پی ٹی آئی کا سٹیزن پورٹل ایک ٹوپی ڈرامہ۔۔۔۔ اے وسیم خٹک

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نےپاکستان کو ایک تجربہ گاہ کے طورپر لیا ہوا ہے ـ جہاں آئے دن تجربے کئے جاتے ہیں کہ شاید کوئی تجربہ کامیاب ہوجائےـ مگر یہ تجربات ناتجربہ کار لوگوں کی سربراہی میں کئے جاتے ہیں ـ جس طرح میٹرک میں بچوں کوسائنس لیبارٹری کی جھلک دکھائی جاتی ہےجس میں وہ شوق سے کچھ نہ کچھ کرلیتے ہیں ـ انہیں گیسوں کےبارےمیں بتایا جاتا ہے ـ مینڈک کاآپریشن ان کے سامنے کیا جاتا ہےـ جس میں مینڈک ہمیشہ مر جاتا  ہےـ۔ ہمارے سامنے جتنےبھی بیالوجی میں مینڈک کےآپریشن کئے گئے اس میں مینڈ ک بےچارہ  مرگیا تھا۔۔

ـ بالکل اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کی مینڈکی ہمیشہ مررہی ہےـ جہاں بھی تجربہ کیا جاتا ہےوہ ناکام ہوگیا ہےـ ۔پشاور میں بی آر ٹی پی ٹی آئی کے گلے کا طوق بن گیا ہے۔ـ تو تعلیمی پالیسیاں ناکامی کاشکار ہیں۔ ـ یونورسٹیوں میں بے جامداخلت نےان کی سرکارپر انگلیاں اٹھائی ہیں۔ ـ تحریک انصاف نے حکومت اور عوام میں براہ راست رابطے اور وفاقی و صوبائی محکموں سے متعلقہ عوام کی شکایات کے ازالے کی غرض سے وزیرِ اعظم آفس میں قائم کیے گئے پاکستان سٹیزن پورٹل کا اجراءایک تجربے کے طور پر کیا تھا کہ یہ سسٹم چاروں صوبوں کے سیکریٹری سے منسلک ہوگا۔جو تمام محکموں کااحتساب کرے گا ـ مگر میرے تجربے کےمطابق سیٹیزن پورٹل والےسب شکایات کے گول مول جواب دےرہے ہیں ـ۔ میں نے دو مہینوں کے دوران پچاس شکایات درج کیں جس میں ہائیرایجوکیشن، سیکنڈری سکولز، واپڈا، پولیس، سیکرٹریٹ، محکمہ مال، غیرملکی امداد پر چلنےوالے پراجیکٹس، جنرل شکایت سمیت بہت زیادہ مسائل کے حل کے لئے  آراء  دی گئیں۔۔ ـ وزیراعظم صاحب کو بھی قیمتی مشورےدئیے گئے۔ـ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر مشتاق غنی کی دفترمیں سگریٹ نوشی کی تصویربجھوائی گئی تو کہا گیا کہ اس پرکاروائی نہیں کی جاسکتی ـ ایک ادارے کے بارے میں شکایت کی گئی کہ وہاں منظور نظر افراد کو رکھا گیاہےـاس میں اپنی شناخت چھپائی گئی تھی مگرادارے کو جو ڈیٹا دیا گیاـ انہوں نے سب کچھ بتادیا ـ اور یہاں بھی ٹرخا ؤ پالیسی پر عمل کرکے ادارے نےخود کو بری الزمہ قراردیاـ کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ ـ محکمہ مال کے جواب میں کہا گیا کہ ایک فریق سے رابطہ کیا گیا ہے اور یہ مسئلہ حل ہوجائے گاـ ۔زمینی تنازعے پرجب شکایت کی گئی تو جواب ملا کہ یہ فریقین کا  آپس کا مسئلہ ہے۔۔ـ پولیس نے رابطہ کیا تو کہا کہ یہ مسئلہ فریقین خودحل کریں ـایک سکول میں ہیڈمسٹریس کی  ایک سال سے  غیر موجودگی کے بارے جواب دیا گیا کہ جلد ہیڈ مسٹریس کو تعینات کیا جائے گا۔ـ

 

یونیورسٹیوں کے متعلق جتنی بھی شکایات درج کی گئیں ـ ہائیر ایجوکیشن نے جواب دیناہی مناسب نہیں سمجھا اور ہر یونیورسٹی نے وہی معلومات دیں جو آرٹی آئی کےذریعے دی جاتی ہیں ـ کسی بھی ادارے کے حوالے سے منفی تاثر نہیں دیا گیاـ عمران خان نے کہا تھا کہ شکایتوں کا ڈیٹا شائع کیا جائے گاـ مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوسکاـ ۔سٹیزن پورٹل کی شکایات کو میڈیا پر ہائی لائٹ بھی کیا گیاـ مگر کاروائی کوئی عمل میں نہیں لائی گئی۔ ـایک سال پہلے دبئی میں منعقد ہ سالانہ عالمی حکومتی سمٹ اجلاس میں ہونے والے موبائل ایپ مقابلے میں 87 ممالک نے 4646 موبائل ایپلیکیشن مختلف  کیٹیگریز کی پیش کیں تھیں جس میں پاکستان سٹیزن پورٹل دنیا کی بہترین سرکاری موبائل ایپ کی فہرست میں دوسرے نمبر پر قرار پایا، جب کہ پہلے نمبر پر انڈونیشیا اور تیسرے نمبر پر امریکہ  کی ایپ تھیں۔

اس حوالے سے پاکستان سٹیزن پورٹل نے عوام سے 5 میں سے 4 اعشاریہ 5 کی ریٹنگ حاصل کی ہے اور یوں گوگل سرچ میں کیٹیگری میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے۔اس موبائیل ایپ کو 45 دن کے ریکارڈ دورانیے میں بنایا گیا تھا جسے 28 اکتوبر کو متعارف کرایا تھااس ایپ کے تحت اب تک لاکھوں شکایات موصول ہوئیں جن میں سےشاید ہی ہزاروں شکایات حل کی گئیں ہوں میں نے جوبھی شکایات درج کیں،   فیڈ بیک سب کا میں نے منفی دیاـ کیونکہ کسی بھی شکایت کا مجھے جواب مثبت نہیں ملاـ تو ہم کیسے جواب مثبت دیتےـ ۔۔

 

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی جس کا مجھے وہی جواب  ملا جس کی مجھے امید تھی ـ یعنی کوئی بھی میرے فرینڈ لسٹ میں سٹیزن پورٹل کی کارکردگی سے مطمئن نہیں نظر آیا۔ـ ایک دوست نےابو عبداللہ نے لکھا کہ میں ایک سکول کی چار کمپلینٹ کر چکا ہوں لیکن کام ابھی شروع ہو گیا ہے۔ تین دفعہ ٹوپی کرائی گئی لیکن میں نے وہی کمپلینٹ دوبارہ رجسٹر کی اور ڈائریکٹر کی میٹھی میٹھی کلاس لی۔ اس نے ڈی ای او فیمیل کو ایسے رگڑا کہ آڈٹ والی ٹیم نے مجھے دھمکیاں دیں ۔ میں نے ان پر واضح کیا کہ اب ان کی کمپلینٹ کروں گا تو کھوتے کے پتر سے بندے کے پتر بن گئے۔ ایک اور دوست شاہد  آفریدی نے لکھاکہ جی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میں نے ڈومیسائل کے حوالے سے کی تھی ٹوپی ہو گئی اور لکھ دیاproblem resolved

Advertisements
julia rana solicitors

حالانکہ مسئلہ حل نہیں ہواـ ایک اور دوست نےکمنٹ میں لکھا کہ ہم نے تو رپورٹ کرنا چھوڑ دیا ہے اس وجہ سے کیونکہ اسکا نتیجہ کوئی نہیں نکل رہا۔۔ـ
اکثریت دوستوں نے اسے بھی ایک ٹوپی ڈرامہ قرار دیا ہے اور پی ٹی آئی کے  تجربوِں میں ایک ناکام تجربہ قراردیا ہےـ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply