• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پشاور جنگلہ بس – منافع بخش پراجیکٹ – ایک مغالطہ۔۔عامر کاکازئی

پشاور جنگلہ بس – منافع بخش پراجیکٹ – ایک مغالطہ۔۔عامر کاکازئی

جب لاہور، اسلام آباد اور ملتان میں جنگلہ بس بنی تو تحریک انصاف کا سب سے زیادہ زور اس پر تھا کہ ایک مہنگی بس سروس بنائی گئی ہے جو کہ ہر وقت نقصان میں رہے گی۔ جب پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو سب سے پہلے جنگلہ بس پر تنقید کی گئی کہ بس کو سبسڈیز دینے کی وجہ سے پنجاب کا سارا بجٹ ہل کر رہ جاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ اسد عمر اور عمران خان جنگلہ بس کے سخت مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بس سروس پر پیسہ لگانا پیسہ کو آگ لگانے کے برابر ہے۔ اس ملک کو اس بس سروس کی ضرورت نہیں۔ حتی کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں بس سروس کے خلاف ایک پٹیشن بھی دائر کر دی تھی۔

اسد عمر نے اس زمانہ میں ایک ٹویٹ میں یہ چیلنج بھی کیا تھا کہ جو بس سروس چوبیس بلین کی بن رہی ہے وہ اسے صرف چار بلین میں بنا سکتے ہیں۔

پھر ایک وقت اَیا کہ زمانے نے دیکھا کہ جو جماعت جنگلہ بس کی سب سے بڑی نقاد تھی اسی نے پشاور میں ملک کی سب سے بڑے بجٹ کے ساتھ جنگلہ بس بنانی شروع کی۔ یہ بس سروس مختلف حادثات سے گزر کر تقریباً سو ارب کی بنی، بلکہ اگر یہ کہیں کہ چار سال گزرنے کے بعد یہ ایک نامکمل پروجیکٹ ہے، تو غلط نہ ہو گا۔

ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق سال 2020 میں تقریباً 1.88 بلین کا نقصان کیا ہے۔ اس کے چلانے پر خرچہ تقریباً 1.92 بلین ہوا جبکہ صرف 39.9 ملین ٹکٹوں کے ذریعے وصولی ہوئی۔ سال 2021 میں تقریباً جون تک 2.96 بلین خرچہ ہوا ہے، جبکہ ٹکٹوں کے ذریعے 121.64 ملین وصولی ہوئی ہے۔

دو سال میں مکمل نقصان تقریباً 4.67 بلین ہوا ہے۔ اور یہ نقصان سبسڈیز دے کر پورا کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ حکومت سبسڈیز دینے کی سب سے بڑی مخالف رہی ہے، ابھی حال ہی میں انہوں نے بجلی سے سبسڈیز ہٹا کر اسے مزید 7.5 فیصد مہنگا کیا ہے۔ اگر اسی طرح نقصان میں یہ بس چلتی رہی تو موجودہ فسکل سال کا اندازاً   نقصان 2.79 بلین روپے ہو گا۔

حکومتی ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ پشاور جنگلہ بس کو دی جانے والی سبسڈیز اسلام  آباد اور ملتان سے بہت زیادہ ہے۔

ٹرانسپورٹ کے وزیر شاہ محمود نے نقصان کا ذمہ دار کم کرایہ کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرایہ کم سے کم رکھو۔دوسرے معنوں میں انہوں نے نقصان کا ذمہ دار اپنے ہی وزیر اعظم صاحب کو قرار دے دیا ہے۔

یاد رہے کہ 2019 کی ایک ستائیس صفحات پر مشتمل سرکاری رپورٹ کے مطابق یہ ملٹی بلین پروجیکٹ اوّل دن سے تنازعات کا شکار رہا ہے۔ مکمل پروجیکٹ کی غلط منصوبہ بندی، ڈیزائننگ اور کام کی انجام دہی میں غفلت برتنے کے ذریعے عوام کے پیسوں سے ایک تباہ کن پراجیکٹ ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ صوبائی انسپیکشن ٹیم نے لکھی تھی۔ نیب نے بھی کرپشن کی ایک رپورٹ تیار کی تھی مگر پشاور ہائی کورٹ نے اسے سیل کر دیا تھا۔

یہ منصوبہ پشاور کے  رش اور ٹریفک کو کم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا مگر غلط ڈیزائننگ اور منصوبہ بندی سے اب 2021 میں پہلے سے زیادہ ٹریفک رکنے لگی ہے اور رش زیادہ ہو گیا ہے۔ تقریبا ً پانچ منٹ کا فاصلے کو اب ایک گھنٹہ  لگتا ہے طے کرنے میں۔ بس سٹیشنوں سے پہلے اور بعد میں راستہ باٹل نیک bottle neck بن جاتا ہے، جس سے رکاوٹیں پیدا  ہو جاتی ہیں جو کہ رش کا سبب بنتا ہے۔

یہ پروجیکٹ کرپشن کی ایک عمدہ  مثال ہے۔ ٹھیکہ داروں کو پراجیکٹ مکمل کرنے کے لیے اُس وقت پچیس فیصد ایکسٹرا دیا گیا تھا کہ پروجیکٹ کو چھ ماہ میں مکمل کیا جاۓ۔ مگر یہ آج تک مکمل نہ ہو سکا۔

یہ بھی یاد رہے کہ ٹرانس پشاور نے اپنا فنانشل ریکارڈ اسمبلی کو بھی دینے سے انکار کر دیا ہے۔

اسی سے منسلک ایک ای سائیکل پروجیکٹ جو کہ زو بائی سائیکل کے نام سے مشہور ہے، بھی شروع کیا گیا تھا۔ یہ پروجیکٹ 360 سائیکلوں اور بتیس مین سٹیشنز اور 549 ڈاکنگ سٹیشن کے ساتھ حیات آباد اور یونیورسٹی کیمپس میں شروع کیا گیا۔ مگر یہ پروجیکٹ بھی ناکام ہو گیا ہے کیونکہ کوئی بھی سائیکل نہ لیتا ہے نہ چلاتا ہے۔ پشاور کو پیرس سمجھ کر ایک بار پھر بغیر کسی پلاننگ کے یہ منصوبہ شروع کیا گیا۔ پشاور کا جس زدہ موسم سال کے آٹھ ماہ انتہائی گرم رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے سائیکل چلانا مشکل ہے۔ یہ پراجیکٹ بنیادی طور پر غریب طالب علموں کے لیے تھا مگر ان طالب علموں پر ستم یہ کر ڈالا کہ اس کی رجسٹریشن فیس تین ہزار رکھ دی گئی جو کہ ایک غریب طالب علم کے لیے دینا ممکن نہیں ہے۔ اب زو الیکٹرک سائیکلیں سارا دن اور ساری رات سائیکل سٹینڈ پر اپنے سوار کی راہ تکتے تکتے امیتابھ کا یہ گانا گانے پر مجبور ہیں کہ

انتہا ہو گئی  انتظار کی
آئی نہ کچھ خبر میرے سوار کی

پختون خوا حکومت کا ٹیوٹر پر kpk updates کے نام سے ایک اکاؤنٹ ہے۔ انصافی جو پہلے پنجاب کی جنگلہ بس کی سبسڈیز پر چیختے تھے اور اب ان کا موقف کیا ہے اور پشاور جنگلہ بس کے نقصان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

“پشاور بی آر ٹی کا مقصد آمدنی یا منافع کا حصول ہر گز نہیں۔ دنیا بھر میں ایسے منصوبے حکومتی رعایتوں سے چلتے  ہیں  ،جن سے معاشی و کاروباری سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں۔ بی آر ٹی کی سستی اور آرام دہ سفری سہولیات کو عوامی پذیرائی ملی اور روزانہ 1لاکھ 60ہزار مسافر مستفید ہوتے ہیں۔”

بہرحال آج یہ ایک ناکام پروجیکٹ ہے جو کہ مکمل نقصان میں جا رہا ہے۔ اور یہ نقصان ایک ایماندار وزیراعظم کے دورِ حکومت میں ہو رہا ہے۔ جس کا یہ کہنا تھا کہ

“جب اوپر لیڈر ٹھیک ہو تو پورا نظام ٹھیک ہو جاتا ہے”

Advertisements
julia rana solicitors london

Source of figures : The News date August 31, 2021.
All figures are in rupees

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply