جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں سیاسی جماعتوں کے ایک سے ایک مضبوط پتے سامنے آتے جارہے ہیں ،اور تو اور گزشتہ پانچ سالوں میں ہوئی کسی کے عزیز کی موت پر تعزیت کرنا یاد آرہا ہے ان لوگوں کو۔ ان کے گھروں میں قافلوں کی صورت میں رنگ برنگے جھنڈوں کو لہراتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں، جیسے زمانہ قدیم کے جنگی حالات اور فتح کی صورت میں سالار کے پیچھے سپاہی گردو غبار میں ڈوبے اُن کی دو آنکھیں نظر آتے تھے اور آج ان سیاسی سپاہیوں میں بس فرق اتنا ہے کہ وہ جنگی سپاہی تھے اور یہ سیاسی سپاہی ہیں ۔ بس نعروں کی حساسیت نے ان سیاسی سپاہیوں کے حوصلوں کو دوام بخشتی ہے ،مگر سالار ہر سفید پوش کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگتے ہیں کہ شاید اس کا اثر ورسوخ ہو ،محلے یا خاندان میں ۔ ۔ ۔ ۔
کرسی نظریوں پر بھاری ہوگئی ہے۔۔
مڈل کلاس کے نعرے لگانے والے بھی چوہدریوں ،سرداروں ،نوابوں کے ڈیروں پر ڈیرے ڈال دئیے ہیں دینی جماعتوں کے علماء بھی کسی سے پیچھے نہیں، ہر پانچ سال بعد امت کا اتحاد یاد آ جاتا ہے، تین بار وزیر اعظم بننے والے اب بھی اپنا بلڈ پریشر باہر کے ملکوں میں چیک کروانے جاتے ہیں اور آتے ہی ائیر پورٹ پر میڈیا نمائندگان کے سامنے ملک کی تقدیر بدلنے کا نعرہ لگاتے ہیں ۔
انقلابی سیاسی جماعت کے دعویدار اور نیا پاکستان کے سیاسی استاد بھی تالاب میں مچھلیوں کی تلاش میں کود چکے ہیں ، بار بار الیکشن جیتنے والے موسمی سیاستدان نظریاتی ہوگئے ہیں اور انہی سے یہ نیاء پاکستان بنانے نکلے ہیں ۔ ۔اور ہم عوام ہر ایک سے امیدیں لگائے ، دوسرے الیکشن کے انتظار اور مسیحا کی تلاش میں ہیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں