حیوان کو سزائے موت دی جاتی ہے۔۔۔۔۔ملک گوہر اقبال رما خیل

پندرہویں صدی عیسوی میں فرانس کے شہر”اوٹون” میں چوہوں کے خلاف ایک مقدمہ چلایا گیا۔ چوہوں پر یہ الزام تھا کہ وہ بڑی کثرت سے خوفناک شکل میں گلی کوچوں میں جمع ہوجاتے ہیں جس سے لوگوں کے آرام و سکون میں خلل پڑتا ہے۔ چوہوں کے دفاع کے لیے فرانس کا مشہور وکیل”شاسانیہ” میدان میں آیا اور اس نے عدالت سے وقت مانگا کہ چونکہ چوہوں کی آبادی زیادہ تر بچوں ،بوڑھوں اور بیماروں پر مشتمل ہے اسی لیے اگر عدالت کچھ مہلت دیدے  تو چوہے حاضر ہوسکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی عدالت کے دیے گئے مقررہ وقت پر چوہے پیش نہیں ہوئے جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ جنابِ والا اگر چہ چوہے معزز عدالت کے احکام کی تعمیل کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر وہ یہاں آئیں تو انہیں بلیوں کی جانب سے ایذا رسانی کا خوف ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ملزموں کو امن و سلامتی سے عدالت میں حاضر ہونے کے مواقع فراہم کریں۔ وکیل صفائی نے درخواست کی کہ عدالت حکم دے کہ جب چوہے عدالت میں حاضری کے لیے آرہے ہو تو تمام بلیوں کو بند کردیا جائے چنانچہ عدالت نے درخواست منظور کرلی اور حکم دیا کہ تمام بلیاں اور کتے عام سڑکوں پر نہ چلیں تاکہ چوہوں کو عدالت میں حاضر ہوتے وقت کوئی ڈر نہ رہے لیکن شہریوں نے ان احکام کی تعمیل نہ کی اور کتوں اور بلیوں کو سڑکوں سے نہ ہٹا سکے۔ جس پر عدالت نے فیصلہ سنایا کہ چوہوں کو بری کیا جاتا ہے کیونکہ ہر ایک کو قانوناً اپنی صفائی پیش کرنے کی سہولت  حاصل ہونی چاہیے چونکہ چوہے اس سہولت سے محروم رہے لہذا وہ بری الزمہ ہیں۔

عزیزانِ من! مغربی اقوام میں فرانس وہ پہلا ملک تھا جس نے 13ویں صدی عیسوی میں حیوان کو بھی اپنے کیے کا جوابدہ قرار دیا تھا۔ اور اس پر عدالتوں میں اس طرح مقدمہ چلایا جاتا تھا جس طرح انسان پر چلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد تقریباً 16ویں صدی عیسوی تک بیلجئم، ہالینڈ، جرمنی، اٹلی اور سویڈن نے بھی یہی قانون اپنے ہاں جاری کیا۔ بعض اوقات عدالت حیوان کو حوالات بھیج دیتی اور بعض اوقات حیوان کو سنگسار کرکے مارڈالنے کی غرض سے سزا دی جاتی یا سر کاٹ دیا جاتا یا جلا دیا جاتا تھا۔ اور عدالت کے الفاظ بھی قانون ہی کے مطابق ہوتے تھے کہ”حیوان کو سزائے موت دی جاتی ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔

یہ اس قوم کے تخیلات تھے اور یہ ان کی عقل و شعور کا معیار تھا جنہیں جو   آج علم و دانش کے پیکر سمجھے جاتے ہیں جن کی تہذیب اس وقت بلا شبہ دنیا کی غالب تہذیب ہے۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے لیے دلائل دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ حقیقت تو اندھوں کو بھی نظر آرہی ہے۔ البتہ ایک مسلمان کے لئے یہ بات بسا اوقات الجھن کا باعث بنتی ہے کہ غلبہ تو مسلمانوں کا حق ہے کیونکہ اسلام اللہ کا سچا دین ہے اور مسلمان اللہ کے ماننے والے ہیں اور اہل مغرب کافر اور اسلام دشمن ہیں۔ اس الجھن کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ اس دنیا میں ترقی کا انحصار اس امر پر نہیں ہے کہ آدمی کا عقیدہ صحیح ہو اور وہ اللہ و رسول کو مانتا ہو۔ بلکہ اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ آدمی اسبابِ دنیا فراہم کرنے پر قادر ہوجائے۔ جیسا کہ ایک زمانے تک مسلمان دنیاوی اسباب کے لحاظ سے برتر تھے۔ لہذا جو قوم اور تہذیب دوسروں سے بڑھ کر اسبابِ دنیا فراہم کرنے پر قادر ہو وہی طاقتور اور غالب ہوتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کافر قوم اس طرح کے عارضی غلبہ کے باوجود آخرت کے عذاب سے دوچار ہوگی۔ وہ تہذیبی ترقی اور دنیاوی غلبہ جو مسلمانوں نے پروردگار عالم کی  مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے حاصل کی تھی اسے حاصل کرنے کے لیے اہل مغرب نے اپنے مذہب تک کو پس پشت ڈال دیا۔ چنانچہ اہل مغرب نے بڑی آسانی سے خدا اور مذہب دونوں کو اپنی زندگی سے نکال دیا انہوں نے جو نئے اصول زندگی اختیار کیے وہ یہ تھے کہ انسانوں کی اجتماعی زندگی میں خدا اور مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے اگر کوئی اپنی  ذاتی زندگی میں خدا اور آخرت کو ماننا چاہے تو مانے۔ عوام کے نمائندے پارلیمنٹ میں جو قانون چاہیں بنائیں اور جس فعل کو چاہیں حلال یا حرام قرار دے لیں۔ ریاست کی بنیاد اس نظم اجتماعی پر ہے جس کی بنیاد رنگ نسل زبان اور علاقے کے اشتراک جیسے اصولوں پر ہو۔ ہر فرد کو سرمایہ بڑھانے کی لا محدود آزادی حاصل ہے۔ اور معاشرتی زندگی میں جنسی اباحیت اور عورتوں کی مادر پدر آزادی وغیرہ۔ یہ اصول اہل مغرب کا نظریہ حیات ہے اور اہل مغرب پوری شدت سے ان اصولوں پر عمل کررہے ہیں ۔ اگر چہ اخلاقی لحاظ سے پورے کے پورے گر گئے ہیں لیکن یہی اصول ان کی دنیا بھی تعمیر کررہے   ہیں اور یہی چیز ان کو قوت عمل مہیا کرتی اور ان کو مسلسل محنت پر اکساتی ہے۔ آپ امریکہ اور یورپ میں کہیں بھی چلے جائیں کام کے اوقات میں ہر آدمی آپ کو اپنے کام میں جتا نظر آئے گا کاہلی اور کام چوری کا وہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ اہل مغرب کی ترقی کا دوسرا راز ان کے اتحاد میں پوشیدہ ہے یورپ، امریکہ، آسٹریلیا سب کو مغربی فکر و تہذیب متحد کیے ہوئے ہے ۔

تیسری بات جو مغربی اقوام کی ترقی کا سبب ہے وہ ان کی تنظیم ومنصوبہ بندی ہے 1973 میں شاہ فیصل نے مغربی قوموں کی زیادتیوں کے مقابلے میں تیل کا ہتھیار استعمال کیا جس پر اہل مغرب نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ آئندہ کوئی مسلمان مغرب کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال نہ کرسکے چنانچہ شاہ فیصل کو قتل کر دیا گیا عراق اور کویت کو سازش سے لڑا کر امریکہ نے یورپی اتحادیوں کی مدد سے سعودی عرب اور خلیج کے تیل پر قبضہ کرلیا اور اپنی فوجیں وہاں پر اتاردیں۔ اہل مغرب کا چوتھا اصول حیات یہ ہے کہ جو بھی قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں ان پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے ان کے ہاں ٹیکس چوری کوئی نہیں کرتا۔ رشوت دے کر قانون سے کوئی نہیں کھیلتا۔ یہاں تک کہ ٹریفک قوانین کی بھی خلاف ورزی نہیں کی جاتی۔ پانچواں اصول جو اہل مغرب کی بقاء کا ضامن ہے وہ ان کا ایثار و قربانی ہے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے کھربوں ڈالر اور کروڑوں انسانی جانوں کی قربانی دی۔ کمیونزم کے خلاف سرد اور گرم جنگ امریکہ اور یورپ نے ذاتی جنگ کے طور پر لڑی۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ اور اتحادیوں کے کھربوں ڈالر خرچ ہوئے اور ہزاروں فوجی مارے گئے لیکن پھر بھی امریکی رائے عامہ اپنی حکومت کی  پشت پناہ ہے۔ آپ یہودیوں کو لیجئے جو دنیا کی ایک چھوٹی سی کمیونٹی ہے لیکن اسرائیل کو قائم رکھنے کے لیے ہر یہودی باقاعدگی سے اپنی آمدنی کا 10 فیصد اسرائیل کو دیتا ہے اسرائیل کو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ صرف امریکی یہودیوں کے ہاں سے آتے ہیں۔ تعلیم کے لحاظ سے بھی اہل مغرب آگے ہیں ، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں تعلیم کی شرح 99 فیصد ہے۔ صرف امریکہ میں چار ہزار یونیورسٹیاں ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ برطانیہ تعلیم پر 5 فیصد،فرانس 11 فیصد اور جرمنی 9.5 فیصد اپنے بجٹ سے خرچ کرتاہے۔ اور امریکہ کی تو ایک یونیورسٹی کا بجٹ سارے پاکستان کے بجٹ سے زیادہ ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ تحقیق امریکہ میں ہورہی ہے امریکہ اپنی کل آمدنی کا 2.8 فیصد ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر خرچ کرتاہے امریکہ کے بعد سب سے زیادہ تحقیق یورپ میں ہوتی ہے۔ مغرب میں سیاسی نظام بھی مستحکم ہے امریکہ و برطانیہ میں دو جماعتی نظام آسانی سے چل رہا ہے کسی فوجی جرنیل کی ہمت نہیں کہ سیاسی نظام کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ 1787 عیسوی میں امریکی آئین بنا تھا اور آج تک اس میں صرف 27 ترامیم ہوئی ہیں ۔ مغرب کا  میڈیا اتنا  تیز ہے کہ جھوٹ کو سچ پیش کرکے اسے سچ ثابت کر سکتا  ہے۔ جن لوگوں کو اس نے مجاہد کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا جب اپنا مفاد بدلا تو انہی لوگوں کو دہشتگرد ثابت کردیا۔ اور مغرب کی معاشی برتری کی وجہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی سے بنا   مشینی انقلاب ہے جس نے صنعتی انقلاب برپا کرکے پیداوار کو کثرت اور منڈیوں کو وسعت دی۔

Advertisements
julia rana solicitors

عزیزانِ من۔ یہ وہ چند اصول ہے جن پر اہل مغرب عمل کرکے بام عروج تک پہنچے ہیں ورنہ ان کی تہذیب کاتو یہ عالم تھا کہ حیوانات بھی ان کے ہاں جوابدہ تھے۔ اور مسلمان جو تہذیب کے لحاظ سے برتر قوم تھی آج قرآن وسنت کے بتائے ہوئے اصولوں کو ترک کر کے زوال کا شکار ہو رہی ہے۔ آخر میں میری گزارش ہے کہ اس ملک کی  اعلیٰ عدلیہ کو چاہیے کہ پرویز مشرف کو ان کے کیسسز سے بری کردیا جائے کیونکہ فرانس کی عدالت چوہوں کو امن دیتی ہے پھر بھی جب چوہے پیش نہیں ہوتے تو چیف جسٹس انہیں بری کردیتے ہیں ۔ اور ہمارے سابق چیف جسٹس نے بھی پرویز مشرف کو امن کی ضمانت دی تھی لیکن پھر بھی وہ پیش نہیں ہوئے لہذا جب فرانس کی عدالت سے چوہے بری ہوسکتے ہیں تو ہماری عدالت سے پرویز مشرف کو چوہا سمجھ کربری کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply