کسے دا یار نہ وچھڑے۔۔۔روبینہ فیصل

ہم بتول شفیع کونہیں جانتے۔۔۔ہم اتنی خوبصورت اور اتنی گہری خاتون کو کیوں نہیں جانتے ؟ ہماری بدنصیبی یا ہماری لاپرواہی ؟
ہم صرف شفیع محمد کو جانتے ہیں جو کہ ایک زبردست اداکار اور صدا کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفیس اور حساس انسان تھے ۔ میں اس انٹرویو سے پہلے نہ تو شفیع محمد کی شخصیت کو زیادہ جانتی تھی( بس ٹی وی سکرین پر مختلف کردار نبھاتے دیکھا تھا) اور نہ بتول شفیع سے کوئی تعارف تھا ، بتول صاحبہ کا یہ انٹرویو میں نے شفیع محمد پر بنائی جانے والی ایک ڈا کومنٹری “تم یاد بہت آؤ گے” میں دیکھا جس میں شفیع محمد کی موت کی گتھی کے ساتھ ساتھ زندگی کے ایک بہت پیچیدہ سوال کا جواب بھی مل گیا ، جو آج کے ٹیکنالوجی انقلاب کے زمانے میں ملنا مشکل تھا جب انسانوں کی جگہ سمارٹ فون لے رہے ہیں، محبت اور خلوص کی جگہ ایموجیز نے لے لی ہے اور انسانوں کے دل و دماغ ، خالص نہیں بلکہ کھوٹ ملے ہیں ۔یاجوج ماجوج کا مطلب چینی قوم لیا جاتا ہے کہ دنیا ختم ہونے سے پہلے وہی دندتاتے پھریں گے میرا خیال ہے کہ یہ یاجوج ماجوج اصل میں جذبوں سے خالی وہ” میڈ ان چائنا ” ،نقلی لوگ ہیں جو آج کل ہر طرف کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔

محترمہ بتول شفیع کامختصر سا انٹرویو ، سننے والا ہے جس میں وہ بتا تو شفیع محمد کے متعلق رہی ہیں مگر باتوں میں موجود گہرائی سے وہ اپنا تعارف بھی کروا گئی ہیں ۔ اپنی اور شفیع کی شادی ور اپنے پانچ بچوں کو کیسے تعلیم و تربیت دی، کے بارے میں بتاتی ہیں۔شفیع کے دوستوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ” کچھ لوگ ان کی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتے تھے جیسے کہ شہزاد خلیل ، ساحرہ کاظمی ، اقبال انصاری اور سمیجو صاحب ۔ یہ لوگ انہیں سمجھتے تھے ۔ کہتی ہیں : جیسے سمیجو صاحب انہیں سمجھتے تھے اور ان کے جانے کے بعد وہ اس قدر تنہا ہو گئے کہ بالکل بدل ہی گئے اور ان کے گزر جانے کے بعد ،وہ کراچی ٹیلی وژن کی طرف جانے والی اُس سڑک سے نہیں گزر سکتے تھے ۔ ان کے معمولات مکمل طور پر ہی تبدیل ہو گئے تھے ۔ اور یہی وہ تنہائی تھی جس نے بیماریوں کو ان پر حاوی کر دیا اور ۱۷ نومبر کو وہ چپکے سے سوئے ہو ئے ہی دنیا سے چلے گئے ۔

محترمہ بتول بتاتی ہیں کہ جب وہ اپنے دوست سمیجو صاحب کے جانے کے بعد ادبی محفلوں میں جاتے بھی تھے تو اندر سے محسوس کرتے تھے کہ یہ ان کے مطلب کی محفل نہیں ہے ، یہ وہ ادبی لوگ ہی نہیں جن کی انہیں تلاش تھی ۔ سمیجو صاحب کی وفات کے بعد وہ اپنی زندگی کا خلا بھرنے اور اندر کی تنہائی کو ختم کر نے کے لئے ویسا ہی دوست تلاش کرتے رہے مگر سمیجو صاحب جیسا کوئی اور نہ مل سکا ۔۔ وہ مزیدبتاتی ہیں کہ شفیع کی زندگی کے آخری ایام کی تنہائی انہیں انگلش شاعر کیٹس کے آخری دنوں کی تنہائی جیسی لگتی ہے ۔ جیسے وہ روم میں جا کربالکل اکیلے ہو گئے تھے۔۔ میں شفیع کی شریکِ حیات تھی مگر میں بھی ان کے اندر پھیلی یہ تنہائی کم نہ کر سکی ۔۔”

محترمہ کی اس گفتگو سے آشکار ہوا کہ انسان کب اور کیوں اکیلا ہو جاتا ہے ۔ چاہے لوگوں کا ہجوم اردگرد ہو، کچھ خالص محبتی لوگوں کے اندر کی تنہائی کسی ایک روح کے ساتھی کے زندگی سے چلے جانے کے بعد پیدا ہو جاتی ہے ایسا ساتھی جس کی بات سننے اور جس کے ساتھ بات کرنے کے بعد انسان خود کو تشنہ محسوس نہیں کرتا ۔ وہ ایک شخص جو آپ کی روح کی ساری پیاس بجھا سکتا ہے ۔ روح کی پیاس کی طلب اور بجھانے کی سکت ۔۔دونوں سچائی کی متقاضی ہو تی ہیں ۔ اور یہ وہ سچائی ہے جس کی اب نہ اس میڈ ان چائنا دنیا میں مانگ ہے اور نہ طلب۔ دوستی کی جعلی بیڑیاں جن کی مدت بہت عارضی سی ہو تی ہے ، ہفتہ،مہینہ ، سال دو سال ۔۔اور بس ۔۔

شفیع محمد بھی خلوص اورمحبت سے بھرے ہو ئے انسان تھے۔ ان کاسچا دوست دنیا سے چلا گیا تو بعد میں زندگی کو اسی ڈگر پر چلا نہ سکے ۔ ورنہ تو کل مرے آج دوسرا دن ۔۔ لوگ کہتے ہیں موو آن ۔۔ چلتے جاؤ ۔ جو خوشی دے ، وقتی سہارا دے ، اس کا بازو تھام لو ۔ چلے جانے والے کو بھول جاؤ ، آجکل تو یہی ہو رہا ہے ۔
کسی کی جدائی میں روگ لگانے والے لوگ کیسے ہو تے تھے ، شفیع محمد جیسے ، کیٹس جیسے ۔۔

کیٹس جس کی محبوبہ نے اس کے ساتھ روم جانے سے انکار کر دیا تھا ، جب ڈاکٹرز نے کیٹس کو ، فرانس سے روم جانے کا مشورہ دیا کہ شاید وہاں کی گرم آب و ہوا ،اسے زندگی کے چار دن اور دے دے ۔۔ کیٹس کی محبوبہ فینی بران بھی میڈ ان چائنا ہو گی ، اسے اس مرتے انسان کے ساتھ روم جا نے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ اور کیٹس، روم میں ایک دوست کے ساتھ زندگی کے آخری دن گزار کر صرف 25سال کی عمر میں ہی مر گیا ۔ اور مرنے کے بعد اسے شہرت ملی بالکل پی بی شیلی کی طرح اور آج تک کیٹس کا نام زندہ ہے گو اس نے اپنے کتبے پر یہ لکھنے کی وصیت کی تھی کہ ایسا شاعر جس کا نام پانی پر لکھا ہے ، یہ اس نے لوگوں کی اس کی زندگی میں جو اس کی شاعری پر تنقید ہو تی تھی ، اس سے دلبرداشتہ ہو کر کہا ہو گا ۔کچھ لوگوں کی قسمت کا در ان کی زندگی کا در بند ہو نے کے بعد کھلتا ہے ، کیٹس بھی ان میں سے ایک تھا ۔ دوسری طرف فینی بہت سال جی ، شادی بھی کی ، بچے بھی ہو ئے ،چونکہ اب کیٹس کا نام شہرت پا چکا تھا اس لئے فینی نے اپنے بچوں کو اپنے معاشقے کے بارے میں بتا دیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے باپ سے اس کا تذکرہ نہیں کریں گے ۔ بچوں نے اپنے والد کی حیات تک یہ وعدہ نبھایا اور اس کے مرنے کے بعد کیٹس کے فینی کو لکھے گئے محبت ناموں اور شاعری کو کیش کروایاجو فینی نے سنبھال کر رکھے ہو ئے تھے ۔۔ کیٹس کو جب اس کی محبت کی ضرورت تھی ، تب اس کی ترجیح کیٹس نہیں بلکہ اپنی زندگی ، خوشی اور آرام تھا ۔۔ سوکیٹس کے نصیب میں تنہائی آئی ۔۔۔ کوئی کتنے سال زندہ رہتا ہے ، مگر محبت کو جو تنہا چھوڑ دے کیسا بد نصیب اور جہنمی ہو تا ہے ۔۔ شاید خدا سب گناہ معاف کردیتا ہو ماسوائے اس ایک کے ۔

شفیع محمد اور کیٹس جیسا کہ بتول شفیع نے کہا ،سچی محبت کرنے والے بے لوث لو گ ، بیماریوں سے نہیں یار کے بچھڑنے کے بعد پیدا ہو نے والی تنہائی سے ہار کر مر گئے ۔ گو شفیع محمد کا ساتھی ، موت نے چھین لیا مگر کیٹس کا دکھ بڑا تھا ، کہ اس کا ساتھی تو زندگی نے چھین لیا تھا ، مرنے والوں کو تو دفنا کر یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ وہ اب واپس نہیں آئے گا مگر جو زندہ ہو اور بچھڑ جائے تو واپسی کے انتظار کا کرب “بچھڑنے “کے ساتھ جمع ہو جاتا ہے اور اسے تفریق کرتے کرتے انسان پہلے زندگی کی خواہش اور پھر زندگی ہی ہار دیتا ہے ۔۔۔

تنہائی کے ماروں میں ایک اور نام بڑا جلی حروف میں لکھا جائے گا اور وہ ہے روحی بانو ۔۔ اس کی زندگی بھی تنہائی کی ماری ہوئی تھی۔ بیٹے کی موت نے انہیں زندہ درگور کر دیا تھا اوریہ صرف محاورہ ہی نہیں بلکہ روحی کے کچھ آخری انٹرویوز دیکھیں تو وہ سچ میں ایک زندہ قبر سی لگتی ہیں ۔۔ بہت سال پہلے کسی ٹی وی پروگرام میں کئی گئی باتوں میں بشری انصاری انہیں پو چھ رہی تھیں؛” روحی بانو کہاں ہیں” ۔۔ تو وہ خالی خالی آنکھوں میں معصویت بھرے جواب دیتی ہیں:”پتہ نہیں روحی کہاں چلی گئی ہے ۔۔۔ ”

Advertisements
julia rana solicitors

سچ، سچی محبت ، سچی دوستی یہ نبھانے والے اور ان کی طلب کرنے والے دونوں ناپید ہو چکے ہیں ۔ سچے لوگوں کا جب” روح کا ساتھی” بچھڑ جاتا ہے تو وہ خود بھی کہیں کھو جاتے ہیں ۔ زندہ تو رہتے ہیں مگر مردوں کی طرح ۔۔ موت کسی کا ساتھی چھین لے تو کرب آدھا ، زندگی میں کوئی بچھڑ جائے تو پھر بس پیچھے انسان نہیں ایک قبر بچتی ہے ۔۔
شفیع محمد ، کیٹس ، روحی بانو ۔۔اور نہ جانے کون کون یار کے بچھڑنے کے بعد تنہائی سے ہی مر جاتے ہیں ۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کسے دا یار نہ وچھڑے۔۔۔روبینہ فیصل

Leave a Reply