• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے(سفریاتِ جوگی)۔۔۔۔اویس قرنی/حصہ دوم

دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے(سفریاتِ جوگی)۔۔۔۔اویس قرنی/حصہ دوم

اس زمانے میں گاؤں ابھی واپڈا کی مہربانیوں سے محفوظ تھے۔ گاؤں کے اکثر ویلے بندے ٹائم پاس کی غرض سے کبوتر ، کتے ، مرغے پالتے تھے ، جبکہ اس خاکسار نے ایک عدد ریڈیو پال لیا۔ میرا پالتو ریڈیو دائیں طرف سے ریڈیو پاکستان بہاولپور اور بائیں طرف سے ریڈیو پاکستان ملتان کی فریکوئنسیاں ورغلا لاتا تھا ، اور وہ ان دنوں سب سے بڑی عیاشی تھی۔

سببِ سفر (سفریاتِ جوگی)۔۔۔اویس قرنی/حصہ اوّل

ایسی ہی ایک ویہلی دوپہر، جب میں تھا ، شہتوت کی چھاں تھی ، سر تلے بانہہ تھی ، اور مجموعہِ خیال فرد فرد تھا۔ ریڈیو پہ ایک سرائیکی غزل نشر ہوئی۔ جسے شہزادہ آصف علی گانے کی کوشش کررہا تھا۔
تیڈے ہتھ دی حنا ہوواں ہا ،تیڈی اکھ دا کجل ہوواں ہا
جیکوں توں گنگناویں ہا سئیں ،ایہو جئی میں غزل ہوواں ہا
غالب نے ایک خط میں فرمایا تھا:۔”عاشقانہ شاعری سے مجھ کو وہ بُعد ہے ، جو ایمان کو کفر سے ہے۔” یہی حال اس خاکسار کا بھی رہا ہے ، اور چونکہ اس وقت تک میں نے بھی ، قدِ یار کا عالم نہ دیکھا تھا ، اس لیے ابھی معتقدِ فتنہِ محشر نہ ہوا تھا۔ لہذا اس غزل کے شعرسمندری لہروں کی طرح میرے کانوں کے ساحل سے سر پٹخ پٹخ  کر ہوا میں تحلیل ہوتے رہے کہ اچانک اس نے شعر پڑھا:
سیانڑا ں جو ہَم ، دنیا نیں ، کر گھدا قید ، رسماں اندر
قید وچ میکوں احساس تھئے ، کاش میں بے عقل ہوواں ہا
(میں اپنے سیانے پن کے جرم کی وجہ سے دنیا کے رسوم و رواج میں قید کر دیا گیا۔ اس قید میں مجھ پہ حقیقت کھلی ، اور مجھے احساس ہوا کاش میں بےعقل ہوتا ، تو آزاد ہوتا)

جنہوں نے اذیتِ فرزانگی جھیلی ہے ، وہ یقیناً اس شعر پر چونکیں گے۔ بالکل اسی طرح اس وقت میں بھی چونکا تھا۔ حسبِ حال شعر تھا ، پس ذہن میں نقش ہوگیا۔ ادھر غزل میں میری دلچسپی ہوئی ، ادھر خبروں کا وقت ہوجانے کے باعث غزل کا یہیں پہ اچانک اختتام کرکے خبریں نشر کردی گئیں۔

اس دن کے بعد میں تھا اور اک انتظارِ مسلسل تھا۔ جب تک جاگتا رہتا ، ریڈیو صرف بہاولپور کی نشریات کیلئے ٹیون رہتا  کہ شاید یہ غزل پھرکسی پروگرام میں شاملِ نشریات ہو۔ غزل دوبارہ سننے سے زیادہ مجھے صاحبِ کلام کا نام جاننے کی جستجوتھی۔ یہ انتظار رنگ لایا اور کچھ عرصے بعد وہی غزل سماعتوں سے ٹکرائی ، غزل سے پہلے صاحبِ کلام کا نام صوفی نجیب اللہ نازش ؔ بتایا گیا۔ نام اور اندازِ کلام سے مجھے لگا شاید یہ کوئی قدیم شاعر ہیں۔ جہاں نام جان لینے کی خوشی ہوئی ، وہیں یہ افسوس بھی ہوا کہ کاش میں اس شاعر کے زمانے میں ہوتا ، تو ضرور انہیں داد دینے جاتا۔

پھر قدرت نے زمانے کی فلم کو فاسٹ فارورڈ پہ لگا دیا۔ گاؤں میں بجلی آئی اور اپنے ساتھ ٹی وی اور ٹیپ ریکارڈر لائی۔ انہی دنوں کمپیوٹرز کا شہرہ ہوا اور جلد ہی پاکستان میں انٹرنیٹ کی دھوم بھی مچ گئی۔ ہم بھی میٹرک سے نکلے ، کالج سے ہوتے ہوئے کچھ مزید فالتو تعلیم کی تلاش میں لاہور سدھارے۔ اس دوران ملک میں موبائلز اور فیس بک کی وبا پھیل چکی تھی۔ جس کی زد میں آکر یہ خاکسار فیس بکیا ہوا۔ یہاں علی جاوید چیمہ ، شانی اور ملک حبیب جیسے مکھن باز دوست ملے ، جن کی واہ واہ ء  مسلسل نے میرے “ہونے” کو اس راہ پہ لگا دیا۔

یونہی اس راہ پہ چلتے چلتے ، ایک دن خالد نجیب نامی دھان پان سا ایک جوان مجھ سے آٹکرایا۔ ایک کے ساتھ ایک فری تو ہر کسی کو ملتے ہیں ، مجھے ایک کے ساتھ دو فری ملے۔ یعنی خالد کے علاوہ ساجد نجیب اور کامران اسلم بھی مشرف بہ دوستی ہوئے۔ خالد نے تو مجھےکھڑوس سمجھ کر فاصلہ برقرار رکھا ، لیکن ساجد نے متاثرینِ جوگی میں شمولیت پا کر شاگردی اختیار کی ، اور کامران نے دوستی کے بعد گاہے گاہے ملاقات پہ للکارنا شروع کردیا۔ ہم نےبھی ہربار ٹال دیا ، کیونکہ کئی بار تجربے کے بعد مت آ چکی تھی کہ میری تحریریں پڑھ کر اکثریت جس شدت سے میری محبت میں مبتلا ہوتی ہے ، مجھ سے مل کر وہ ساری شدت و محبت مایوسی اورتنفر میں بدل جاتی ہے۔ شاید میری تحریروں سے وہ مجھے کوئی بطلِ ِ جلیل سمجھ لیتے ہیں ، اور مل کر جب وہ دیکھتے ہیں کہ یہ ہم جیسا ایک آدم ہی تو ہے ، اسے تو چند منٹ سنجیدہ بیٹھنا بھی نہیں آتا ، اور بہت سے وغیرہ وغیرہ تو پھر کہتے ہیں ، مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔۔۔۔

ایک دن ساجد سے باقاعدہ تعارف کے بعد،مجھے وہ حکایت بے طرح یاد آئی ، جس کا عنوان “بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں” تھا۔ یعنی ہم نے جس شاعر سے ملنے کی حسرت کو پندرہ سال سے صبر کی بوری میں باندھ رکھا تھا۔ یہ انہی صوفی نجیب اللہ نازش ؔ کا سپوت نکلا۔ تصدیق کیلئے کامران سے پوچھا تو اس نے تصدیق کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر دعوتِ ملاقات دی۔ صوفی صاحب سے ملنے کی تمنا مچل اٹھی ، اور ہم نے دسمبر میں اپنی آمد کا عندیہ دے دیا۔اس وقت مجھے یہ کڑوا سچ یاد نہ رہا کہ اویس چاہے یمن کا ہو چاہے دھنوٹ کا ہو، اس کی قسمت میں ملنا نہیں لکھا گیا۔

جاری ہے۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

سفریاتِ جوگی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply