مینوں چھڈ دیو۔۔۔شاہد عباس کاظمی

پاکستان میں انتخابات کا ہنگامہ شروع ہوتے ہی فیچر فلم “مینوں چھڈ دیو” کا آغاز بھی ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے   انتخابات 2018   کا ہنگامہ  آگے بڑھ رہا ہے یہ فلم بھی ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ اس دفعہ یہ سابقہ تمام ریکار ڈ بھی توڑ دے۔ پاکستان ایک ایسا خوش قسمت ترین خطہ ہے جہاں سیاسی فلمیں بلاک بسٹر ہٹ ہوتی ہیں۔ سماجی و معاشرتی مسائل کی فلمیں دوسرے درجے کی کامیابی  بمشکل حاصل  کر پاتی ہیں  اور حساس موضوعات پہ بنائی گئی فلمیں سرے سے ناکام ہی ہوتی ہیں اور سرمایہ لگانے والے کو اس حال میں لے آتی ہیں کہ اس بے چارے کو ادھار چکانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ لہذا مستبقل قریب میں بعید نہیں کہ پاکستان میں سیاسی فلمسازی بھی باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کر لے۔

“مینوں چھڈ دیو” فلم اس وقت کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے مگر حیران کن طور پر فلم کے دائریکٹر اور پروڈیوسر کا نام و نشان نہیں ہے۔ کہنے کو یہ فلم اللہ کے آسرے پہ چل رہی ہے۔ مصطفیٰ کمال کراچی سے کاسٹنگ کر رہے تھے۔ مگر اب جنوبی پنجاب سے بھی نئے فنکار سامنے آئے ہیں ۔ اندرون سندھ کے فنکار تو ہمیشہ سے سیاسی فلموں کی جان رہے ہیں۔ اس فلم کی عکسبندی پاکستان کے کونے کونے میں کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ مل سکے۔ اور عوام کو ان علاقوں سے بھی شناسائی ہو پائے جہاں اس فلم کے اداکار خود بھی جانا کم ہی گوارا کرتے ہیں۔

اس فلم کی خاص بات   فلم کا سکرپٹ ہے رائٹر کا پتہ نہیں مگر اس فلم کا ہٹ سین یہ ہے کہ ہر اداکار ایک مخصوص انداز سے بازو فولڈ کر کے عوام کے سامنے آتا ہے اور ایک ہی مخصوص ڈائیلاگ ادا کرتا ہے کہ “مینوں چھڈ دیو” یعنی وہ عوام سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ مینوں چھڈ دیو کہ میں ملک کی تقدیر بدل دوں گا، مینوں چھڈ دیو کہ میں پانچ سال جو اقتدار سے چمٹا رہا ہوں کہ کوئی مائی کا لال مجھ سے سوال پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ انقلاب کا کیڑا انتخابات سے چند ماہ پہلے ہی مجھ میں کیوں پھڑکا، میںنوں چھڈ دیو کہ میں اس عوام کا حاکم ہوں جو ایک بریانی کی پلیٹ اور گھر سے پولنگ سٹیشن تک گاڑی میسر کرنے کی سہولت پہ اپنا ووٹ دے دیتا  ہوں ، مینوں چھڈ دیو کہ میں پاکستانی کو امریکہ سے بھی بڑی سپر پاور بنا دوں گا، مینوں چھڈ دیو کہ میں پاکستان کو اقوام عالم میں نمبر ون بنا دوں گا۔

ان کے اس مخصوص ڈائیلاگ میں حیران کن طور پر جذباتیت کا تڑکا ہمیشہ انتخابات سے پہلے ہی لگتا ہے کیوں کہ پانچ سال انقلاب کی دال بس آگ پہ دھیرے دھیرے پکتی رہتی ہے اسے تڑکے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ تڑکا لگنے سے حاصل شدہ مراعات سے ہاتھ دھونے پڑھ سکتے ہیں  اور ایسا انقلابی فنکار ہرگز نہیں چاہتے۔

عوام کو اس فلم پہ کوئی رائے دینے کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں اتنا ہے کہ جب بھی اس فلم کے کردار مینوں چھڈ دیو کا نعرہ لگائیں تو عوام نے ان کو چھڈنا نہیں ہے یہی اس فلم کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ کیوں کہ عوام نے ان کو چھڈ دیا تو فلم فلاپ ہونے کا خدشہ پیدا ہو جانا ہے۔ اس بات کا امکان شاذ ہی ہوتا ہے کیوں کہ برادری ازم کی بھٹی میں عوام اس طرح کندن بن چکے ہیں کہ وہ اس فلمی نعرے پہ ہاتھ کھڑا کر کے ، گلا پھاڑ جوابی نعرہ لگانے کے سوا کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ یہ بھی پوچھنے سے قاصر ہیں کہ ہمیں اس فلم کا کیا فائدہ، کیا اس فلم کے اختتام پہ ہمیں صاف پانی مل سکتا ہے، کیا ہمیں اس فلم کی کامیابی سے صحت کی سہولیات مل سکتی ہیں۔ عوام یہ بھی ہرگز پوچھنے کے حقدار نہیں ہیں کہ جن علاقوں کی محروموں اس فلم کا بنیادی خیال ہے ان ہی علاقوں میں فلم کے کرداروں کے محلات کیا ہمارے منہ پہ طمانچہ نہیں ہیں۔

عوام دم سادھے بس یہ فلم دیکھ سکتے ہیں، اس فلم پہ تنقید نہیں کر سکتے، حد تو یہ ہے کہ وہ اس فلم کی  توصیف بھی نہیں کر سکتے، ہاں صرف ان کا انگھوٹھا اس فلم کی توصیف کر سکتا ہے وہ بھی بنابولے ، بنا سوال کیا۔کیوں کہ سوال کیا تو جرات جواب نہ ہونے پہ بھی نقصان عوام کا ہی ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آنے والے دنوں میں مزید ایسے مناظر  دیکھنے کو مل سکتے ہیں کہ کوئی موسمی انقلابی فنکار بازو فولڈ کیے، بالوں کو بے ترتیب کیے، نعرہ لگانے کو تیار ہو گا کہ “مینوں چھڈ دیو” میں ہی اس ملک میں انقلاب لے کے آؤں  گا۔ اور عوام سے بس اتنی سی گذارش ہے کہ یہ سوال ہرگز نہ کیجیے گا کہ پانچ سال کیا انقلاب مخملیں گھاس چر رہا تھا جس کا نشہ پانچ سال پورے ہونے کے بعد اترا ہے۔
سوال نہیں، جواب نہیں، خاموشی، ساکت، ہلنا نہیں، بس انگوٹھا ہلے  کہ فلم کامیاب کرنی ہے۔۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply