دعا اہمیت،ضرورت و آداب۔۔۔۔۔ ابوعبدالقدوس محمدیحییٰ

دعا مانگتے وقت تضرع وعاجزی اختیار کریں، اپنے ضعف و کمزوری کا اظہار کریں۔رب کے سامنے دل کی گہرائی سے روئیں اورگڑگڑائیں۔ یہاں تک کہ آنکھوں سے انمول موتی چھلک جائیں جن سے جہنم کی آگ بھی سرد ہوجاتی ہے۔ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ۔ ان انمول موتیوں کی دنیا میں شایدکوئی قدروقیمت نہ ہو لیکن !
اہمیت:
دعا اللہ تعالیٰ سے رازونیازکاعمل ہے ۔یہ عرض حاجت ہے۔جس میں انسان اپنے رب سے خیراوربھلائی طلب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندہ کے مانگنے پرنہ صرف خوش ہوتا ہے بلکہ وہ بندے کو حکم دیتا ہے کہ اس سے دعا مانگے۔
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (سورة غافر: 60)”
اورتمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا”۔ایک اورمقام پر اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً (الاعراف: 55)
اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاکے اورآہستہ۔
ہرعاقل، ذی شعوراور معرفت رکھنے والے کے لئے لازم ہے کہ اپنی گوناگوں مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر اللہ رب العزت سے دعائیں مانگے۔ کتب سابقہ میں بھی اس کا حکم دیاگیاتھا جیسا کہ صحف ابراہیم علیہ السلام میں ہے :
علی العاقل مالم یکون مغلوبا علی عقلہ ان یکون لہ ساعۃ یناجی فیہاربہ۔
“عقل مند کے لئے لازم ہے کہ دن کی ایک گھڑی رب سے مناجات (سرگوشی) کرے”۔ اللہ رب العزت نےاپنی ذات سے مانگنے والے کے لئے قرآن مجید میں یہ اعلان فرمایاہے کہ وہ سائل سے قریب ہے اوراس کی دعائیں قبول کرتاہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي)البقرۃ:186)۔
اے میرے محبوب جب میرے بندے تم سے میرا پوچھیں تومیں نزدیک ہوں اورپکارنے والے کی دعا قبول کرتاہوں جب وہ مجھے پکارے۔
دعا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دعا تقدیر کوٹال دیتی ہے۔
لایرد القضاء الاالدعاء (مشکوٰۃ)۔
یا ایک روایت میں ہے:
ان الدعا والبلاء بین السماء والارض یقتتلان ،ویدفع الدعاء البلاء۔
بے شک دعا اوربلاء( مصیبت) زمین و آسمان کے درمیان جھگڑتی رہتی ہیں پس دعاء مصیبت کو دورکردیتی ہے۔یعنی جومصیبت نازل ہونے والی ہوتی وہ دعائیں مانگنے کی وجہ سے انسان سے دور کردی جاتیں ہیں اوراسے خبر تک نہیں ہوتی کون سی مصیبت کس دعا کی وجہ سے دور کردی گئی۔
حضور اکرم ﷺنے دعا کو داخلِ عبادت قراردیاہے۔
الدعا مخ العبادۃ
“دعاعبادت کامغز ہے” ۔ بالفاظ دیگردعاکوبہترین عبادت بھی کہاجاسکتاہےیعنی کہ ایک آدمی اپنے لئے نعمتیں(دنیوی واخروی) مانگ رہا ہے اور رب ان نعمتوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ اس کے مانگنے کے عمل کو بہترین عبادت قراردے کر سائل کو ثواب بھی عطا کر رہا ہے۔ کیاکہیں اور ایسا ہے کہ مانگنے پر نوازنے کے ساتھ ساتھ خوشی کااظہاراورباربارمانگنے کاحکم بھی دیاجارہاہو۔بقول مولانا رومی اللہ تعالیٰ مومن کی پکار کو دوست اور عزیز رکھتا ہے:
نالۂ مومن ہمید اریم دوست
گوتضرع کن ایں اعزاز اوست
“ہم مومن کے نالہ کو دوست رکھتے ہیں اورمومن کا تضرع کرنا اس کے لئے اعزاز ہے”۔
الغرض دعا کی اہمیت پربہت سی قرآنی آیات ، احادیث مبارکہ آثار صحابہ اور تاریخی واقعات وشواہد دال ہیں۔جن کا یہاں احاطہ ناممکن ہے ۔
ضرورت:
قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ کی شہادت کے بعد اگرچہ دعا کی ضرورت بیان کرنے کی کچھ حاجت نہ تھی لیکن انسانی فطرت ہے کہ وہ ہرشے کوجسمانی،مادی،نفسیاتی ضرورتوں کی تکمیل کے حوالے سے دیکھتا ہے یعنی وہ ان اشیاء کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے جن کےنفع ونقصان کا اسے ذاتی مشاہدہ ہوجائے یاپھروہ ماحول اور اردگرد کی چیزوں میں دیکھ لے ۔
نفسیاتی اعتبار سے بھی اگردیکھاجائے تودعاانسان کو بہت سہارادیتی ہے۔جب انسان اپنی تمام تر منصوبہ بندی،کوشش اورجدوجہد کے بعددعاکرکے اپنے معاملات اللہ رب العزت کو سونپ دیتاہے تو اس عمل سے انسان، بہادر، قوی،مطمئن،پرسکون ہوجاتا ہے۔جیسا کہ بچہ جب اپنے والد کے ہمراہ کہیں جارہاہو تو والد کی موجودگی کی وجہ سے اس بچہ کو نہ ہی راستہ بھٹکنے کا کوئی ڈرہوتا ہے اورنہ کوئی اورخوف خطر وہ اپنے اردگرد سے مکمل طور پر لطف اندوز ہوتاہےکیونکہ وہ جانتاہے اس کی حفاظت اورضروریات کی تمام تر ذمہ داری اس کے والد پر ہے۔اسی طرح دعامانگنے والا اپنے معاملات رب کے سپرد کرکے مطمئن اورپرسکون ہوجاتاہے۔اب اسے حوادث زمانہ پریشان نہیں کرسکتےکیونکہ وہ اللہ رب العزت کو” نعم المولیٰ ونعم النصیر” سمجھتا ہے ۔اوروہ اس روحانی طاقت وہمت سے ان حوادث کاپامردی سے مقابلہ کرتا ہے اوران پر غلبہ پاتے ہوئے کامیابی سے ہم کنار ہوتاہے۔
آداب:
انسانی فطرت ہے کہ کتنا ہی باریک بین ،پیچیدہ اوردشوارکام ہی کیوں نہ ہو جب انسان اس کام کو باربار کرتا ہے تو کام کے عمل سے میکانکی انداز(Mechanical Process) سے گزرجاتا ہے۔جیسا کہ انجن بنانے والا یا ڈرائیونگ کرنے والا گزرجاتاہے ۔
ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم نماز ،تلاوت ،وظیفہ اوردعاکے عمل سے بھی روبوٹ کے انداز میں یعنیFed Data پرعمل کرتے ہوئے گزرجاتے ہیں کہ ہمیں کچھ خبر نہیں ہوتی ہم کیا پڑھ اورکررہے ہیں۔جس کی وجہ سے ہم ان اعمال سے پیدا ہونے والے نور ،بصیرت اورفہم سے محروم ہیں اور ان اعمال سے پیداہونے والی اچھائیوں کے اثرات ہماری زندگیوں پرمرتب نہیں ہورہے ہیں۔ ورنہ دعا اور تلاوت قرآن میں حقیقتاً اتنی تاثیر ہے کہ اگرکوئی شخص پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹانے کے لئے بھی یقین کے ساتھ دعاکرے یا تلاوت کرے۔تو ضرور بالضرور وہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک بیماری میں مبتلا شخص کے کان میں کچھ پڑھا جس سے اسے افاقہ ہوا۔آپ ﷺنے پوچھاکہ تم نے اس شخص کے کان میں کیاپڑھا ہے انہوں نے جواب دیا کہ سورۃ المومنون أفحسبتم أنما خلقناكم عبثا سے آخرتک تلاوت کی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:لو أن رجلا موقنا قرأ بها على جبل لزال”اگرکوئی صاحب یقین اس کو پہاڑ پر بھی پڑھے تو وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔”(مسند ابویعلیٰ)
دعا پوری توجہ ،اخلاص ،یقین اوریکسوئی سے مانگنی چاہئے ۔اللہ رب العزت بے یقینی اورلاپرواہی کے ساتھ مانگی گئی دعا قبول نہیں فرماتا۔حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے:
اُدْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ۔
اللہ سے دعا اس یقین سے کیا کرو کہ ضرور قبول ہونگی اورجان لو اللہ تعالیٰ غافل اوربے پرواہ دل کی دعاؤں کو قبول نہیں فرماتا۔ (ترمذی)
دعامانگتے وقت انسان یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر توچاہے تو قبول فرما اور اگر تونہ چاہے تو نہ قبول فرما ۔اللہ پر کوئی جبر نہیں کرسکتا وہ اپنی رحمت سے ہی دعا قبول کرتاہے۔اس لئے اس یقین سےدعا مانگیں کہ انشاء اللہ ضرور قبول ہوگی۔
إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمْ فِي الدُّعَاءِ وَلَا يَقُلْ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِي فَإِنَّ اللَّهَ لَا مُسْتَكْرِهَ لَهُ۔
” جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو وہ پختگی اوریقین کے ساتھ کرے اوریہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے عطاکر بے شک اللہ تعالیٰ پر کوئی جبر کرنے والانہیں”۔(مسلم)
ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ میں بندے کے گمان کے مطابق ہوں یعنی اگروہ یہ گمان رکھتاہے کہ رب میری دعائیں قبول کرتا ہے تو وہ اس کی دعائیں قبول کرے گا اگر اس کا گمان اس کے برعکس ہوگا اللہ رب العزت بندے کے گمان کے مطابق ہے۔أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا دعاني۔”میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتاہے اورجب وہ مجھے پکارتاہے میں اس کے ساتھ ہوتاہوں”۔(مجمع الزوائد)
دعا مانگنے سے قبل اللہ رب العزت کی حمدوثناء کرنی چاہئے اورحضور ﷺ پر درود شریف کا نذرانہ بھیجناچاہئے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
إذا صلى احدكم فليبدأ بتحميد الله تعالى ، والثناء عليه ثم ليصل على النبي صلى الله عليه وسلم ، ثم ليدعو بعد بما شاء.
“جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو دعا کے آغاز میں اللہ کی حمد و ثناء کرے پھر نبی اکرم ﷺپر درود بھیجے پھر وہ جووہ چاہے دعا کرے”۔ (کنزالاعمال)
ایک اورحدیث میں آتاہے:
كل دعاء محجوب حتى يصلي على محمد صلى الله عليه وسلم وآل محمد.
“ہر دعا معلق رہتی ہے یہاں تک کہ وہ (سائل)حضرت محمد ﷺ اور ان کی آل پر درود نہیں بھیجتا”۔(الطبراني)
دعا مانگنے کے لئے ہاتھ بھی اٹھائے جائیں جیسا کہ حضور ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَعَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَسَحَ وَجْهَهُ بِيَدَيْهِ۔
“حضور ﷺ جب دعا فرماتے تو اپنے ہاتھ بلند فرماتے اورہاتھوں کو چہرہ انور پرپھیرتے”۔(ابوداود)
دعا کی ابتداء اپنی ذات سے کرنی چاہئے پھر اس میں دوسروں کے لئے بھی بھلائی اورخیر مانگنی چاہئے۔
أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَعَا بَدَأَ بِنَفْسِهِ۔
“حضور ﷺ جب دعا فرماتے تو اس کی ابتداء اپنی ذات مبارکہ سے کرتے”۔(ابوداود)
جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ رب العزت شدت اورتکلیف میں اس کی دعائیں قبول کرے اسے چاہئے کہ وہ بحالت فراخی کثرت سے دعائیں کیاکرے۔
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكَرْبِ فَلْيُكْثِرْ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ۔
“جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ رب العزت شدت اورتکلیف میں اس کی دعائیں قبول کرے اسے چاہئے کہ وہ بحالت فراخی کثرت سے دعائیں کیاکرے”۔(سنن ترمذی)
دعا مانگتے وقت یہ تصور کرنا چاہیے کہ وہ رب کریم کو دیکھ رہا ہے اوراس سے سرگوشیاں کررہاہے اگر یہ تصورنہیں کرسکتا پس اتناضرور دل میں یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہاہے۔اس تصور کے ساتھ اب تضرع وعاجزی اختیار کریں، اپنے ضعف و کمزوری کا اظہار کریں۔اس کے سامنے دل کی گہرائی سے روئیں اورگڑگڑائیں۔ یہاں تک کہ آنکھوں سے انمول موتی چھلک جائیں جن سے جہنم کی آگ بھی سرد ہوجاتی ہے۔ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ۔ ان انمول موتیوں کی دنیا میں شایدکوئی قدروقیمت نہ ہو لیکن آخرت کے لئے اجروثواب کاوہ ذخیرہ اورتوشہ ہیں جنہیں وہ میسرآگئے انہیں کسی اورچیز کی حاجت نہ ہوگی۔ یہ آنسو سخت سے سخت دل کوبھی پسیج دیتے ہیں۔ پتھردلوں کو موم میں تبدیل کردیتے ہیں اور رب کریم کی رحمت کومتوجہ کردیتے ہیں ۔ بقول مولانا روم
ہرکجا اشک رواں رحمت بود
ہرکجاآب رواں خضرت بود
“جس جگہ آنسو رواں ہوتے ہیں اسی جگہ رحمت ہوتی ہے اورجس جگہ پانی رواں ہوتاہے وہیں سرسبزہ ،ہریالی اورشادابی ہوتی ہے”
پھر اسماء حسنیٰ کا ورد کرتے ہوئے ،اس کی صفات پر کامل ایمان لاتے ہوئے غور کرے،مثلاً الخالق ،القوی،القادر، الرزاق،الشافی پر۔اور اپنی کمزوری وضعف(خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا:النساء :28)، ظلم، جہالت، ( إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا: سبا:72) عجلت(خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ:الانبیاء:37) کا احساس کرتے ہوئے دعا عجز و انکسارسے مانگے ۔ اس کے سامنے روئے گڑگڑائے ، فریاد کرے اےرب میں تیرے غضب اورعذاب کامتحمل نہیں ہوسکتا اور تیری رحمت کی دوری کو بھی دنیا اور آخرت میں برداشت نہیں کرسکتا مجھے معاف فرمااورمیری خطاؤں سے درگزرفرما۔ اپنی اخروی اوردنیوی کامیابیوں فوز وفلاح کی بالیقین دعا مانگے ۔ اپنی جائز دنیاوی حاجات طلب کرے ، چھوٹی چھوٹی چیزیں اورحاجتیں بھی اپنے رب سے مانگے ، اپنے اوراپنے مسلمان بھائیوں کے لئے ہدایت، عافیت،رحمت ،جنت مانگے۔ پھر اپنی عجلت ،ناامیدی اورناشکری(إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ:الزخرف : 15) جیسی منفی صفات پر غلبہ پاتے ہوئے صبر سے انتظار کرے۔ رب العزت اسے دنیا اورآخرت دونوں جہانوں میں نوازے گا اورو دل میں ایک خاص سکون کی کیفیت پیدافرمادے گا جو اس کے لئے نعمتِ غیر مترقبہ ہوگی۔
دعا:
دعا مناجات،عبادت ،اطاعت، رازو نیاز اور بہترین ہتھیار ہے ۔یہ ایسا عمل ہے جو تقدیرکوبھی بدل سکتا ہے۔ اس لئے آئیں انتہائی خشوع وخضوع اورخلوص سے دعا کے تمام آداب ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے رب کے حضور دعا کے لئے ہاتھ بلند کریں ۔
اے اللہ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، اے اللہ! جو تو پھیلا دے اسے کوئی سمیٹ نہیں سکتا ، جسے تو دور کردے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا ، جسے تو قریب کردے اسے کوئی دور نہیں کرسکتا ، جس سے تو قبض کرلے اسے کوئی دینے والا نہیں ہے اور جسے تو عطاکرے اس سے کوئی چھیننے والانہیں ۔اے اللہ! ہم پر اپنی رحمتیں ،برکتیں، فضل نازل فرما اور بہترین رزق عطا فرما ۔ اے اللہ! ہم تجھ سے کبھی نہ ختم ہونے والی نعمتوں کا سوال کرتے ہیں جو ہمیشہ قائم رہیں اور تیری اطاعت میں حائل نہ ہوں ۔ اے اللہ!ہم تجھ سے ہر تنگی میں آسانی اورہر جنگ کے دن امن کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اس چیز کی برائی سے جو تو نے عطا کی اور اس چیز کے شر سے جو تو نے ہم سے روک لی۔
اے اللہ ہماری گمراہی کو ہدایت سے، ظلمت کو نورسے ،کج روی کو صراط مستقیم سے، شقاوت کو سعادت سے،جہالت کو علم نافع سے، بدامنی کو امن سے،بے باکی کو حیاء سے، انتشار کو اتفاق سے، افتراق کو اتحاد سے، کمزوری کو طاقت سے ،بزدلی کو بہادری سے،حزن کو خوشی سے، سنگدلی کو نرم دلی سے،مایوسی کو امید سے،شکستگی کو سلامتی سے ، مرض کو صحت سے، تنگدستی کو تونگری سے تبدیل کردے۔اورہمیں رحمت وبرکت،سکون ومحبت،طمانیت وقناعت اور ہمت و حوصلہ عطافرما جوہم سے روٹھ چکا ہے۔آمین بجاہ سید الامین الکریمﷺ
فسھل یاالھی کل صعب
بحرمۃ سید الابرارسھل

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply