھینک دیا ۔
    مارکس اور انجلز نے ہیگل کے تصورات کی پیکار کو طبقات معاشرہ کی آویزش میں منتقل کردیا اور دونوں نے کہا کہ ہیگل کا یہ خیال درست ہے کہ کائنات اور فکر انسانی بدلتی رہتی ہے لیکن اس کا یہ کہنا صیحح نہیں کہ ذہن میں جو تغیرات ہوتے ہیں وہی عالم مادی میں بھی وارد ھوتے ہیں ۔حقیقت اس کے برعکس ہے ۔عالم مادی اور معاشرے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ تصورات بھی بدل جاتے ہیں چنانچہ مارکس کہتا ہے ” جرمن فلسفہ آسمان سے زمین کی طرف آتا ہے ، ہمارا فلسفہ زمین سے آسمان کی طرف جاتاہے ”
    کارل مارکس روائتی مادیت کو میکانکی کہتا ہے اس کے خیال میں مادیت مابعد الطبیعاتی گرفت سے آزاد ہوکر جدلیات کے قریب تر آگئی ہے کیونکہ جدید سائنس کی روح جدلیاتی تھی ۔مارکس نے مادیت کو مابعد الطبعیات سے علا حدہ کیا ۔ اس میں ہیگل کے جدلیاتی اصول شامل کئے اور اپنا فلسفہ جدلیاتی مادیت کی تدوین کرکے پرولتاریہ کو وہ نظریاتی بنیاد فراہم کی جس کے بغیر ان کی انقلابی جدوجہد کو بامقصد اور ثمر آور بنانا ممکن نہیں تھا ۔
    جدلیاتی مادیت کے اصول درج زیل ہیں
    1- مادہ شعور پر مقدم ہے اور شعور مادے ہی کی ایک صفت ہے کیونکہ شعور مغز سر کا فعل ہے اور مغز سر مادی ہے ۔مادہ کائنات میں معروضی صورت میں موجود ہے ۔
    2_عالم مادی میں کوئی شے بھی قطعی ، حکمی اور مطلق نہ ہے سب اشیاء مسلسل حالت حرکت و تغیر میں ہیں
    3_ اضداد یعنی ہر شئے میں اس کی ضد موجود ہے جو اس کی نفی کردیتی ہے اضداد کا جدل و پیکار ہر وقت جاری رہتی ہے حرکت و تغیر اسی کا نتیجہ ہے
    4_ ہر اثبات میں اس کی نفی موجود ہوتی ہے اور ہر نفی کی نفی ہو جاتی ہے جس سے اثبات کا عمل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے ۔
    5_ عالم مادی کی کوئی شئے ایک حالت پر برقرار نہیں رہ سکتی اور بالجبر اپنی ضد میں بدل جاتی ہے ۔
    6_ کائنات میں اشیاء ایک دوسرےسے الگ تھلگ موجود نہیں ہیں بلکہ ایک دوسری پر اثر انداز ہوکر تغیرو تبدل کرتی رہتی ہیں ۔
    7_ جدلیاتی مادیت کی رو سے عالم مادی دو قسم کی اشیاء پر مشتمل ہے (1) وجود : جو اصل ہے (2) فکرو شعور جو اس کی فرع ہے

Leave a Reply