عدم برداشت

پہلی مرتبہ عدم برداشت کا صحیح مطلب ایک منعقدہ سیمینار میں سمجھ آیا ۔ہوا کچھ یوں کہ ایک دوست سے معلوم ہوا کہ لاہور میں ایک سیمینا ر منعقد ہونے کو جا رہا ہے ۔ مزید استفسار پر بتایا کہ سیمینار کا باقاعدہ موضوع بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے سبب پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل ہیں۔ سوچا کہ چلو دیکھ آئیں عدم برداشت میں ایسی کیا بات چھپی ہے جو معاشرہ مسائل سے دو چار ہے ۔ خیر مقررہ وقت پر ہال پہنچے تو بدقسمتی سے گیٹ پر ہی دھر لئے گئے ۔ ہال انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ صدر مملکت کا گذر یہاں سے ہونا ہے، تب تک ہال میں کسی فنکشن کی اجازت نہیں۔ اب سیمینا ر انتظامیہ پر یہ صورت حال کافی گراں گزری ۔ تقریبا ًایک گھنٹہ دھوپ میں کھڑے رہنے پر سیمینار انتظامیہ نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ جس پر انتطامیہ نے ہال کے دروازے کھول دیے ۔ کچھ یوں اس عدم برداشت سے آگاہی پر سمینار کا آغاز ہوا۔اتنی خوشی رہی کہ وہاں جانابے کار نہ رہا ایک سبق لے کر آیا۔
ہم لوگ جذباتی ہیں۔ ایک بات تو سمجھ میں آئی۔ جذباتیت ہماری رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے ۔ ہر وقت باہر آنے کیلئے کسی موقعہ کی تلاش میں ۔ جیسے پٹاس کو بڑھکنے کیلئے معمولی سی حرات درکار ہوتی ہے ،ویسا ہی حال ہمارا کچھ ہے۔ ذرہ بر بات پر یہ ہتھیار سنبھالے کھڑے ہوتے ہیں ۔ لیکن اس کی وجہ جو بنتی ہے وہ خود غرضی ہے ۔ صرف اپنے غرض سے سروکار رکھنا اور کسی دوسرے کو خاطر میں نہ لانا۔ اگر کبھی کہیں اپنی ذات کی نفی دیکھ لی تو فورا ًآگ بگولا ہوجانا۔ جذباتیت کی اس انتہا کا سبب کیا بنا ؟اس کا الزام زیادہ تر معاشرے کے سر کیا جاتا ہے ۔ انسان جس جگہ زندگی گزارتا ہے اردگرد معاشرے کا اس کی ذات پر اثر ہوتا ہے،جس کا گہرا تعلق نفسیات سے ہے ۔ جس قسم کاماحول انسان کو اپنے اردگرد دیکھنے کو ملے گا اس کے گہرے اثرات انسانی ذہن پر بھی ہونگے ۔ جذباتیت کی ایک یہی خوبی ہے جس کا استعمال الٹ کیا جاتا ہے ۔ اب یہ بات تو سب کو معلوم ہوتی ہے کہ کسی معاشرے کے انسان پر گہرے اثرات ہوتے ہیں لیکن جذباتیت میں انسان ذات کی نفی کی ڈر سے یہ بات بھول جاتا ہے کہ خود انسان کے کسی معاشرے پر کیا اثرات ہوتے ہیں ۔
عدم برداشت کی ایک دوسری بڑی وجہ جو دیکھنے میں آتی ہے وہ توقعات ہیں۔ ان کا پہلے سے بہت گہرا تعلق ہے ۔ پہل میں سمجھتا تھا کہ شاید انسان بذات خود اکیلا ہے ۔بظاہر بھی ایسا ہی ہے اب ایک شخص اکیلا ہی دکھائی پڑے گا۔ لیکن شاید بات اس کے برعکس تھی ۔ خیر اسی ادھورپن میں انسان تعلقات قائم کرتا ہے ۔ اب جو باہم خوبی جذباتیت اور توقعات میں دیکھنے میں آئی وہ یہی ان کا الٹ استعمال ہے ۔ انسان تعلقات تو قائم کرتا ہے ۔ لیکن اس کیلئے اسے توقعات کی بیساکھی استعمال کرنا پڑتی ہے اور ایک مرتبہ پھر وہ اس کا صرف اپنی ذات کی حد تک استعمال کرتا ہے ۔ شاید اک سبب بزدلی ہے ۔
عدم برداشت بنیادی طور پر کسی چیز میں برداشت کی کمی کا نام ہے ۔ جب کسی بھی شے کی برداشت یا ہمت سے کوئی قوت بڑھ جائے تو عدم برداشت کی صورت واضح ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی لوہے میں عدم برداشت کب واقعہ ہوگی جب کوئی بیرونی قوت کا اثر اس کی ذاتی مضبوطی سے بڑھ جائے جس کے نتیجے میں اس کی شکل بگڑ جاتی ہے ۔ یہی بگاڑ عدم برداشت کا حاصل ہے ۔ انسان ہو یا کوئی اور شے عدم برداشت کی صورت میں بگاڑ لازم ہے ۔ اور جب کوئی شے بگاڑ کا شکار ہوتی ہے تو اپنے اردگرد خلا میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے ۔ تبھی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور یہ بات معاشرے کے خاتمے کا باعث بنتی ہے ۔
عدم برداشت کا مظاہرہ روز مرہ عام دیکھنے کو ملتا ہے ۔ معاشرے کے چھوٹے طبقے سے لے کر بڑے تک ،یہی صورت اور اس سے پیدا کردہ مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ سفر کے دوران بس میں سوار مسافر ہوں یاسڑک پر چلتی دیگر گاڑیاں ، آفس کے چپڑاسی سے لے کر کلرک تک، یہاں تک کہ درس گاہوں میں موجود طلبا اور کبھی کبھی یہ اساتذہ کرام میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے ،مارکیٹ میں دکاندار سے لے کر گاہک تک سب کے سب ہمت ہار بیٹھے ہیں ۔ یہ عدم برداشت ہمت ہارنے کی صورت میں ہی تو ہے ۔
انسان کو جو چیز دوسری مخلوقات سے افضل کرتی ہے وہ اس کی سمجھ بوجھ ہے ۔انسان کو عقل عطا کی گئی تاکہ وہ اچھے برے میں تمیز کرسکے ، وہ اندھیرے اور اجالے میں فرق جان سکے ۔ اس سارے عمل میں سب سے مزیدار بات جو ہے وہ یہ کہ اس عقل کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیگر حس جن میں قوتِ بینائی ، قوتِ گویائی وغیرہ شامل ہیں کی حدود مقرر کر دی گئی ۔لیکن عقل کو لامحدود رکھا گیا۔ شاید جس کے استعمال سے دیگر کو لامحدود کیا جاسکتا ہو جیسے ریاضی میں لامحدودیت کے ساتھ کوئی رقم جڑتی ہے تو وہ اسی لامحدودیت میں سما جاتی ہے ۔ خیر افسوس اس بات کا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسی لا محدودیت کے سمند ر میں وہ دیگر کو لامحدود کرتا اس نے اپنی عقل کو ہی اپنی ذات تک محدود کر لیا۔ یہ عمل معاشرتی برائیوں کا باعث بنا جس نے معاشرے کے بگاڑ میں اپنا کردار ادا کیا عدم برداشت انہی برایؤں میں سے ایک ہے ۔
ان سب میں شاید انسان کی پرورش کا بھی اثر ہوتا ہے ۔ انسان پیدائش سے لے کر عاقل و بالغ ہونے تک اپنے والدین پر منحصر ہوتا ہے ۔ اس وقت اسے نفع و نقصان کی کوئی خبر نہیں ہوتی اور اسے فیصلے کیلئے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ۔لاشعوری سے شعور کے اسی سفر میں بعض اوقات وہ ان سہاروں کا اس حد تک محتاج ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو اپنی ضرورت بنا لیتا ہے ۔ اب اس کی مثال کنویں کے مینڈک جیسی ہوجاتی ہے جسکےپاس اچھلنے کودنے کو ساری دنیا تو ہے لیکن اس نے اپنے کنویں سے باہر کبھی قدم نہیں رکھا اور اسی کشمکش میں ساری زندگی گزار دیتا ہے۔بعض اوقات انسان کو اس ساری صورت حال کا علم تو ہوجاتا ہے لیکن پھر اس کی ذات اسے اپنے تک ہی محدود رکھتی ہے اور وہ دوسرے لوگوں پر اس کی ذ مہ داری عائد کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے لیکن کہیں اندر ہی اندر وہ اس سے چھٹکارے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن پھر جلد ہی اکتا کر دوبارہ پہلے جیسا ہوجاتاہے ۔
اب اس سب کا حل کیا ہے ۔ کیسے اس عدم برداشت کی صورت حال سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات جان لینی چایئے کے معاشرے کی بنیادی اکائی فرد ہے ۔فرد نے ہی معاشرے کی تشکیل کرنی ہے ۔ معاشرے میں موجود ہر فرد معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔وہ بذات خود اسکی تعمیر و ترقی یا تباہی کا باعث بنتا ہے ۔اپنے معاشرے کو کیسے چلانا ہے اس کافیصلہ خود اسے کرنا ہوتا ہے ۔ اکنامکس کا ایک اصول ہے کی بہترین نتائج اس صورت میں حاصل ہونگے جب فرد اپنے فائدے کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد کے نفع کو بھی سامنے رکھ کر فیصلہ کرے ۔ اب چونکہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کوٹ کوٹ کر بھری ہے تو اس کا کیا حل ہونا چاہیئے ۔ اسکے لئے فرد کو بذات خود بہتر ہونا پڑے گا۔ لیکن ہم اس کے حل کی تلاش میں بھی اپنی عقل کو محدود کر لیتے ہیں ۔
ہمیں یہ بات تو معلوم ہے کہ کسی بھی فن کو ایک دن میں حاصل نہیں کیا جاسکتا یا اس کو برقرار رکھنے کیلئے مسلسل محنت کرنا پڑتی ہے لیکن ہم یہاں یہ کلیہ بھول جاتے ہیں اور فورا ًاس صورت حال سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ نتیجہ اسی کی صورت میں دیکھنے کو مل جاتا ہے ۔اب چونکہ ہم نے اس بات کو تسلیم کر ہی لیا ہے کہ یہ بیماری ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور اس کے وائرس ہر انسان میں منتقل ہوتے ہیں توہم کیوں اس بیماری سے چھٹکارا پانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ یا کرتے بھی ہیں تو ایک یا دو دن، اس کے بعد پھر پہلے جیسے ۔ موٹاپا ایک بیماری ہے ۔ جو لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں وہ روزانہ صج و شام کو ورزش کرتے ہیں اور اس کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں ۔
اب انہیں شروعاتی کچھ عرصہ تو دقت ہوتی ہے اور ان کا ورزش کا دورانیہ کم ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے یہ ان کا معمول بنتی جاتی ہے اور وہ اس کے عادی ہوجاتے ہیں ان کے ورزش کے دورانیہ میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ پہلے سے مزید فاصلہ طے کرتے جاتے ہیں ۔جو ان کی صحت کا باعث بنتی ہے ۔اسی طرح عدم برداشت سے چھٹکارا بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ایک دم نہیں روز بہ روز تھوڑا تھوڑا اپنی توقعات اور خود غرضی کو مار کر اس کی شروعات کر سکتے ہیں اور اس کو اپنا معمول بناسکتے ہیں تب ہی ہمیں برداشت کی عادت ہوسکے گی اور ہم آہستہ آہتہ اس میں اضافہ کر کے اس بیماری کو ختم کرکے ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کرسکیں گے ۔

Facebook Comments

جہانزیب بٹ
کھوٹا سِکہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عدم برداشت

Leave a Reply