اک نظر شام کے بعد۔۔رؤف الحسن

شہر لاہور پر شام اتری تو تیری یادوں کا تحفہ ساتھ لے کر آئی۔ نومبر دسمبر کی سرد شامیں یوں بھی اداس ہوا کرتی ہیں۔ ایسی کئی شامیں میں نے تجھے سوچتے اور سورج کو ڈوبتے دیکھ کر گزاری ہیں۔ ادھر افق کے اس پار سرخ ہوتے سورج نے آخری کروٹ لی اور ادھر میری آنکھ کے پردے سے تیرا چہرہ اوجھل ہوا۔ اگلے دن پھر سے نمودار ہونے کے لیے۔

وقت شام کا محبت سے عجیب رشتہ ہے۔ یہ محبت کے سفر میں آپ کی ہم راز ہوتی ہے۔ شام کی تنہائی میں جب تصور کسی چہرے کے خدوخال ترتیب دیتا ہے تو سرمئی شام کی پرچھائیاں اس میں رنگ بھرتی ہیں۔ یادوں کی کتاب کے صفحات بدلتے ہیں تو رنگ بدلتے بادل بھی کسی مخلص دوست کی طرح ساتھ آ بیٹھتے ہیں۔ دل کے نہاں گوشوں میں جب کسی کی یاد کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے تو زرد پڑتا سورج بھی آہٹ سننے کچھ دیر ٹھہر سا جاتا ہے۔

ایسی ہے ایک شام میں ہاسٹل سے نکلا اور شہر کے ہنگاموں سے دور ملتان روڈ پر واقع ایک چائے کے ڈھابے پر آ بیٹھا۔ دل بھی وحشتوں سے فرار کے راستے ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ ڈھابے والا مجھے جانتا تھا تو مجھے دیکھ کر مسکرا اٹھا۔ ہارن بجاتی تیز رفتار بس گزری تو ہوٹل والے نے چولہے کی آگ مزید بڑھا دی۔ ابلتے پانی کے اوپر بنتے اور ختم ہوتے بلبلوں میں تیزی آ چکی تھی۔

زندگی بھی شاید ایک بلبلہ ہی ہے۔ اس کے بننے اور ختم ہونے کا وقت بہت مختصر ہے۔ اس مختصر وقت میں بھی انسان کا دل و دماغ کتنی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان ہی آوارہ سوچوں کے درمیان مجھے ایک دھیمی سی اجنبی آواز کی یاد آئی:

“زندگی بہت مختصر ہے رؤف! میں اس مختصر وقفے میں کسی بے نام رشتے سے منسلک نہیں ہونا چاہتی”

اکتوبر کی اس دوپہر میں اس کی بات سن کر خاموش ہو گیا تھا۔ شاید اس کی نگاہیں کچھ اور کہہ رہی ہوں پر میں اس کی طرف دیکھ ہی نہ سکا۔ میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ رشتے بے نام کب ہوتے ہیں؟ ہر رشتہ کسی نہ کسی یاد سے منسلک ہوتا ہے اور ہر یاد دل میں زندہ رہتی ہے۔ ان رشتوں کو نبھانے کا نام زندگی ہے اور یادوں کے دیے احترام کے سائے میں جلائے رکھنے کا نام ہی محبت ہے۔ لیکن کچھ باتیں ادھوری چھوڑ دینا بہتر ہے۔ زندگی بہت سے سوالات کا جواب کسی نہ کسی مقام پر خود دیتی ہے۔

“باؤ جی چائے۔۔۔” بیرے نے میرے سامنے چائے رکھتے ہوئے کہا تو یادوں کی مالا ٹوٹ گئی۔

چائے کے کپ سے اٹھتا دھواں میرے سامنے پھیل رہا تھا۔ شام کے سائے گہرے ہو چلے تھے۔ ان ہی سایوں میں مجھے دل زار کے کسی خانے سے بھی دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔ ڈھابے والا مہدی حسن کی آواز میں میر تقی میر کی غزل لگا چکا تھا:

Advertisements
julia rana solicitors

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

Facebook Comments

Rauf Ul Hassan
I do not consider myself a writer. Instead, I am a player. As one of my friend s said: "You play with words. " He was right. I play, and play it beautifully.