• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • طلباءِ مدارسِ دینیہ اورفکرِ معاشِ روزینہ و زنانِ شبینہ ۔۔۔۔شاد مردانوی/حصہ اوّل

طلباءِ مدارسِ دینیہ اورفکرِ معاشِ روزینہ و زنانِ شبینہ ۔۔۔۔شاد مردانوی/حصہ اوّل

ملک کے طول و عرض میں پھیلے درس نظامی کے سینکڑوں مدارس سے ہزاروں طلبا اپنی پڑھائیاں مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں اور ان کا یہ زعمِ باطل جو اساتذہ کرام نے ان کو دیا ہے کہ آپ کے قدموں کے نیچے فرشتے پر بچھاتے ہیں اور یہ کہ آپ کے سینے میں چونکہ علومِ قرآنیہ محفوظ ہیں اس لیے آپ ہر دو عالم میں محبوبِ خلائق ہیں ۔۔۔
یہ زعم بس کچھ دنوں میں ایسی کرچیوں میں بٹنے والا ہیں جن کرچیوں سے کوئی محل نہیں بنایا جاسکتا ریت سے البتہ محاورتا ہی سہی کوئی محل تعمیر ہوجاتا ہے لیکن ان جھوٹی طفل تسلیوں کے کرچیوں کی وقعت ریت کے ذروں جتنی بھی نہیں ۔ اور ہاں اگر آپ معاشرے کے لئے کار آمد فرد نہیں ہیں آپ اگر نہ ہی کچھ کما رہے ہیں اور نہ ہی خود سے جڑے افراد کو کچھ کماکر دے رہے ہیں تو فرشتے تو فرشتے آپ کے نطفے بھی آپ کو کچرے سے بڑھ کر اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوسکتے کچرے سے البتہ بجلی بن جاتی ہے آپ کو جلاکر تو تو بجلی بھی حاصل نہیں کی جاسکتی ۔

یہ بھی پڑھیں:مدارس کے طلبا کے نام۔۔۔ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے ۔۔؟

دیکھ بھائی آپس کی بات ہے اللہ کو منانے کے چکر میں دنیا کے مفاد سے منہ موڑنا شدید تر حماقت ہے اللہ جی کو عمروں کی رہبانیت نہیں چاہیے اس کو بس پانچ منٹ میں منایا جاسکتا ہے میرا یقین کیجیے اور یہ بات پلے باندھ لیجیے کہ

استغفار کیلئے جن آنسوؤں کی ضرورت ہوتی ہے ان آنسوؤں کا وجود بدن میں دانہ گندم کی موجودگی سے مشروط ہے ۔۔۔

تو اگر آپ کے والد صاحب کا مدرسہ ہے ، کسی مسجد کے پیش امام ہیں ، کہیں سے خلعت خلافت ملی ہے یا علی الاقل کسی مذہبی جماعت میں چھوٹے موٹے عہدے دار ہیں تو کسی اور کاروبار کے بارے سوچنا بھی مت ۔ مذہبی انڈسٹری آئندہ پچاس سالوں تک بالیقین انتہائی نفع بخش انڈسٹری ہے اور اس پر زوال کا کوئی اندیشہ نہیں پچاس سال میں آپ کی نئی نسل جوان ہوچکی ہوگی ان کا پھر اللہ مالک

اور اگر آپ کے والد صاحب نے بدقسمتی یا خوش قسمتی سے مذہبی کارپوریشن کی کسی بھی قسم کی فرنچائز نہیں لی ہوئی بلکہ رزق حلال کمارہے ہیں اپنا کارخانہ ، دکان یا تجارت کی کوئی بھی قسم سنبھالے ہوئے ہیں تو خدارا ”دین کی خدمت“ نامی دھوکے میں آکر کسی مسجد کی امامت یا مدرسے کی تدریس میں پڑ کر اپنا مستقبل اور والد صاحب کی امیدوں کو خاک میں نہ ملائیں ۔ آپ کے والد نے جس کام کو عمر دی ہے اور آپ کی تعلیم کے اخراجات برداشت کئے ہیں اب آپ کا پہلا فرض یہی بنتا ہے کہ والد صاحب کے قدموں میں بیٹھ کر ان کا احسان مند ہوکر ان سے کہیے کہ ابو جی آج کے بعد میں آپ کے کام میں آپ کا دستِ راست ہوں آپ مجھے تجربہ دیجیے مہارت دیجیے اور اس کے بعد بے فکر ہوکر دنیا گھومیں ، سال بہ سال مدینہ جائیں اور آپ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کو میں موجود ہوں ۔ جب آپ کام سنبھال لیں تو پھر شوق سے کسی بھی مدرسے میں صبح کے اوقات دین کی خدمت اور مخلوق خدا کو سکھانے میں صرف کیجیے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply