بدن (54) ۔ چال/وہاراامباکر

کسی کو معلوم نہیں کہ ہم چلتے کیوں ہیں۔ پرائمیٹ میں 250 انواع ہیں اور صرف انسان ہی دو ٹانگوں پر چلنے والی مخلوق ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ دو ٹانگوں پر چلنا انسان کے لئے ہائی فنکشن والے دماغ جتنی ہی خاص صلاحیت ہے۔

اس بارے میں کئی تھیوریاں پیش کی جا چکی ہیں کہ دور دراز کے اجداد سے سیدھا کھڑا ہو کر دو ٹانگوں پر چلنے والی مخلوق تک کا سفر کیسے ہوا۔ ہاتھ آزاد کروا کر اشیا اور بچے اٹھانے کے لئے ۔۔۔ کھلے میدان میں دور تک دیکھ لینے کے لئے ۔۔۔ پتھر دور تک پھینک لینے کے لئے ۔۔ لیکن جو بھی ہے، دو ٹانگوں پر چلنے کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اور جب دور دراز کے اجداد میں دیکھا جائے تو یہ جانداروں میں کچھ خاص ڈراونے نہیں تھے۔ ایتھیوپیا سے 32 لاکھ سال پرانا ملنے والی مشہور نیم انسانی باقیات (جو لوسی کہلائی جاتی ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ قد صرف ساڑھے تین فٹ اور وزن صرف ساٹھ پاونڈ تھا۔ یہ ایسا جسم بالکل نہیں تھا جس سے چیتے یا شیر خوف کھائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
شاید لوسی اور اس کے قبائلی رشتہ داروں کے پاس کھلے میدان کے سوا کچھ اور انتخاب ہی نہ ہو۔ موسم بدلنے سے جنگل کی رہائش نہ رہی ہو۔ اور اپنے زندگی چلانے کے لئے دور سے دور جانا پڑا ہو۔ لوسی کے ڈھانچے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ دو ٹانگوں پر چلنے کی صلاحیت تھی لیکن یہ مخلوق درختوں پر بھی وقت گزارا کرتی تھی۔ 2016 میں ٹیکساس یونیورسٹی کے علم الانسان کے ماہرین نے نتیجہ نکالا کہ لوسی کی موت درخت سے گرنے سے ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلنا بڑی مہارت کا کام ہے۔ صرف دو ٹانگوں کی سپورٹ میں ہمیں گریویٹی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ اپنے جسم کو آگے دھکیلنا اور ٹانگ کو بھگا کر اس جگہ تک لے آنا۔ چلنے والے کا 90 فیصد وقت میں کم از کم ایک پیر زمین پر نہیں ہوتا۔ اپنا توازن قائم رکنے کے لئے مسلسل غیرشعوری طور پر ایڈجسٹ کرتے رہنا پڑتا ہے۔ ہمارا گریویٹی کا مرکز بلند ہے جو کمر سے ذرا اوپر ہے اور یہ توازن میں مدد نہیں کرتا۔
ہمارے جسم کے ڈیزائن میں دو ٹانگوں پر چلنے کی صلاحیت سپورٹ کرنے کے لئے کئی چیزیں ہیں۔ گردن لمبی اور سیدھی ہے اور کھوپڑی میں درمیان میں آ کر ملتی ہے۔ ہماری کمر لچکدار ہے۔ گھٹنے بڑے ہیں۔ اور ران کی ہڈیاں بڑی خاص زاویے پر ہیں۔ آپ کا خیال ہو گا کہ ٹانگ سیدھی نیچے جاتے ہیں۔ لیکن گھٹنے تک ہڈی اندر کی طرف زاویہ بناتی ہے۔ اور اس وجہ سے گھٹنے سے نیچے ٹانگیں قریب ہیں۔ اور یہ ہمیں بڑی باوقار چال دیتی ہیں۔ کسی بھی ape کو انسان کی طرح چلنا نہیں سکھایا جا سکتا۔ ان کی ہڈیوں کا سٹرکچر ہی ایسا ہے کہ اگر وہ دو ٹانگوں پر چلیں گے تو یہ لڑکھڑاتی ہوئی بھدی چال ہو گی۔ ایک چمپینزی کے لئے زمین پر چلنے میں ہمارے مقابلے میں چار گنا زیادہ توانائی صرف ہو گی۔ اور اس کی وجہ جسمانی ڈیزائن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply