اللہ رکھی۔۔۔محمد خان چوہدری

اس کی شہرت اس قدر تھی کہ محلے میں جب بھی کوئی نوخیز لڑکی اپنے بال بناتی، بنتی سنورتی تو کوئی  خالہ یا پھُوپھی اس سے کہہ اٹھتی،

” بس کر نی، زیادہ اللہ رکھی بننے کی کو شش نہ کر”

اس کی پیٹھ پیچھے سب اسے رکھی دائی  کہتے، پورے محلے کی وہ دائی  تو تھی لیکن اس کے منہ پے سب اسے باجی، بھابھی، آپا، خالہ یا اللہ رکھی ہی بلاتے،

لیکن ایک بات طے تھی کہ رکھی کے ہاتھوں کوئی  بچہ ضائع نہیں  ہوا ہم اسے چاچی کہتے تھے جس پہ  وہ مسکرا کے ہمارے گالوں پہ  چٹکی کاٹ کے کہتی، ” تیری تے میں چاچی نہیں ”

کیا طلسم ربا عورت تھی، پاؤں اتنے گورے، تلوؤں اور ناخن پر  لگی مہندی اور تلہ دار چپل ، چال میں ذرا سی سرعت، لیکن پکے فرش پر بھی یوں چلتی جیسے پھولوں پہ  کیٹ واک کر رہی ہو،

سر کے درمیان سے مانگ نکال کے، کانوں کے اوپر بال اٹھا کے پب بناتی ،

پراندی لال یا کالی ہوتی جس کے پھندنے کمر سے نیچے تک ہوتے،

میک اپ کا زمانہ نہ تھا اور وہ کوئی  کریم پاؤڈر استعمال نہیں  کرتی تھی بس دانتوں پہ  دنداسہ ہمیشہ مارا ہوتا اور ہرنی جیسی آنکھوں میں ہلکا سا کاجل لگا ہوتا، رنگت زیادہ گوری تو نہ تھی لیکن چہرہ دمکتا تھا

لباس تین رنگوں کا ہوتا، کالی ساٹن کی شلوار ہوتی تو شیفون کا کالا دوپٹہ ہوتا اور بوسکی کا کرتا، جو بین والے مردانہ کرتے کی طرح ہوتا بس کمر پر  کسا ہوا ہوتا، کرتا کالا ہوتا تو شلوار دوپٹہ سفید ہوتے، کبھی کبھار سفید کرتے کے ساتھ سلیٹی شلوار دوپٹہ بھی پہنتی تھی،

محلے کے اکثر بچے اس کے ہاتھوں پیدا ہوتے تھے، اس لۓ خواتین کے ساتھ تو اس کی بلا کی بےتکلفی تھی ہی، مردوں کے ساتھ بھی اسی وجہ سے راز و نیاز رہتے تھے، اس کے پاس تولیدی امور سے متعلق نسخے بھی تھے،مطلب یہ کہ وہ محلے کی گائناکالوجسٹ تھی،

اب خاندان میں لڑکوں میں سب سے بڑے ہونے، شکل سے بہت ہی بھولے دکھائی دینے کی وجہ سے ہمیں ہی اکثر چاچی رکھی کو اس کے گھر سے بلانے بھیجا جاتا تھا، جو تھا تو ہمارے گھر کی عقبی گلی میں، لیکن دو گلیاں گھوم کے جانا پڑتا، بچپن سے اس کے گھر جانے کی وجہ وہاں لگی بیری  تھی جس پے لگے بیر توڑ کے کھانا اس وقت کی عیاشی تھی،

ہم آٹھویں کا امتحان پاس کر چکے تھے،

ایک دن چچی نے دوپہر کو اسے  بلانے بھیجا ،گرمیاں تھیں، ہم ڈیوڑھی پار کر کے صحن میں گۓ ادھر ادھر دیکھا تو کوئی نہیں  تھا

ہم نے چاچی چاچی کی دو چار آوازیں لگائیں، تو سامنے غسل خانے کا دروازہ ہلکا سا کھلا، تو ہم نے چاچی کی جھلک دیکھی اور سنا اس نے کہا

“دو منٹ میں نکل رہی ہوں،”

اور وہ تہمد اُڑسے، تولیہ چھاتی پے ڈالے ہمارے سامنے سے گزر کے کمرے میں گئی، ہمارا گلا خشک ہو گیا، کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں، سینے پے کھجلی ہوئی، ہتھیلیوں پہ  پسینہ آ گیا، تن بدن میں تپش سی محسوس ہونے  لگنے لگی، اور ہم کھڑے کے کھڑے رہ گۓ، سانس کا پتہ نہیں  لیکن چھاتی میں دھڑکن کی آواز آ رہی تھی

وہ کپڑے پہن کے اور تولیہ سر پر  لپیٹے کمرے سے نکلی تو ہمیں غور سے دیکھا ،اس کی آنکھوں کے ڈھیلوں کی سفیدی گاۓ کے کاڑھے ہوۓ دودھ کے رنگ کی ہو گئی، ہمارے پاس آ کے منہ ہاتھوں میں تھام کے کہا،

” اوہ منہ تپ رہا ہے، کیوں ” پکڑ کے چارپائی پر ساتھ بٹھایا، بازو کمر پہ  لپیٹ کے چمٹا لیا، اس کے بدن سے ایک عجیب خوشبو آ رہی تھی، کہ آہٹ سی ہوئی  تو اٹھ کے ایک پڑیا پکڑا کے کہا چچی کو جا کر دے  دو ،

کہنا یہ کھا لیں میں بھی ابھی آتی ہوں، تم اب جاؤ،

ہم اس کے گھر سے باہر نکلے تو چاچی والا سابقہ وہیں گر گیا اب وہ ہمارے لۓ بھی رکھی ہی رہ گئی، اور محلے کے سارے چاچے مامے ہمیں برے لگنے لگے،

اس رات ہمیں سخت تیز بخار ہوا، پڑوسی حکیم شاہ جی کو بُلایا گیا، تو کمرے میں وہ اور ہم تھے،انہوں نے پوچھا کہ دن میں کس سے ملے ہم نے بتا دیا تو انہوں نے دم بھی کیا اور دوا بھی دی، جاتے ہوۓ بتا گۓ کہ اب سو جاؤ گے اور صبح اٹھ کے نہا ضرور لینا، اس رات سے ہماری جوانی بہنے لگی،

دنوں میں مسیں بھیگ گئیں بغلوں کے نیچے بال نکل آۓ، چھاتی پے گلٹیاں ابھر آئیں ، ہم روزانہ صبح مسجد میں جاتے وہاں نہا کے نماز پڑھ کے آتے،

محلے میں بچے ہونے بند ہو گۓ یا کسی اور وجہ سے ہمیں رکھی کے گھر جانے کو کوئی  نہیں  کہتا تھا، ہاں رکھی سے گلی محلے میں ملاقات تو ہوتی اور اس رات ہمیں بخار بھی ہو جاتا، لیکن سکول اور دوستوں کے ساتھ مصروفیت رہتی۔۔

اکیلے میں اکثر رکھی کو ہم اپنے آس پاس ہی محسوس کرتے تھے،

ہم کالج میں پہنچ چکے تھے، محلے میں رشتہ دار کی شادی تھی اور رات کو لوک گیت والوں کی محفل تھی، ہماری تایا کی بیٹی شادی کے بعد پہلے بچے کی پیدائش کے لۓ میکے آئی  ہوئی تھی، اس کی طبیعت خراب ہو گئی  تو تائی  نے ہمیں بلا کے کہا کہ کوئی  اور موجود نہیں  تم بھاگ کے رکھی کو اس کے گھر سے بلا لاؤ، اور ہمیں جانا پڑا ،راستے بھر ہم یہ سوچتے گۓ کہ دیکھیں اس ملاقات میں کیا حاصل ہوتا ہے، دل میں دبے لفظوں میں وصل کی سوچ آتی جاتی رہی،

دروازہ بند تھا، کھٹکھٹایا، تو رکھی کے میاں نے کھولا، سلام کیا تو اس نے چُپ رہنے کا اشارہ کیا، ہاتھ پکڑ کے اندر اسی برآمدے میں لے جا کے اسی چارپائی پر  بٹھا کے آہستہ سے کہا کہ انتظار کرو، اور رسوئی  میں چلا گیا،

سامنے اسی کمرے میں لکڑی کے تخت پوش پر لگا کوئی  گٹھڑی پڑی ہے،

پھر اس میں کچھ حرکت سی محسوس ہوئی ، ہچکی جیسی آواز آنے لگی،

اور تھرتھراہٹ سی بھی لگی، رکھی کا میاں اتنی دیر میں دودھ کا پیالہ لے آیا

پکڑاتے ہوۓ سرگوشی کی، یہ پیئیں ، رکھی تہجد پڑھ چکی ہے بس چند منٹ میں سجدہ شکر سے فار غ ہو جاۓ گی،

دودھ کا گھونٹ گلے میں اٹک گیا، اُچھو آیا تو آواز سن کے رکھی کمرے سے باہر آگئی ، دوپٹّے سے منہ صاف کیا، پیٹھ سہلائی، گالوں پے چٹکی لے کے بولی ،

بچپن کی اُچھو لگانے کی عادت نہیں گئی ، آج بھی اس کے بدن سے وہی خوشبو آرہی تھی، لیکن آج ہمارا ذہن اسے شہوانی نہیں  روحانی ماننے پر مجبور تھا،

ہم نے کہا،آپ کو تائی نے بلوایا ہے چاچی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

گالوں پہ  پھر چٹکی لے کے بولی، کہا نا ،،تیری تے میں چاچی نہیں۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply