• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “کتھا چار جنمو ں کی”کے خالق” ڈاکٹر ستیہ پال آنند” سے ایک انٹرویو/ قیصر عباس

“کتھا چار جنمو ں کی”کے خالق” ڈاکٹر ستیہ پال آنند” سے ایک انٹرویو/ قیصر عباس

سوال
آپ کی سوانح “کتھا چار جنموں کی ” ایک اہم ادبی عہد کی داستان ہے ۔ اس کا زیادہ حصہ بر صغیر کے اہم لکھنے والو ں سے آپ کی ملاقات اور علمی و ادبی مسائل پر مشتمل ہے۔ اس میں آپ کی ذاتی زندگی، خاندان یا انفرادی ادوار کا تذکرہ کم ہی نظر آتا ہے۔اس کی کوئی خاص وجہ؟
جواب
یہ خود نوشت سوانح نہیں ہے، یاداشتوں کا مجموعہ ہے۔ اس لحاظ سے یہ جوش ملیح آبادی کی “یادوں کی برات” یا ساقی فاروقی کی “پاپ بیتی” یا کشور ناہید کی “ایک پاپی عورت کی کتھا” سے مختلف ہے کہ اس میں ذاتی، موروثی، نسلی، خاندانی متعلقات بالکل نہیں ہیں۔ یاداشتوں کا یہ مرقع میری ادبی ریاضت کی داستان ہے۔ اس میں راقم ایک بُدھّ بھکشو کی طرح ، اپنا کشکول اٹھائے ہوئے ، در بدر “گیان کی بھیک ” مانگتا نظر آتا ہے۔اس لیے وہ ہر اُس دروازے پر دستک دیتا ہے، جہاں سے اسے یہ “بھکشا” ملنے کی امید ہوتی ہے۔ خود سے سینئر اہل قلم جن میں ڈاکٹر ملک راج آنند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، اختر الایمان، ساحر لدھیانوی، پاکستان کے شوکت صدیقی، مشفق خواجہ، ڈاکٹر وزیر آغا ۔۔ اور کئی دوسرے خیرات دینے والے ہیں اور اکیلا میں ہی ان سے یہ خیرات وصول کر کے اپنی جھولی بھرتا رہتا ہوں ۔۔۔ اس کتھا کا پہلا “جنم” البتہ “ڈاکوفکشن” کی تکنیک میں تحریر کردہ ہے، یہ باقی کے تین جنموں سے مختلف ہے۔ اس میں بچپن سے لڑکپن کی پہلی نا پختہ بلوغت کی کہانی ہے جس میں البتہ پنپتی ہوئی شاعرانہ قدرت کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔

سوال
آپ کا شمار اردو ادب کے ان قلمکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو شاعری کو ایک جدید روش سے روشناس کروایا
اردو نظم کو آپ اور دوسرے شعرا نے جو رتبہ دیا ، اس کی بنیاد پر آپ کیا کہہ سکتے ہیں کہ آج اردو نظم کو اس کا مقام مل گیا ہے؟
جواب
جی نہیں ۔۔۔یہ منزل بہت دور ہے۔ اردو کو صنف غزل نے چاروں کھونٹوں  سے باندھ رکھا ہے۔ میں سن2014  کے گزشتہ تین مہینوں میں دو بار پاکستان گیا ۔ پہلی بار کراچی میں تین ہفتے اور دوسری بار اسلام آباد، سیالکوٹ اور لاہور میں دو ہفتے۔۔پھر لگ بھگ ہر برس پاکستان یاترا کرتا رہا۔ ان دو روں کے دوران جہاں میری کھل کر پذیرائی ہوئی اور مجھے نئی اردو نظم کا رہنما بھی کہا گیا، یہ امر بھی کھل کر سامنے آیا کہ غزل کے پیروکار کسی طرح بھی یہ بندھن کھولنے پر راضی نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک غزل اور اردو شاعری ایک ہی صنف کے دو نام ہیں۔مجھے غزل کے حجرے کے نئے مجاوروں، بشمول ظفر اقبال، نے اپنے اخباری کالموں (روزنامہ “دنیا”) میں رومانی جذبے کی شاعری سے پرہیز کی بنا پر “خصّی” قرار دیا، یعنی ایک ایسا شخص جو اپنی مردانگی کھو چکا ہے اور پیری میں ایسی غیر مردانہ باتیں کرتا ہے۔جو رومان پروری ، عشق کی سب منزلوں (یعنی تعشق سے لے کر عشقی حقیقی تک ) سےفراریت اختیار کیے ہوئے ہے۔۔۔۔ لیکن میں بالکل نا امید بھی نہیں ہوں۔ نظم گو شعرا کی ایک نئی پود باقاعدگی سے نظمیں لکھ رہی ہے۔ اس میں پنڈی،لاہور اور پنجاب و خیبر پختونخوا  کے دیگر بڑے شہروں کے نوجوان شعرا شامل ہیں۔ کراچی اس لحاظ سے کچھ پیچھے ہے۔ یہ شعرا آزاد نظمیں بھی لکھ رہے ہیں اور نثری نظمیں بھی ۔۔کچھ ایسے بھی ہیں جو نظم اور غزل ، دونوں اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ان میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔

سوال
انگریزی استاد ہونے کی حیثیت سے آپ کی انگریزی ادب پر گہری نظر ہے۔ آپ اکثر شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اردو کے قلمکار انگریزی ادب سے نا واقف ہیں۔ آپ کے خیال میں ان لوگوں سے یہ توقع کیا غلط نہیں ہے کہ وہ انگریزی ادب کا علم رکھتے ہوں، جو خود انگریزی کے استاد ہیں، بلکہ اردو ، ہندی، فارسی، عربی کے ماہر ہوں۔
جواب
جی نہیں، آپ سے یہ کس نے کہا کہ میں اردو شعرا کو انگریزی ادب کے مطالعے پر اکساتا ہوں؟ جی، بالکل نہیں۔ لیکن عالمی اد ب کی سطح پر یہ کرہّ زمین ایک گلوبل ولیج بن چکا ہے۔ انگریزی اس وقت بین الاقوامی زبان ہے۔ ادھر کوئی اہم کتاب دنیا کے کسی حصے میں بھی چھپتی ہے، اُدھر اس کا انگریزی میں ترجمہ ہو کر کینیڈا، امریکا، برطانیہ میں شائع ہو جاتا ہے۔ انگریزی شعرا کی شاعری کے نمونہ جات ہم (ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں) میٹرک سے بی اے تک اپنی درسی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ جدید شعرا کی شاعری کے نمونے (بشمولیت ٹی ایس ایلیٹ، جنہیں میں نے اردو نظم کے قالب میں ڈھالا ہے) سب کے سامنے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کِیا جائے کہ غزل کا ایک شعر تُک بندی کی سطح پر ایک آسان ترین مشینی عمل ہے، جس میں تخلیقی قدرت کی کارکردگی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور جونہی یہ کسی شاعر، متشاعر، یا استاد شاعر (میرے لیے ان میں تمیز کرنا دشوار نہیں ہے) چھ  یا زیادہ اشعار کی غزل موزوں کرنے میں کوئی دقت نہیں دیکھتا۔ انگریزی وہ ذریعہ ہے جس کے توسط سے ہم فرانسیسی، جرمن، روسی، اطالوی، یا جنوبی امریکا کا ادب پڑھ سکتے ہیں۔ آپ نے فارسی اور عربی کا ذکر کیا۔ آپ سے ہی ایک سوال پوچھتا ہوں۔ کیا فارسی سے اردو میں براہ راست گذشتہ ساٹھ برسوں میں کچھ تراجم ہوئے ہیں؟ لگ بھگ نہیں کے برابر! اگر ہوئے بھی ہوں تو وہ انگریزی کی وساطت سے ہوں گے۔ کیا عربی (خصوصی طور پر مصر اورلبنان کے) مصنفین۔۔۔(خصوصی طور پر خلیل جبران ، درویش وغیرہ) کو ہم انگریزی کی وساطت سے نہیں پڑھتے ؟ اگر ہم انہیں اردو میں ترجمہ بھی کرتے ہیں تو انگریزی کے ترجمہ شدہ متون سے، جن تک ہماری رسائی ہے کیونکہ ہم جدید فارسی اور عربی ادب سے نا آشنا ہیں۔ ہماری رسائی تو اٹھارھویں صدی کے فارسی ادب سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ ایران اور عرب اس بارے میں بے حد داخلیت پسند ہیں۔ حالانکہ غالب نے اپنے فارسی دواوین کو اردو پر فوقیت دی، ایران میں بطور فارسی شاعر انہیں کوئی نہیں پہچانتا۔ اقبال ہمیشہ فارسی کو منبع ٔ حکمت سمجھتے رہے ہیں، آج وہ ہمارے قومی شاعر ہیں۔ لیکن ایران میں ان کے نام کا ڈنکا نہیں بجتا۔ کہیں حاشیے میں ہی ان کا نام رکھا جاتا ہے۔ استنبول یونیورسٹی کے اقبال پر ایک سیمینار میں مجھے اس بات کا تلخ تجربہ ہوا کہ ایران سے آئے ہوئے مندوبین اقبال سے صرف سطحی طور پر متعارف تھے،اور انہیں اقبال ؔلاہوری کے طور پر پہچانتے تھے۔۔۔ ان کے لیے اقبال کا نام فارسی ادب کی تاریخ میں حاشیے میں یا فُٹ نوٹ کے طور پر ایک بیرونی ریفرینس سے بڑھ کر نہیں تھا۔ وجہ؟ اقبال کی شاعری کی ناکافی، بے حد بُری، “بابو انگلش ” کی سطح پر ترجمہ کی ہوئی کتابیں، یا پھر اقبال کی شاعری (جو شاعری کم اور منبر سے بولتے ہوئے طلاقت سے بھرپور مقرّر کی زبان زیادہ ہے) جدید یورپ کی شاعری سے لگا نہیں کھاتی۔

سوال
ہجرت کے بعد آپ ہندوستانی پنجاب میں انجمن ترق پسند مصنفین سے وابستہ رہے یعنی چونکہ آپ بنیادی طور پر اردو کے لکھاری تھے ‘پنجابی کے نہیں، اس لیے آپ کو انجمن میں پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور اس آپ الگ ہو گئے۔ کیا آپ کے خیال میں آپ کی علیحدگی انہی وجوہ پر تھی نہ کہ نظریاتی بنیاد پر؟
جواب
نظریاتی سطح پر تھی، جناب۔۔اس کے لیے آپ کو “کتھا” کے متعلقہ صفحات، بشمولیت بھیمڑی کانفرینس میں میری شمولیت، اختر الایمان سے میری ملاقاتیں، وغیرہ دوبارہ پڑھنی پڑیں گی۔انجمن کا منشور کیا کسی بھی کمیون سے مختلف تھا۔ “اوپر” سے یعنی بنے بھائی سجاد حیدر سے یا دیگر “کٹّر پنتھیوں” سے جو احکام آتے تھے (اور جن کے آنے کی وجہ بھی سوویت روس کی پالیسیوں میں نت نئے پروگراموں کا شامل کیا جانا تھا) وہی ان احکام کا سر چشمہ تھے۔ اگر یہ حکم آیا کہ “امن تحریک” کے نام پر صفحوں کے صفحے سیاہ کیے جائیں اور ان میں امریکا اور یورپ کی جمہوری طاقتوں کو جنگباز ثابت کیا جائے تو ہزاروں نظمیں اسی موضوع پر لکھی گئیں۔ سٹالن ازم کو تو دو دہائیوں کے بعد پہچانا گیا کہ وہ روس اور مشرقی یورپ کے ملکوں میں محالفین کے ساتھ وہی (یا اس سے بد تر سلوک روا رکھے ہوئے تھا ) جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا۔ اس سے پہلے تو سبھی سٹالین یا ماؤ کے ہی گُن گاتے تھے۔میں پنجاب برانچ کا جائنٹ سیکرٹری تھا، لیکن انیس سو ستاون کے لگ بھگ میں نے اس پوزیشن سے علیحدگی اختیار کر لی۔

سوال
آپ نے غزل کی ساختیاتی پابندیوں کی بنیاد پر اس کی مخالفت کی اس کے باوجود کہ آ پ کی نظمیں بھی انہی پابندیوں میں ہی مقید ہیں بلکہ وہ باقاعدہ بحروں میں ہیں اور آپ نے ان کی تقطیع بھی کی ہے۔ اس کی وجہ؟
جواب
جی نہیں، میری نظمیں عروض کے عین مطابق ہیں لیکن وہ غزل کے فارمیٹ میں نہیں ہیں۔ (ایک) ان میں قافیہ یا ردیف کا چلن نہیں ہے (دو) غزل میں ہر شعر خود میں مکمل ، خود مختار، انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ایک شعر معشوق کے حسن کی تعریف میں ہو، تو دوسرا رقیبِ رو سیاہ کے بارے میں، تیسرا دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں، چوتھا زندگی کے سفر کو دشت نوردی کے استعارے سے اور پانچواں اسی سفر کو بحری سفر کے استعارے کی عینک سے دیکھنے کی سعی ہے۔ گویا غزل کے دس اشعار میں دس الگ الگ مختصر ترین نظمیں ہیں۔ جبکہ میری نظمیں بلینک ورس ہیں، یعنی عروض کی پابندی کا دھیان رکھتے ہوئے بھی ہر نظم ایک ہی، اور صرف ایک ہی موضوع پر ہے۔ سطروں کی قطع برید میں غزل کی یکساں طوالت بھی نہیں ہے۔ “رن آن لاین” کا چلن اسے ایک سے دوسری سطر میں اپنی طوالت ضم کرنے میں آسانی دیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلینک ورس یعنی آزاد نظم اسی طرح کسی بحر میں موزوں کی جاتی ہے، جیسے شیکسپیئر کی بلینک ورس یا ” امبیاکک پینٹا میٹر”میں ہے۔ لیکن “فری ورس ” ہمارے ہاں کی نثری نظم کا ہی روپ ہے، اس میں بحر نہیں ہوتی صرف ایک اندرونی آہنگ ہوتا ہے، جو کہ بعض اوقات نا پید بھی ہو جاتا ہے۔ میری نظمیں بلینک ورس ہیں، فری ورس نہیں ہیں۔

سوال
آپ نے اپنی سوانح میں صفحہ نمبر ۴۸ اڑتالیس پر بریخت اور گراہم کے خطوط کے حوالے سے کہا ہے کہ سیاسی اور مذہبی عقیدہ ایک چیز ہے اور تخلیق دوسری۔ ایک قلمکار جو لکھتا ہے، وہ اس کی شخصیت سے الگ ہے۔ کیا آپ اسے بد دیانتی نہیں سمجھتے کہ آپ کی فکر، آپ کے فن کی غماز نہ ہو؟
جواب
“فکر” تو فن کا یقیناً غماز ہو سکتا ہے، لیکن “عقیدہ” نہیں۔ اگر “عقیدہ” آپ کو اس بات سے باز رکھتا ہے کہ آپ “توریت” کو ، یا “گیتا” کو الہامی کتاب تسلیم کریں تو آپ اپنی شاعری میں کبھی یہ تسلیم نہیں کریں گے۔اگر آپ کا عقیدہ عیسٰے مسیح  کے نبی ہونے پر تو ایمان لاتا ہے لیکن خدا کا بیٹا تسلیم نہیں کرتا اور تثلیث کا حامی نہیں ہے، تو آپ اس کو اپنی شاعری میں ماننے سے احتراز کریں گے۔ ۔۔ “کتھا” میں یہ بات متعلقہ صفحات میں بے حد صاف بیانی سے واضح کی گئی ہے۔ کمیونزم کا عقیدہ اب کھوکھلا ثابت ہو چکا ہے، لیکن گئے وقتوں میں اردو کا ترقی پسند شاعر اس پر اسی طرح مضبوطی سے قائم تھا جتنا ایک وہابی اپنی طرز کے اسلام پر ہو سکتا ہے۔ ترقی پسندوں نے کچھ اہل قلم کو “ذات باہر” اسی لیے کیا کہ وہ ان کےساتھ نہیں تھے، چہ آنکہ وہ بڑے ادیب تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، امریکا میں اردو شاعری اب ذریعۂ تفریح بن چکی ہے۔ اردو کی کتابوں اور رسالوں کی اشاعت اور اردو کی تعلیم کےفروغ کے بجائے بے سر و پا مشاعروں کو ہی اردو ادب کی خدمت سمجھا جاتا ہے۔ اس صورت حال کے حوالے سے آپ امریکا میں کیا اردو کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں؟
جواب
جی نہیں، بالکل پر امید نہیں ہوں، اسی لیے میں مشاعروں میں شرکت نہیں کرتا۔ برصغیر کے شعرا ءاور شاعرات کو تو یہ ذریعۂ سیر و سیاحت اور کچھ ڈالروں کی وصولی کے طور پر بے حد اچھا لگتا ہے اور یہاں کے سپانسر اس سے نام و نمود (اور کسی حد تک اردو شعر و ادب میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے) استعمال کرتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply