مبشر زیدی صاحب کا” مہنگا خدا”۔۔۔۔فراست محمود

سید مبشر زیدی صاحب کی “مہنگی اور قیمتی” تحریر “مہنگا خدا” ایک بار پھر نظروں میں آ گئی اور پڑھے بنا نہیں رہا جا سکا۔”سو لفظوں کی کہانی” کے خالق مبشر زیدی اپنے اس عظیم شاہکار “سو لفظوں کی کہانی ” کی وجہ سے سو سالوں تک تو ضرور یاد رکھے جائیں گے۔ مبشر صاحب کا مقام صحافی ہونے کے ناطے سر آنکھوں پر اور اہل سادات کے گھرانے کا فرد ہونے کی حیثیت سے دو درجے اور اوپر سمجھتا ہوں۔مبشر زیدی صاحب کبھی اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیں کربلا معلی اور نجف اشرف جیسی اخروی جنتوں کی سیر کرا کے روح کو تسکین بخشتے رہتے ہیں تو کبھی امریکی ریاستوں کی دنیاوی جنتوں کے سفر سے جسمانی سکون مہیا کرتے رہتے ہیں۔

مبشر زیدی صاحب نے معاشرے کے لوگوں کا تصور خدا بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے اور رہی سہی کسر جناب ایڈیٹر مکالمہ انعام رانا    .  صاحب نے پوری کر دی ہے اور زیدی صاحب کے مہنگے خدا” کا مقدمہ نہ صرف پیش کیا بلکہ انتہائی مدلل تحریر کے ذریعے مبشر صاحب کے تصور کو درست بھی ثابت کیا ہے۔اتنی تشریح کے بعد مجھ جیسے انسان کو مہنگا خدا” کو درست ثابت کرنے کی ضرورت تو کوئی نہیں مگر اپنی انا کی تسکین کے لئے اس حساس موضوع پہ بات کرنے کی جرات کرنے لگا ہوں۔ویسے تو میرے معاشرے میں بقول محسن نقوی صاحب!!

یہاں تو چپ ہی بھلی ہے کہ انگلیاں نہ اٹھیں
کسی کے خلاف کسی کے حق میں کیا کہنا۔

یہی بہتر انتخاب ہے کہ اگر جان کی امان چاہتے ہو تو ہر غلط درست کو دیکھ کر چپ ہی سادھ لی جائے تا کہ سانسوں کا سفر جاری رہ سکے مگر کیا نقوی صاحب خود اس بات پہ عمل کر سکیں ہوں گے یقیناً  نہیں کر سکیں ہوں گے تبھی تو جان سے گزر گئے۔میرے معاشرے میں اول تو کوئی پورا سچ بولنے اور لکھنے کی جرات ہی نہیں کرتا اور اگر کوئی سچ بولنے کی ہمت کر ہی لے تو سچ سننے, برداشت کرنے اور قبول کرنے کی سکت کسی میں بھی نہیں ہوتی۔ سچ کی آواز انسان کے اندر سے جنم لیتی ہے اور یہ اندر کی آوازیں بھلا انسان کو کب خاموش رہنے دیتی ہیں۔اندر کی آوازیں جب باہر نکلتی ہیں تو کسی حسین (ع) کو کربل کی تپتی ریت پہ شہید کرا دیتی ہیں اور کسی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتی ہیں اور کسی مبشر زیدی کو “مہنگا خدا” جیسا سچ لکھنے پہ مجبور کر دیتی ہیں۔ویسے بھی خاموش تماشائی بن کے جینے سے بہتر ہے بندہ ببانگ دہل حق کو بیان کر جان کا نذرانہ پیش کر ڈالے۔

45 سالہ مبشر زیدی کی تحریر  “مہنگا خدا” تقریبا ً تینتالیس ہزار لوگوں کی نظروں سے گزری ہے اور یقیناً  چالیس ہزار (ذاتی رائے شماری)لوگوں نے اس سچ کو نہ صرف سراہا ہو گا بلکہ دل ہی دل میں داد بھی دی ہو گی کیونکہ یہ ان کے دل کی آواز ہے مگر خول میں لپٹے معاشرے کا خوف ہے کہ اندر کی آواز کو نکلنے نہیں دیتا۔اور باقی تقریبا ً تین ہزار لوگوں(ذاتی رائے شماری) نے زیدی صاحب کے سچ کو قبول کرنا تو دور سننا بھی گوارا نہیں کیا ہوگا اور طرح طرح کی دشنام طرازی اور القاب سے مبشر صاحب کو پکارا ہے اور کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے کیونکہ میرے معاشرے کے لوگوں میں نفرت اور گالی ہی تو ہے جو “مکمل اور خالص” ملتی ہے جب کہ محبت اور دعائیں ہمیشہ ملاوٹ شدہ ملتی ہیں تبھی تو ہماری اکثر ملاوٹ شدہ دعائیں قبول ہونے کے بجائے رد کر دی جاتی ہیں۔

مبشر زیدی صاحب سے بھی میرا ایک سوال ہے کہ یہ غریبوں اور مولویوں کے غصے والے خدا اور امیروں کے نرم مزاج خدا کا تصور پروان کیوں اور کیسے چڑھ رہا ہے؟مہربانی فرما کر اس نقطے پہ بھی روشنی ڈالئے گا۔ کیا یہ ہمارے مدارس اور تعلیمی ادارروں کی سوچ کے فرق کو ظاہر کرتا ہے یا کچھ اور ہے جس کی پردہ داری ہے؟

میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ ہمارے مولوی کا تصور خدا تعلیمی معیار اور سوچ کی وجہ سے محدود ہے ورنہ تو جو خدا ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہو ,شہ رگ سے زیادہ قریب ہو ,جو خلوت و جلوت کا ساتھی ہو عیبوں پہ پردہ ڈالنے والا ہو ,تمام گناہوں کا بخشنے والا ہو,فرشتوں سے آدم کو سجدہ کرانے والا ہو ,جس کی رحمت نے جس کے غضب کو ڈھانپ رکھا ہو, “ھل من مزید” کے جواب میں جو “لا تقنطو” کا درس دینے والا ہو وہ کیسے اتنا ڈراؤنا ہو سکتا ہے جتنا مجھے اس کے بارے ڈرایا جاتا ہے مجھے تو صرف” خدا کے روپ میں پنہاں میرے دل میں محبت ہے” والا خدا ہی نظر آتا اور ملتا ہے۔غم زیست کی چکی پیستے ہوئے جو سکون کی ساعتیں میسر کرنے والا ہو,جو رات کے گھپ اندھیروں میں امید کی کرن بن کے چمکنے والا ہو,وہ خدا کبھی بھی غصے والا نہیں ہو سکتا۔ ” اور اللہ تعالی نے حدیث قدسی میں فرمایا: (جب میں اپنے بندے سے محبت کرتا ہوں تو اسکا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اسکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ چلتا ہے) جن کے کان,ہاتھ,آنکھ حتی پاؤں تک خدا بن جاتا ہو گا ان سے کونسے پردے رکھتا ہو گا اور کیسا تکلف برتتا ہو گا? ان کے ساتھ پتھر کی مورتیوں جیسا خاموش رویہ کب رکھتا ہو گا نہ صرف سماعتوں کو سنتا بلکہ جواب بھی دیتا ہو گا۔جن کو جواب دیتا ہو گا ان پہ منکشف بھی ہوتا ہوگا ۔لہذا بقول شاعر
انسان کے کسی روپ کی تحقیر نہ کر
ملتا ہے زمانے میں خدا کئی بھیس بدل کر

Advertisements
julia rana solicitors london

مبشر صاحب سے ایک گلہ بھی ہے کہ چینی boss کے لئے غریبوں والا خدا کیوں نہیں لیا آپ نے۔غریبوں والا خدا تحفے میں دیتے تو چینی boss کو بھی لگ پتہ جاتا کہ وطن عزیز میں کمزور اور غریب ہونا ایک گناہ کی مانند ہے جس کی سزا ساری زندگی ملتی رہتی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply