مکالمہ کو دوسری سالگرہ مبارک ۔۔۔۔ عبید اللہ چوہدری

پاکستانی معاشرہ اب ۷۰ سال بعد اپنے ارتقا کے اس موڑ پر ہے جہاں اس کے خدوخال کا دھندلا پن آہستہ آہستہ چھٹ رہا ہے۔ ہر ایک مکتبہ فکر سر توڑ کوشش میں ہے کہ اس کا نقطہ نظر ہی اکثریت کا محبوب نکتہ نظر ٹھہرے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے پیداواری نظام کے زیر اثر اب لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ دو طرفہ بحث و مباحثہ کی روایت کو جاری رکھ سکیں۔ ایسے میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے آ کر ایک راہ دکھائی اور کسی حد تک گفتگو کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔

ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ انسانوں میں فرق نہیں کرتی۔ ایسے میں پھر کئی چھپے ہوئے ہیرے معمولی تراش خراش کے بعد ایسے چمکے کہ بڑے بڑے ستارے بھی ماند پڑ گئے۔ وہ جو آخری صف کے خاموش تماشائی تھے دیکھتے دیکھتے امام بن گئے۔

لیکن یہ سب ہوتے ہوئے بھی اور بہت سارے پاپولر فورم کی موجودگی میں کچھ کمی سی تھی جو آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے روگ بنتی جا رہی تھی۔ اور یہ روگ تھا کہ ہر فورم ایک خاص نکتہ نظر کا پروپیگنڈہ ٹول بن کر رہ گیا تھااور غیر جانبدارانہ مکالمے کی فضا بن ہی نہ  پا رہی تھی۔ اظہار رائے بنیادی انسانی حق ہے، دعوت و تبلیغ پر بھی کسی کو اعتراض نہیں مگر جب اکثر آئن لائین فورم اپنے کمرشل مفادات کے ہاتھوں مکمل طور پر یرغمال بن چکے تھے  تو ایسے میں “مکالمہ “ کا آغاز آکسیجن سے کم نہ تھا۔ مکالمہ کی قیادت اور باقی ٹیم نے جس مہارت سے اپنا اعلی ادارتی معیار اور غیر جانبداری برقرار رکھی اسی کا ثمر ہے کہ ۲ سال کے عرصہ میں ہی مکالمہ نے بے مثال کامیابی حاصل کر لی ہے۔

میں ذاتی طور پر مکالمہ کی سنسر شپ پالیسی کا بھی مداح ہوں ۔ اور یہ اعزاز بھی مکالمہ کو ہی حاصل ہے کہ اس نے اپنی کامیابی کے لیے ولگر اور اخلاق سے گری ہوئی تحریروں کا سہارا نہیں لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں مکالمہ کی دوسری سالگرہ پر اس کی پوری ٹیم اور قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ آنے والے  برسوں  میں مکالمہ مزید ترقی کرے۔ میری تجویز ہو گی کہ مکالمہ رائٹرز کی ایک کانفرنس کا انعقاد مزید آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply