ایمان۔۔۔۔ جاویدخان

معصوم چہرے اور تیکھے نقوش والی ایمان ،ہمارے دوست ملک خضرصاحب کی بھانجی تھی۔پیدائش کے فوراً بعد والدہ کے ساتھ ننھیال آگئی۔ننھیال بھر کی اکیلی لاڈلی تھی۔تعلیم کے پہلے سال میں بیمار ہوئی تو عمر کے ساتھ ساتھ بیماری بھی آگے بڑھنے لگی۔ایک ننھے سے باغ پر بیماری کے اولے پڑجائیں تو وہ شباب سے پہلے ہی مرجھا ساجاتا ہے۔ایمان اس مرجھاہٹ کو خود سے دُور نہ کرسکی ۔وہ زندگی کے اس بیمار ی زدہ باغ میں گھومتی ،مسکراتی ،پریشان ہوتی اور پھر ہنسنے لگتی۔ اس کے اردگرد دولت ،بہار اور کھلکھلاتی زندگی رواں دواں تھی۔مگر اس سب کے باوجود وہ دنیا کے بازار سے صحت نہیں خرید سکتی تھی۔شاید صحت ،ایمان ،خوشیاں اور محبت ایسی چیزیں ہیں جو دُنیا کے بازار سے نہیں ملتیں  ۔ڈاکٹروں نے اس کاعلاج شروع تو کیا مگر بیماری نہ رکی اور نہ ہی سمجھ میں  آئی ۔ان کاکہنا تھا کہ ایمان کے پھیپھڑے کمزور ہیں۔سکول میں وہ لائق طالبہ تھی۔جماعت میں ہمیشہ نمایاں کاردگردگی دکھاتی ۔وقت ایسے ہی گزرنے لگا۔۲۰۱۱ سے اُسے انجکشن اوراینٹی بائیوٹک بلاناغہ استعمال کروائے جانے لگے۔

تدبیر کارگر نہ ہوئی۔۲۰۱۷ میں اُسے مظفرآباد شہر میں بڑے ماموں کے پاس منتقل کر دیا گیا۔وہاں موسم قدرے بہتر تھا اور سہولت بھی تھی۔امتحانی مرکز گھر کے نزدیک ہی تھا۔آکسیجن سلنڈر ہمہ وقت اس کے ساتھ اور ماسک چڑھا رہتا ۔ ثانوی درجہ کے امتحانات شروع ہوئے تو اسے کچھ دیر کے لیے اس عذاب سے نجات مل جاتی۔آکسیجن ماسک تواتر جاتامگر پرچہ دینے کے دوران اسے لمبے لمبے سانس لینے پڑتے۔لمبے لمبے سانس لے کر آکسیجن پھیپھڑوں کو دیتی پھر لکھتی ۔کمزور پھیپھڑے پھر آکسیجن مانگتے تو وہ لکھنا روک دیتی اور پھر سے لمبے لمبے سانس لینے لگتی۔اس نے سارا امتحان ایسے ہی لمبے سانسوں کی مدد سے دیا۔ جب رزلٹ آیا تو وہ اعلیٰ درجے میں پاس ہوئی۔ اس کی اس محنت کاکسی کو اندازہ نہیں تھا۔ اگرچہ وہ خود مسلسل ڈاکٹروں کی نگرانی میں تھی ۔لیکن ایک اچھا ڈاکٹر بننا اس کا خواب تھا۔ لِہٰذا گیارہویں جماعت میں اس نے پری میڈیکل کاانتخاب کیا۔

سال ۲۰۱۸ ء اس نے کالج میں سال اول کی طالبہ کے طور پر گزارا۔راولاکوٹ میں سخت سردی پڑتی ہے۔اس کا ننھیال قدرے بلندی پر تھا۔ سرد موسم ،آکسیجن کی کمی ،کمزور پھیپھڑے ۔ایمان کو مظفرآباد منتقل کر دیا گیا۔اُسے اچانک زیادہ تکلیف ہوئی تو ایبٹ آباد میں ڈاکٹر عبدالرب کے پاس لے جایا گیا۔ڈاکٹر عبدالرب نے ایمان کے سامنے کہہ دیا ’’اس کے پھیپھڑے ختم ہوچکے ہیں‘‘۔ایمان جس معاشرے میں پیدا ہوئی ۔وہاں اکثر ماہر ڈاکٹروں کو بھی ڈاکٹر بننے  میں زندگی صرف ہوجاتی ہے۔ انھیں ہسپتال ،مریض پھر پیسہ مل ہی جاتا ہے ۔مگر انسانیت کا درد ساری زندگی حاصل نہیں کر پاتے ۔ایمان نے اس جملے کو مذاق سے زیادہ نہ لیا۔ایسی سرگوشیاں اس کے آس پاس روز ہی ہوتی رہتی تھیں۔اب وہ اس کی عادی ہوگئی تھی۔اس جملے کے بعد اس کے چھوٹے ماموں اور ڈاکٹر کے درمیان ایک ترش مکالمہ ہوا تھا۔لِہٰذا ایمان نے ڈاکٹر کے جملے پرتوجہ تو نہ دی البتہ ماموں کا مذاق بنایا کہ آج ڈاکٹر نے آپ کو ڈانٹ دیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالرب کانسخہ ناکام اور جملہ کارگر ثابت ہوا۔ایمان کی صحت زیادہ بگڑ گئی تو اسے ۸ فروری ۲۰۱۸ ء کو علی میڈیکل سنٹر اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔وہ گیارہ دن تک انتہائی نگہداشت میں رہی۔ ونٹی لیٹر کانام اس نے سن رکھا تھا۔ وہ پری میڈیکل کی طالبہ تھی اور بیماری سے لڑ رہی تھی۔ پھر بھی کسی نے اسے بتایا تھاکہ ونٹی لیٹر پر جانا زندگی کا انت ہو جانا ہے۔ونٹی لیٹر پرجانے اور بے ہوش ہونے سے قبل اُس نے والدہ اور ماموں کو نصحیتیں کیں۔چھوٹے ماموں ملک خضر سے کہا ’’ ماموں میں جارہی ہوں ‘‘ یہ کہہ کر وہ کچھ دیر کے لیے بے ہوش ہو گئی ۔پھر ہو ش آیا تو کہا ’’ ماموں میں آپ کے لیے واپس آگئی ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر مسکرا ئی ۔پھر وہ اللہ میاں سے مخاطب ہوئی ۔
اللہ میاں میں آپ سے معافی چاہتی ہوں۔ اگر دوران بیماری میرے منہ سے کوئی ایسی بات نکلی ہو جو آپ کو ناگوار گزری ہو تو مجھے معاف کردینا۔
اللہ میاں آپ کاشکریہ اَداء کرتی ہوں کہ آپ نے مجھے بیماری عطا ء کی ۔اس میں ضرور کوئی راز ہو گا۔
اللہ میاں میں خود مرنا نہیں چاہتی ۔لیکن میرا وقت آ گیا ہے۔
ایمان نے کلمہ پڑھا اَور بے ہوش ہو گئی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۱۹ فروری صبح ساڑھے تین بجے اللہ میاں کے پاس چلی گئی۔ اس کا وقت واقعی آگیا تھا۔ گھر تک اس کا جسم گرم رہا ۔یہاں تک کہ جب گوئیں نالہ روڈ پر ایمبولینس میں اُس کا سر ڈھلک کر ایک طرف ہو گیا تو ورثا نے ڈاکٹر کو فون کر کے ساری صورت حال بتائی ۔ڈاکٹر نے فوراً نزدیکی ہسپتال جانے کو کہا ۔سی ۔ایم ۔ایچ راولاکوٹ میں مشینوں نے کہا سانسیں خاموش ہو چکی ہیں۔ موت کو سامنے دیکھ کر بڑے بڑے سورماؤں کی مردانگی جواب دے جاتی ہے۔ ایمان نے موت کاسامنا مردوں سے بڑھ کر مردوں کی طرح کیا۔وہ کسی خانقا میں کبھی نہیں گئی۔ مگر یوں لگا جیسے سلوک کے سارے راستے وہ جانتی تھی۔زندگی کے آخری لمحوں کویوں نبھایا جیسے رابعہ بصری ؒ اور خواجہ حسن بصری ؒ جیسے صوفیا کی صحبت سے اُٹھ کر آئی ہو۔زندگی کی سولہ بیمار بہاریں جھیلنے کے بعد وہ خاموشی سے اپنے اللہ میاں کے پاس چلی گئی۔ایک مطمئن روح کو لے کر۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply