• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اپنی لا محدود سوچوں پر کیسے قابو پایا جائے ؟۔۔۔۔۔۔میاں جمشید

اپنی لا محدود سوچوں پر کیسے قابو پایا جائے ؟۔۔۔۔۔۔میاں جمشید

آپ نے پنجابی کا یہ محاورہ تو ضرور سنا ہو گا کہ “سوچی پیا، تے بندا گیا”۔۔۔ تو جناب، سوچنا بہت اچھی بات ہے تبھی ہم بہترین فیصلہ سازی کر سکتے ہیں ، مگر حد سے زیادہ سوچنا، سوچوں پر قابو نہ پانا جہاں ہم میں چڑچڑاپن پیدا کرتا وہاں پر اچھا و بروقت فیصلہ کرنا بھی بس میں نہیں رہتا۔ ہم الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم کئی اہم مواقع ضائع کر دیتے اور پھر بعد میں پچھتاتے ہیں۔ اچھا سوچنا اور بر وقت سوچ کر فیصلہ کرنا ہی ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ تو جناب اگر آپ بھی سوچتے میں بہت وقت گزار دیتے ہیں ، سوچوں میں کھو کر وقت ضائع کردیتے ہیں ، بر وقت فیصلہ نہیں کر پاتے، تو صاحب میرا آج کا مضمون خاص آپ کے لیے ہی ہے۔ آپ نے بس میری آگے لکھی جانے والی صرف7 باتو ں پر عمل کرنا ہے جس سے آپ کو اپنی لامحدود سوچوں پر قابو پانا ضرور آجائے گا ان شااللہ۔

مجھے فلاں دن یا وقت تک لازمی فیصلہ کر لینا ہے بس۔

اپنی سوچوں کو کسی بھی بات یا کام پر سوچنے کے لیے ایک حتمی ڈیڈلائین دیا کریں۔ یہ نہیں کہ اچھا دیکھتے ہیں ، سوچتے ہیں ، وغیرہ۔۔ بالکل بھی ایسا نہیں کرنا۔ ایک حتمی وقت مقرر کرنا ہے کہ جس کے اندر اندر آپ نے سوچ کر فیصلہ کرنا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ہم کھلے ڈلے ہو کر سوچتے ہیں تو ہماری کام کی اچھی سوچوں کے ساتھ فضول ، وقت برباد کرنے والی سوچیں بھی دماغ میں آنا شروع ہو جاتی ہیں ، ہمیں قابو تو پہلے ہی نہیں کرنا آتا تو اس طرح اور کمزور ہوجاتے۔ اصل کام والی سوچیں کہیں اور چلی جاتیں اور ہم غیر اہم سوچوں میں کھو جاتے بس۔ مگر جب آپ خود کو ، اپنے دماغ کو آرڈرلگاتے کہ مجھے صرف فلاں کام کے لیے فلاں دن و وقت تک اچھا سوچ کر فیصلہ کرنا ہے تو ذرا دماغ جی بھی سیٹ ہو کر ، اپنی حد میں رہ کر کام کرتے۔

اپنی سوچوں کو ریسٹ دیں ذرا۔

جب اچھا سوچنے کو دل نہ کر رہا ہو، کچھ بھی سوچنے کا موڈ نہ ہو رہا ہو تو آرام کریں بس، خواہ مخواہ اور زبردستی نہیں سوچنا شروع کردینا میرے بھائی۔ اگر بہتریں فیصلہ کرنا ہے تو تسلی رکھیں ذرا، اپنے دماغ کو ریلیکس کرنے دیں۔ بے چینی میں ، پریشانی میں یا الجھن میں رہ کر آپ کبھی بھی کارآمد نہیں سوچ سکتے۔ تب لامحدود سوچوں کا ساتھ مزید بڑھ جائے گا۔ کہیں چلیں پھریں ، کچھ کھا پی لیں ، گپ شپ کریں ، کچھ پسند کا پڑھیں یا دیکھیں یا پھر سو جائیں۔

سوچوں کو لٹکانا نہیں ، ٹال مٹول نہیں کرنی۔

جب ایک حتمی وقت مقر ر لیا سوچنے کا، آرام بھی ہوگیا توجناب پھر فیصلہ کے متعلق سوچنے میں ٹال مٹول نہیں کہ اچھا کل سوچیں گے آج ڈرامہ دیکھ لوں ،فلاں کوئی غیراہم کام نبٹا لوں ، فلاں جگہ جا کرسوچوں گا، وغیرہ۔۔جتنا آپ لیٹ کرو گے اتنی ہی غیر ضروری اور لامحدود سوچیں آپ کے دماغ میں آتی جائیں گی۔ ان فضول کی سوچوں سے آپ کے دماغ نے تھک جانا اور جب اصل معاملہ کو سوچنے لگنا تو پھر دل نہیں کرنا سوچنے کو۔ اس لیے صاحبو، اپنے سیٹ کیے ہوئے حتمی وقت کے اندر اندر سوچنا شروع کر کے اپنے فیصلہ کو حتمی شکل دیں۔ آپ خود جتنی توانائی اور دلچسپی سے بروقت سوچنے کا آغاز کریں گے تو دماغ جی بھی ویسا ہی عمل کریں گے۔

صرف سوچوں پر ہی گزارہ نہیں کرنا صاحب۔

آپ نے حتمی وقت کے اندر بہتریں سوچ بچار کے ساتھ جب کوئی فیصلہ کر لیا ہے تو پھر مزید نہیں سوچنا جب تک پہلے سوچے گئے فیصلے پر حرکت وعمل نہ کر لیں۔ اگر کسی کام کے متعلق ایک سے زیادہ راستے نکالیں ہیں تو باری باری سب پر عمل کر کے دیکھیں اب۔ اگر آپ صرف سوچتے جائیں گے ، عمل کرتے ڈریں گے کہ متوقع نتیجہ نہ نکلا تو پتا نہیں کیا ہو گا ، تو یقین مانیں آپ کبھی بھی بہترین فیصلہ سازی نہیں کر پائیں گے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ نتیجہ کے بارے میں سوچنا اچھی سوچ کا ہی حصہ ہوتا ہے مگر اصل پتہ عمل کے بعد چلتاہے۔ پھر جو کمی و کوتاہی رہ جاتی ہے وہ نظرثانی کے وقت پوری کر لی جاتی ہے۔ مگر یہ نہیں کہ سوچنے کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ گے کہ جب اچھا سب پرفیکٹ ہو گا تبھی عمل بھی کریں گے تو بس پھر سمجھیں کر چکے آپ کام۔

“سب کچھ” آپ کے اختیار میں نہیں ہوتا۔

اگر ہم یہ والی بات پلے باندھ لیں تو یقین کریں ہم بہت آسانی سے اور بروقت فیصلہ کرنے کے قابل بن جائیں۔ مگر ہم سوچتے ہیں کہ جیسا ہم نے سوچا ہے سب ویسا ہی ہو تو ایسا ہونا اس دنیا میں تو ممکن نہیں میرے دوست۔ ہم ایک ہی وقت میں مجبور بھی ہیں اور مختار بھی۔ جن باتوں یا کاموں پر آپکا اختیار نہیں ہوتا انکو بلاوجہ سوچنا سوائے وقت کے ضیاع کے اور کچھ نہیں ہے۔ ایسے ہم فصول میں ذہنی دبا?کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی بے اختیار باتوں و واقعات کو اللہ پر بھروسہ رکھتے وقت پر چھوڑ دینا چاہئے بس۔غلط فیصلہ کر لینا یا نتیجہ کا سوچ کے برعکس نکل آنا ہی ہمیں بتاتا ہے کہ ہم آخر کار انسان ہیں ، کوئی فرشتہ نہیں ہیں۔ کچھ ایسا ہو جانے کے بعد مسلسل سوچنا ہماری الجھنوں میں اضافہ ہی کرتا ہے بس۔

اپنے ماحول کو مثبت وحوصلہ افزاء رکھیں۔

یاد رکھیں کہ آپ ویسا ہی سوچتے ہیں اور اثر لیتے ہیں جس طرح کا آپ کے اردگرد کا ماحول ہوتا ہے۔ آپ اداسی والے ماحول میں رہیں گے، ویسا مطالعہ کریں گے ، اداسی کے گیت سنیں گے تو صحت مندانہ فیصلہ نہیں کر پائیں گے۔ اچھی و حقیقی سوچوں کے لیے آپ کا حوصلہ افزائ گردوپیش میں آنا بہت ضروری ہے۔ توانا و پرجوش لوگوں میں رہنے سے اور ویسا ہی مطالعہ کرنے سے آپ کی سوچ بھی مضبوط ہوتی۔ آپ کو اپنی سوچوں پر قابو پانا آنا ہے۔ کتنا سوچنا ہے ، کب اور کیسا سوچنا ہے ، ان تمام کاموں کوکرنے کے لیے اپنے ماحول کو لازمی مثبت بنائیں۔ آپ کی باہر کی دنیا جتنی اچھی ہو گی ، اتنی ہی آپ کے اندر کی دنیا حسین ہو گی۔

پہلے ہی خود سے برا یا الٹا مت سوچیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تم دیکھ لینا ٹرین/بس لازمی لیٹ ہوگی ، فلاں بندہ آج ملے گا ہی نہیں ، مجھے لگ رہا ہے کہ آج کچھ برا ہونے والا ہے ، میں ناکام ہو جا?ں گا، مجھ سے نہیں ہو گا وغیرہ وغیرہ۔۔ براہ مہربانی ایسی باتوں کو عمل کرنے سے پہلے ہی سوچنا چھوڑ دیں۔ اگر ایسی بات ذہن میں آتی بھی ہے تو اس کو الفاظ کی صورت مت دیں۔ ایسی سوچیں آنے پر، دیکھا جائے گا ، اللہ ہے نا، کہہ کر اپنی سوچوں کا رخ اور زاویہ بد ل لیں۔ورنہ ایسی الٹی سوچیں آنے پر شیطان مزید وسوسے آپ کے دل میں ڈالے گا۔ آپ کو کمزور کرے گا۔ آپ کے ذہن میں فضول و لا محدود سوچیں مسلسل آتی جائیں گی۔ ان کا توڑ آپ نے اللہ کی یاد سے کرنا ہے۔ مثبت سوچ خودبخود پیدا ہوتی جائے گی۔

تو دوستو ، ہو سکتا ہے کہ ان تمام باتوں پر عمل کرنا آپ کو شروع میں مشکل لگے مگریقین مانیں ایسا صر ف شروع میں ہی ہو گا بس۔ پھر آہستہ آہستہ آپ کو اچھی سوچ سوچنے، بر وقت فیصلہ کرنے اور اپنی لا محدود سوچوں پر قابو پانے کی صلاحیت آ جائے گی۔ جس سے آپ کی شخصیت و کردار میں مزید نکھار آئے گا۔ ان شااللہ۔

Facebook Comments

میاں جمشید
میاں جمشید مثبت طرزِ زندگی کے مختلف موضوعات پر آگاہی ، رہنمائی اور حوصلہ افزائی فراہم کرتے ہیں ۔ ان سے فیس بک آئی ڈی jamshades پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply