• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہندو مسلم دشمنی کی کہانی یا تقسیم کی شعوری کوشش۔۔۔۔ڈاکٹر عرفان شہزاد

ہندو مسلم دشمنی کی کہانی یا تقسیم کی شعوری کوشش۔۔۔۔ڈاکٹر عرفان شہزاد

یہ نظریہ کہ ہندوستان میں ہندو، مسلمانوں کے ساتھ اس لیے ٹھیک رہے کہ حکومت مسلمانوں کی تھی، تاریخی تناظر میں ایک غلط مفروضہ ہے۔ ہندوستان پر مسلمانوں کے حملوں سے بہت پہلے سے مسلمان عرب تاجر یہاں آباد ہوئے۔ وہ مقامی آبادی کو مسلمان کرتے رہے۔ ہندوؤں کی طرف سے اس کے خلاف کوئی قابلِ ذکر مخالفت نہیں ہوئی۔ مسلمان کی تعداد میں بے دھڑک اضافہ ہوتا گیا۔ مسلمان ہو جانے پر حکومتی دباؤ تو رہا ایک طرف، سماجی دباؤ تک کا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔
ہندوؤں نے ویسے تو ہر مذھب کو خوش آمدید کہا، لیکن اسلام دیگر مذاھب سے اس لحاظ سے بالکل مختلف تھا کہ یہ بت پرستی اور شرک کی ہر صورت کی سخت نفی کرتا تھا۔ اس کے باوجود ہندوؤں نے مسلمانوں کو اپنے ہاں آباد ہونے دیا اور کوئی مسئلہ پیش نہ آیا۔ قدیم دور میں بھی ہندوستان میں حیرت انگیز طور پر مذھبی جبر کی عدم موجودگی کا درست اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو مذاھب کی تبلیغ میں ہونے والی جبر اور انسانیت سوز مظالم سے واقف ہیں۔ یورپ اس معاملے میں جس قابل تعریف فراخ دلی کا مظاہرہ آج کر رہا ہے، ہندوستان میں یہ ہزاروں سال سے موجود رہی تھی۔
وسط ایشیا کے مسلم حکمران پورے برّصغیر پر مکمل قبضے قائم رکھنے میں کم ہی کامیاب ہوئے۔ ان میں سے بھی صرف تین یا چار مسلم حکمران اسلام پسند تھے باقی سب سیکولر تھے اور اپنی رعایا سے ایک جیسا اچھا اور زیادہ تر برا سلوک کرتے تھے۔
ان مسلم حکمرانوں کا مسلم ہونا ہندوؤں میں اسی وجہ سے زیر بحث نہیں آتا تھا کہ مذھب کو وہ مسلم حکمران سیاست میں استعمال نہیں کرتے تھے۔ چُناں چِہ انھیں غیر ملکی فاتحین اور قابضین تو سمجھا جاتا تھا لیکن ان کی مسلم شناخت کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتی تھی۔
اس سے اندازہ لگائیے کہ جنگِ آزادی 1857 میں کمزور ترین مغل بادشاہ، بہادر شاہ ظفر کو تمام ہندوستانیوں نے متفقہ لیڈر مان کر جنگ لڑی تھی۔ جنگ کامیاب ہو جاتی تو مغل حکومت بحال ہو جاتی۔ یعنی اس دور تک مسلم حکمران جو بالکل کمزور حکمران تھا، ہندوؤں کے لیے قابل قبول تھا بلکہ وہ اسے اپنا اور انگریزوں کو غیر سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلے میں بے شمار ہندو راجے مہاراجے بھی موجود تھے مگر اپنا قائد انھوں نے اپنی آزاد مرضی سے ایک مسلم بادشاہ کو ہی چنا۔
ہندو مسلم تہذیبی طور پر جب تک ایک رہے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ مگر جب مذھب کو سیاسی اکائی بنایا گیا اور اس کی بنیاد پر انگریز نے جدا گانہ انتخابات کا ڈول ڈالا تو ہندو مسلم سیاسی رقابت کا آغاز ہوا لیکن یہ بھی بڑی مشکل سے ہوا۔ 1909 میں جداگانہ انتخابات متعارف کروائے اور 1936 کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ کو مسلم ووٹ نہ مل سکا۔ تاہم مسلم لیگ کی مسلسل کوششوں سے مسلمانوں کی علیحدہ مذھبی سیاسی شناخت قائم ہو ہی گئی اور ہندو سے سیاسی رقابت پیدا کر لی گئی۔ ہندو قومیت کا نظریہ اسی کا رد عمل تھا جسے یہ سب ہو جانے کے باوجود ہندو اکثریت کی حمایت نہ مل سکی اور ہندوستان ایک سیکولر ملک ہی بنا۔ مگر رقابت کے الاؤ کے مسلسل جلتے رہنے سے ہندو قومیت کا جوابی بیانیہ بھی طاقت ور ہوتا چلا گیا ہے جس سے خانہ جنگی یا بد امنی کا اندیشہ مسلسل رہنے لگا۔ بہرحال یہ بیانیہ بعد میں گھڑا گیا کہ ہندو مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ یہ ازلی دشمن نہیں تھا اسے بنایا گیا ہے۔
پہلی مسجد ہندو راجہ نے کیرالہ میں بنا کر دی، جب مسلم عرب تاجر یہاں آباد ہوئے۔ مسلمان پانچ وقت لاؤڈ سپیکر میں آذان دیتے رہے، ہزاروں بلکہ لاکھوں مساجد سے یہ آواز پورے ہندوستان میں پانچ وقت گونجتی ہے، مگر وہ اس سے بھی تنگ نہیں پڑے، فجر کی آذان سن کر ان کی نیند بھی متاثر ہوتی ہوگی مگر وہ کبھی وہ اسے بند کرانے نہیں چل پڑے۔ ہزاروں مدارس کھلے، صوفیا کے حلقے اور مزار قائم ہوئے، مسلمانوں کی بستیان آباد ہوئیں مگر ہندو مسلم سماجی تعامل قائم رہا۔ مسلمان ان کی مقدس گائے، جسے وہ ماتا کہتے ہیں، قربان کرتے رہے اور وہ اسے بھی برداشت کرتے رہے۔ مگر جب سیاسی وجوہات کی بنا پر ان دونوں کے درمیان دشمنی کا آغاز ہوا تو محل نزاع گائے ہی بنی، پورا مذھب پھر بھی نہی بنا۔ ادھر مسلمانوں نے گائے کی قربانی کو قومی وقار کا معاملہ بنا لیا اور اپنی جان پر کھیل کر بھی اسے قربان کرتے ہیں۔ بلکہ ہمارے دور اندیش علما نے یہ فتوی بھی دیا کہ کسی اور ملک میں ہو تو چاہے گائے کی قربانی نہ کی جائے مگر ہندوستان میں ایک مسلمان کی مسلمانیت تب مانی جائے گی جب وہ گائے کی قربانی کا قائل اور اس پر عامل بھی ہو۔
ہندو مسلم میں ایک دوسرے سے نفرت اور حقارت کے عناصر بھی ان میں اسی طرح موجود رہے جیسے ہر زندہ سماج میں ہوتے ہیں جیسے ہمارے ہاں مسیحیوں اور دیگر اقلیتی مذاھب اور برادریوں کے بارے میں حقارت آمیز احساسات عوام کی ایک بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی قومی سطح کے فسادات تک لے کر نہیں جاتے اور نہ ایسے احساسات کی بنا پر کوئی علیحدگی کی تحریکیں اٹھ جاتی ہیں۔ دیگر مذاھب کے ساتھ رواداری اور محبت کا تعامل ہمیشہ زیادہ عام رہتا ہے اور نفرت اور حقارت آمیز رویوں کو اجتماعی انسانی ضمیر رد کرتا ہے۔ مگر موقع پرست قومی رہنما کمزوریوں اور خامیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نمایاں کرتے ہیں اور اقلیتی رویوں کو پوری قوم کا رویہ بنا دیتے ہیں۔
برّ صغیر کی تہذیب سے کاٹنے کا عمل مسلم علماء نے شروع کیا۔ ہندوؤں کے مذھب اور مذھبی رسوم سے اجتناب کرانے کی احتیاط میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے انھوں نے مسلمانوں کے لباس ٹوپی وغیرہ میں امتیازات قائم کرائے۔ ہندوؤں ہی کے کچھ لباسوں کو مسلم لباس باور کرا دیا۔ خصوصاً راجپوتوں کے لباس جو بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے نام بھی عربی اور فارسی نام رکھنے لگے۔ فارسی نام اس لیے مسلمان قرار پائے کہ اس وقت کے عرب مسلمان ہونے والوں کی قومییت اور تہذیب کو بدلا نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ فارسی نام بھی اسلامی نام قرار پائے۔ مگر یہ وسعت نظر ہندوستان میں آتے آتے کھو گئی اور تہذیب و ثقافت کی ہر اس چیز میں بھی امتیازات قائم کیے گے جن کا مذھب سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ مذھب نے اس کا حکم دیا تھا۔ یوں ہندوستان میں ہندو مسلم ثفافت میں تفریق کی بنیاد پڑی۔ اسی بنیاد پر اردو اور ہندی کے نام سے ایک ہی زبان کو رسم الخط کی بنا پر دو زبانیں باور کرانے کی بھونڈی مگر کامیاب کوشش سے مزید گہرا کیا گیا۔ پھر قومی ہیرو بدلے گے۔ وہی سیکولر مسلم حملہ آور غزنوی، غوری، تغلق، خلجی، لودھی وغیرہ مسلمانوں کے ہیرو بنے اور ان سے لڑنے والے مقامی راجے محض مذھب کی بنا پر مسلمانوں کے دشمن قرار پائے۔ مسلمانوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ یہ مسلم حملہ آور تو خود مسلمانوں سے بھی لڑ کر ہندوستان پر قبضہ کیا کرتے تھے۔ اس دور کے ان مسلم حکمرانوں کا عوام کے ساتھ سلوک علم میں ہو تو لوگوں کو معلوم ہو کہ مسلم حکمرانوں کا مسلم ہونا کیوں زیر بحث نہیں آتا تھا۔ یہ لوگ لگان وصول کرنے کے لیے ہر ظلم و ستم کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کسان کھیت کھلیان چھوڑ کر جنگلوں میں بھاگ جاتے اور ڈاکو بن جاتے تھے۔ عوامی فلاح و بہبود کا کام ان کا ایجنڈا ہی نہیں ہوتا تھا۔ خال خال ہی کسی نے ترس کھا کر عوامی فلاح کے کچھ کام کرائے۔ جو سڑکین پل یہ بناتے تو وہ بھی اپنی فوجوں کی نقل و حرکت کے لیے بناتے تھے۔ ان کا کام عوام سے ٹیکس وصول کرنا اور بدلے میں کچھ نہ دینا ہوتا تھا۔ ٹیکس وصول کرنے کا کام مقامی جاگیرداروں کے ذمے تھا اور وہی جاگیردار بادشاہ کا چہیتا ہوتا تھا جو زیادہ ٹیکس وصول کر کے بادشاہ کو پیش کرے۔ مظالم کی طویل داستانیں ہیں جو ان بادشاہوں نے برپا کیں جنھیں آج ہیرو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ احمد شاہ ابدالی جس کے سر مسلمانوں کی مدد کے لیے آنے سہرا باندھا جاتا ہے، اس سے متعلق ساری تاریخ سازی بابا بلھے شاہ کے ایک شعر سے تلپٹ ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں:
کھاہدا پیتا لاہے دا
باقی احمد شاہے دا
(جو کھا پی لیا وہ حاصل ہے جو بچ گیا وہ احمد شاہ ابدالی کی فوجوں نے لوٹ لے جانا ہے۔)
ہندو مسلم دشمنی کی پیدائش میں اگلی کسر انگریز نے جدا گانہ انتخابات متعارف کروا کر کر دی۔ مسلم لیگ نے ان خطوط پر ہندو مسلم نفرت کو پروان چڑھایا اور مذھب کے نام پر انسانوں کو تقسیم کرا دیا۔
ان تمام مصنوعی تقسیموں کے با وجود اس زمین کے باشندے علیحدہ ہو سکے اور نہ کبھی علیحدہ ہو پائیں گے۔ ان کے درمیان کوئی سدِ سکندری تعمیر کرنا ممکن نہیں۔ انسانوں کو امتیازات اور اختلافات کے باوجود ساتھ رہنا سکھانا ہی اصل ہمدردی ہے۔ ہمارے خطے کے امن و بقا کے لیے ضروری ہے کہ درست تاریخ پڑھائی جائے اور اس کی روشنی میں مستقبل کے خطوط وضع کیے جائیں ورنہ خیالی دشمنی میں ہم دو نسلیں تو گنوا چکے۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply