میں حتی الامکان کوشش کررہا تھا کہ اس بات کو موضوعِ بحث نہ بناؤں ،لیکن کیا کیجیے کہ حالات کا تقاضا ہے اور قلم کو جنبش دینا پڑگئی۔ براہِ راست موضوع کی طرف آتے ہوئے اس معاشرے سے سوال کرنا چاہوں گا جو عورت اور مرد کے مساوی حقوق کی بات کرتا ہے۔ جو معاشرہ صبح شام آزادیِ اظہارِ رائے کی گردان کرتے نہیں تھکتا۔ کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کو گالی دینے سے استثناء حاصل ہے؟ کیا عورت ہونا آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جب چاہا اور جوبول لیا، جو چاہا کہہ لیا؟ آپ خلیل الرحمان صاحب اور ماروی سرمد صاحبہ کے درمیان ہوئی بحث لے لیجیے یا پھر خلیل الرحمان صاحب اور طاہرہ عبداللہ صاحبہ کے درمیان چند ہفتے پہلے ہوئی گرما گرمی کو یاد کیجیے۔ میں نے اس بحث کے حق اور مخالف دونوں کے محور میں خلیل الرحمان صاحب کی ذات کو تنِ تنہا کھڑا پایا۔ کسی نے اس بات کو موضوعِ بحث لانے کی کوشش نہیں کی کہ گفتگو کے آداب کو دونوں دفعہ خلیل الرحمان صاحب کے مخالف بولنے والی خواتین نے توڑا۔ لیکن شاید عورت ہونے کی رعایت دیتے ہوئے کسی نے بھی ان دونوں خواتین کے خلاف بات کرنے کی ہمت نہیں کی۔
یہ بات آن دی ریکارڈ اب بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ خلیل الرحمان صاحب نے دونوں دفعہ اپنے مخالفین کے ناموں کے ساتھ ناصرف صاحبہ کا اضافہ کر کے مخاطب کیا بلکہ ان کی بات کو بڑے احترام اور تحمل سے بغیر کوئی لقمہ دیئے سُنا بھی۔ لیکن جب خلیل الرحمان صاحب نے اپنا نقطہ نظر پیش کرنا شروع کیا تو انہی خواتین نے خلیل الرحمان صاحب کی بات میں نا صرف لقمے دیئے بلکہ بہت بے ہودہ طریقے سے گفتگو کے آداب کو پامال کیا۔ کیا عورت ہونا آپ کو بدتمیزی اور لحاظ پامال کرنے کی رعایت دیتا ہے؟ شاید اس لیے کہ اس نام نہاد یکساں حقوق کے کھوکھلے نعرے لگانے والے معاشرے میں عورت کا مرد سے بدتمیزی کرنا معمولی سمجھا جاتا ہے اور مرد اگر ذرا سا اونچا بھی بول دے تو قیامت اٹھا دی جاتی ہے۔ میں خلیل صاحب کی اس بات کا حامی ہوں کہ اگر دلائل سے بات کرنی ہے تو لے آئیے دلائل اور کر لیجیے بحث۔ لیکن وہ معاشرہ کیسے ترقی کرپائے گا جہاں ایک گروہ جو آزادیِ اظہارِ رائے کے حق میں نعرے لگاتے نہ تھکتا ہو اور جب کوئی ان کے مزاج
کے خلاف بات کرنے کی کوشش بھی کرے تو وہ مخصوص گروہ اس کا منہ نوچ لینے کو دوڑ پڑتا ہو۔ تھوڑا نہیں پورا سوچیے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں