• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سید علی گیلانی آزادی و حریت کی ایک توانا آواز۔۔ثاقب اکبر

سید علی گیلانی آزادی و حریت کی ایک توانا آواز۔۔ثاقب اکبر

سید علی گیلانی کی رحلت فقط مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام حریت پرست انسانیت کے لیے ایک سانحہ ہے، یہ ایک بہت بڑے شخص کا سانحہ ارتحال ہے۔ 92 برس کی زندگی میں سید علی گیلانی نے 14 برس کی باقاعدہ قید کاٹی اور 12 برس سید علی گیلانی گھر میں نظر بند رہے، جو ایک طرح کی قید ہی ہے۔ پس آزادی اور بڑے انسانی مقاصد کی خاطر قید رہنے والے افراد میں سید علی گیلانی کا ایک بڑا نام ہے۔ سید علی گیلانی اپنے بڑے ہدف اور مقصد کی خاطر تقریباً 26 برس قید رہے۔ سید علی گیلانی کو اپنے عقیدے اور نظریے پر اس قدر ایمان تھا کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ بڑھاپے اور پیرانہ سالی کے باوجود جیسے وہ اپنے نظریہ کو بیان کرتے تھے، کم نظیر ہے۔ سید علی گیلانی ظلم، استبداد اور برہمنی سامراج کے وحشیانہ مظالم کے خلاف ایک چٹان کی مانند ایستادہ رہے۔ اگر ہم مجموعی طور پر کشمیری قیادت کو دیکھیں تو اس میں ہم متعدد گروہ اور نظریات کے حامل افراد دیکھتے ہیں، تاہم سید علی گیلانی واضح موقف کے حامل انسان تھے۔

یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ہندوستان کے آئین کو قبول کرنا ہے یا نہیں کرنا، اگر یہ فیصلہ کر لیا کہ آئین ہندوستان کو قبول نہیں کرنا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو ایک آزاد ریاست کے طور پر رہنا ہے یا اس کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر غور کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تقسیم ہند کا ایک نامکمل باب ہے۔ تقسیم ہند کے معاہدے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا ہے۔ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کشمیر کے مسلمانوں کی ایک بھاری اکثریت آزادی چاہتی ہے اور پاکستان سے الحاق کو اپنا ہدف و مقصد بنائے ہوئے ہے۔ اسی وجہ سے کشمیری ظلم سہنے کے باوجود پاکستان سے الحاق کی آواز بلند کرتے ہیں۔ ان کے شہداء سبز ہلالی پرچم میں دفن ہوتے ہیں۔ سید علی گیلانی کا جسد بھی سبز ہلالی پرچم میں دفن ہوا، حالانکہ بھارتی افواج ان کی لاش کو اٹھا کر لے گئیں، تاہم ان کے پسماندگان نے سبز ہلالی پرچم میں تدفین پر سمجھوتہ نہ کیا۔

یہاں ایک مسئلہ غور طلب ہے کہ بھارتی افواج نہ فقط سانس لیتے سید علی گیلانی سے خوفزدہ تھیں بلکہ وہ ان کے جسد خاکی سے بھی خوفزدہ تھیں، اسی لیے ان کی میت کو گھر سے اٹھا کر لے گئے۔ بھارتی افواج کے اس اقدام سے دنیا کو یہی پیغام جاتا ہے کہ بھارت مقبوضہ وادی پر زبردستی قابض ہے۔ اگر کشمیری عوام ان کے ساتھ ہوتے تو بھارتی فوج کو کیا خوف تھا کہ ایک بوڑھے شخص کی میت کو کشمیر کے عوام اور ان کے پس ماندگان جیسے چاہتے دفن کر دیتے۔ یہ ہے مرد استقلال اور مرد حر، اسے آزادی پسند اور حریت پسند کہتے ہیں کہ آپ کی میت سے بھی جابر حکمران خوفزدہ ہیں۔ سید علی گیلانی نے مر کر بھی ثابت کر دیا کہ بھارتی افواج مقبوضہ وادی پر زبردستی مسلط ہیں اور ہمیں جنازہ و تدفین تک کی آزادی نہیں ہے۔ بالکل اسرائیل کی مانند جو کہ فلسطین پر باہر سے آکر مسلط ہوا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی اسی زمانے سے قابل حل ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی عوام ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یکسو رہے ہیں کہ اسے ہم نے آزاد کروانا ہے، لیکن ہماری ریاستی طاقتوں اور حکومتوں نے اس مسئلہ کو اس انداز سے نہیں لیا جیسا کہ لیا جانا چاہیے تھا۔ ہمارے حکمرانوں میں کئی ایسے تھے، جنہوں نے اس آزادی کی تحریک کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا اور اس کی سرپرستی کی، تاہم کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اس تحریک پر یو ٹرن لیا اور اس تحریک کی پشت میں خنجر گھونپا۔ جنرل پرویز مشرف کو میرے خیال میں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی، جنہوں نے اس آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچایا۔ اس مسئلہ میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران نے انقلاب اسلامی ایران کے بعد ایک موقف اختیار کیا کہ اسرائیل ایک ناجائز اور غاصب ریاست ہے اور فلسطین کو آزادی ملنی چاہیے۔

اس موقف کو عام کرنے لیے انھوں نے پوری دنیا میں جدوجہد کی ہے۔ یوم القدس کے عنوان سے ایک دن فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے منانا جس میں پوری دنیا کے مسلمان ہم آواز ہو کر فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں اور غاصب ریاست کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، ایسے ہی فلسطینیوں کے اندر بھی ایک نیا جذبہ پیدا ہوا ہے، اس کے پیچھے جمہوری اسلامی ایران کی انقلابی سوچ ہے، جس پر ریاست کا ایمان ہے اور وہ اس کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ اس وقت اسرائیل کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جا رہا ہے تو اس کے پیچھے ایران کی پالیسی ہے۔ یہ سبق ہے ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی۔ اگر ہم فلسطین اور ایران کو دیکھیں تو ان ممالک کے مابین ترکی، اردن، شام آتا ہے، لیکن کشمیر میں تو ہمارے دریا، پہاڑ، زمینیں، سرحدیں اور خاندان سانجھے ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس مسئلہ کو اس انداز سے نہیں اٹھایا جیسے اٹھانا چاہیے تھا۔ کشمیر یا پاکستان میں اگر برہمن سامراج کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسے دہشت گرد کے طور پر دنیا میں پیش کیا جاتا ہے، یہ ہماری حکومت کی ناکامی اور نااہلی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے خیال میں مرحوم سید علی گیلانی کی وفات کے موقع پر ہمیں ایک سنجیدہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی روح کی آواز کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ جا ملے، پر ہم نے فیصلہ کرنا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نے گذشتہ دنوں آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران کوٹلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کشمیریوں کو موقع دیں گے کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ ان الفاظ کو واپس لیا جانا چاہیے، پاکستان کا موقف کبھی بھی یہ نہیں رہا ہے۔ اس طرح کی بات کرنا کشمیریوں کے ارمانوں، قائداعظم کے فرامین کے خلاف ہے۔ ہمارا اور کشمیریوں کا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ ان شاء اللہ وہ آرزو اور ارمان جو سید علی گیلانی ساتھ لے کر چلے گئے، وہ پورا ہوگا۔ کشمیر میں آزادی کا سویرا طلوع کرے گا اور یہ خطہ پاکستان کا حصہ بنے گا۔ سید علی گیلانی کی یہ آواز ہمارے دلوں میں سدا گونجتی رہے گی کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔ ہاں سید علی گیلانی آپ پاکستانی تھے، پاکستان آپ کا اور ہم سب کا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply