ڈرامہ” رانجھا رانجھا کر دی” پر اظہارِ خیال۔۔۔۔رمشا تبسم

نجی ٹی وی کا ڈرامہ سیریل ’’ رانجھا رانجھا کردی‘‘ اپنا خوبصورت سفر مکمل کر کے اختتام پذیر ہو گیا۔فائزہ افتخار کا  تحریر کردہ ڈرامہ سیریل کے ہدایت کارکاشف نثارہیں۔مومنہ درید پروڈکشنز کی پیشکش کے نمایاں اداکاروں میں اقراء عزیز،عمران اشرف،سید جبران،کاشف محمود،زیب رحمن،محمد نور الحسن ملک اور دیگرشامل ہیں۔

“رانجھا رانجھا کردی” کی کہانی ایک خوبصورت اور  زندگی کو باوقار طریقے سے جینے کی خواہش رکھنے والی لڑکی نور بانو کے گرد گھومتی ہے ۔نور بانو کے ماں باپ محلے کا کچرا اٹھا کر گھر کا گزر بسر کرتے ہیں جس کی وجہ سے نور گھر کے ماحول سے بہت اکتائی ہوئی تھی وہ کیڑے مکوڑوں کی طرح جینا اور مرنا نہیں چاہتی ۔ لہذا اپنی باوقار زندگی کی خواہش کی تکمیل کے لئے وہ شہر کا رخ کرتی ہے۔جہاں حاجی صاحب کی فیکٹری میں کام سے اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے۔اِسی جستجو میں اسکی ملاقات ساحر اور بھولا سے ہوتی ہے۔ ساحر جو  کہ  عام سی دکان پر ملازم تھا۔ نوری کو صرف عزت کی زندگی کی خواہش تھی لہذا ساحر کی غربت کو نظر انداز کر کے نوری کو اسکی عزت دار زندگی سے محبت ہو گئی ۔ساحر,نوری کے خوابوں کا وہ شہزادہ بن گیا حو چاہے تخت و تاج کا مالک نہ  سہی مگر محبت کا بے تاج بادشاہ ضرور تھا۔نوری ساحر کے ساتھ عزت کی زندگی گزارنے کی خواہش میں ہر جتن کرنا چاہتی تھی۔یہاں تک کہ  اس نے ساحر کو پولیس سے بچانے کے لئے حاجی صاحب کے گھر چوری بھی کر لی مگر عزت نہیں بیچی۔ہاں کسی حد تک رسوائی کا داغ ماتھے پر سجا لیا۔ساحر کی بے وفائی نوری اور بھولے کے ملاپ کی وجہ بنتی ہے۔”رانجھا رانجھا” کرتی نوری کو رانجھا ہونے تک کے سفر میں بہت بار گرنا پڑا۔کئی  بار جو نعمتیں اور عزت اس کو عطا کی گئیں  اس کی ناشکری کی اور اکثر ان نعمتوں سے منہ موڑ کر راہِ فرار بھی حاصل کرنا چاہا ۔کچرے سے اٹھ کر محل کی  زینت بننے کے باوجود بھی نوری ادھورے پن کا شکار رہی۔اور بالآخر نوری اپنے رانجھا کے رنگ میں رنگ گئی اور سب کو اس رنگ میں رنگنے کی خواہش مند بھی نظر آئی۔

بہترین پہلو
ڈرامے کی سب سے خاص بات اسکی منفرد کہانی اور اداکاروں کی بہترین کارکردگی تھی۔عصمت اقبال(نوری کی ماں) اور نوری کا باپ غربت کی دلخراش تصویر پیش کرتے ہوئے نظر آئے۔جن کی جھونپڑی کا کونا کونا غربت اور ان کی بے بسی کو ظاہر کر رہا تھا۔اماں جنتے  کو ایک غریب مگر سچا ہمدرد دکھایا گیا جس نے آخری دم تک نوری سے خونی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنا انسانیت کا رشتہ نبھایا۔نوری کا حاجی صاحب کو عزت نہ  بیچنا بھی ایک بہترین عمل تھا۔خواہ اس کے بعد بھی جو اس نے کیا وہ بھی کسی حد تک غلط تھا۔ فیکٹری مالکن ایک بہترین عورت رہی جس نے نوری کو نوکری بھی دی عید پر تحفے تحائف بھی۔بھولے کی ماں کی محبت بھی ایک مثالی ماں کی محبت تھی جو ہر صورت اپنے بچے کے لئے فکر مند نظر آئی۔۔
بھولے کی اپنی  دلہن سے محبت لاجواب رہی۔جو آخر تک اتنی ہی شدت سے قائم رہی جتنی شدت سے شروع ہوئی ۔سب سے اہم بات کسی کا غربت  یا کچرے میں پیدا ہونا اسکی زندگی کا روگ نہ  بنا دیا جائے بلکہ اسکے کردار اسکے خلوص کے مثبت پہلو نظر میں رکھ کر جج کرنا چاہیے ۔

منفی پہلو
ڈرامے میں فہمیدہ کی بحیثیت ماں خود غرضی بہت نمایاں تھی۔جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ  اسکا بھولا بیمار ہے کسی نا کسی طرح کسی لڑکی سے اس کی شادی کی خواہش مند نظر آئی۔یہاں تک کہ  نوری سے شادی کے بعد بھی نوری نے جب بھولے کا خیال رکھا, اسکو سنبھالا بھی, اس وقت بھی بھولے کی شکایت لگانے پر فہمیدہ کو نوری کی کوئی خدمت یاد نہ  آئی  اور اس نے صاف کہا کہ  تم مجھے اس وقت تک عزیز ہو جب تک تمہیں بھولا عزیز ہے۔یہاں تک کہ  آخر میں بھی وہ بھولے کو بچا کر نوری کا بچہ دربار پر چھوڑنے کو تیار تھی۔
دوسرا منفی پہلو نصرت میاں کی خودغرضی تھی۔جو پہلے کومل کی بھولے سے شادی پر بھی تیار تھا اور بعد میں ساحر جیسے چالاک آدمی سے بھی۔ صرف کچھ ضروری تھا تو پیسہ باقی فہمیدہ کا نصرت پر بھروسہ کسی خاطر میں نہیں آیا لہذا اسکی اولاد کو تمام عمر پاگل بنانے کے جتن کرتا رہا۔
نوری کا کردار شروع سے آخر تک کشمکش کا شکار رہا۔جہاں وہ عزت کی زندگی کی خاطر شہر کا رخ کرتی ہے اور اسی عزت کو داؤ پر لگا کر جیل پہنچ جاتی ہے ۔پھر عزت کی زندگی چھوڑ کر کسی کے نکاح میں ہوتے ہوئے بھی گھر سے فرار ہونا چاہتی ہے۔۔آخر میں نوری کی تمام غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈال دیا گیا۔جب کہ  نوری کسی بھی طرح سے بھولے سے مخلص نہیں رہی یہاں تک کہ  بہت پہلے ساحر اشارہ دے چکا تھا کہ  وہ بھولے کو مروانے کی تیاری میں ہے۔نوری بھولے کو ادویات بھی دیتی رہی۔وہ وفادار بیوی نہیں تھی اور نہ  ہی وفادار بہو ثابت ہوئی۔آخر میں ساحر اپنی ماضی کی چوری کا اعتراف نہ کرتا تو نوری بیشک اس کے ساتھ بھاگ جاتی۔مگر اب اس کے پاس صرف بھولے کی چوائس تھی لہذا اس نے بھولے کو چُنا۔
ساحر اور نصرت میاں کا انجام دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی۔ساحر اور نصرت کسی سزا کے مستحق تھے جو کہ وہ نہیں دکھائے گئے۔
ڈرامے میں بھولا اپنی ماں اور نوری اپنے والدین کے ساتھ انتہائی برا رویہ اپنائے ہوئے  دکھائے گئے۔جنہوں نے ماں باپ کی عزت نہیں کی۔نوری کی ماں جیسے بھی روٹی لاتی وہ اپنے بچوں کے لئے لاتی تھی جسے نوری نے ہمیشہ دھتکارا اور چوری سے ہاتھ کالے کرنا گوارا کئے مگر ماں کی مانگ کر لائی ہوئی روٹی کھانا منظور نہیں تھا۔
سب سے کمزور پہلو فہمیدہ کا آخر میں نظر آیا جو پورے ڈرامے میں بھولے پر آنچ نہیں آنے دیتی مگر جب ساحر بھولے کو دھکے دیتا ہے تو وہ بے بس نظر آتی ہے۔

“رانجھا رانجھا کر دی” کا ذکر ہو تو بھولا کے کردار پر روشنی ڈالنا بہت ضروری ہے۔

بھولا(عمران اشرف)رانجھا رانجھا کردی میں جہاں تمام کردار بہت خوبصورتی سے لکھے اور نبھائے گئے۔وہاں بھولا کا کردار نا صرف بہترین طریقے سے لکھا گیا بلکہ عمران اشرف نے اس کردار کو نبھا کر ڈرامے کو نہیں بلکہ ایکٹنگ کی دنیا کو چار چاند لگا دئیے۔بھولا ایک معصوم اور پاگل سا لڑکا جو دنیا کی چالاکی اور سازشوں سے دور محبت کی زبان بولنے اور سمجھنے والا ہے۔بھولا ایک کریکٹر نہیں بلکہ ایکٹنگ کی پوری ایک کتاب یا ایکٹنگ کی مکمل دنیا ثابت ہوا۔ڈرامے میں بھولا کی اینٹری “میں ہوں اور میرے ساتھ بھی میں ہوں”سے ہوئی۔پھر پاکستان کا کوئی کونہ ,گلی کوچہ ,علاقہ ایسا نہیں جہاں بھولا کا “میں ہوں اور میرے ساتھ بھی میں ہوں” نہ  بولا گیا ہو۔
بھولا کی ایکٹنگ ترچھی عینک, نگاہیں پھیرنا ,نظریں چرانا ,ہاتھوں کو موڑنا, پاؤں کو ٹیڑھا کر کے گھسیٹ کر چلنا ,انگلیوں کا جال بنانا , دھیمی دھمیی ہنسی لانا, گردن جھکانا, منہ پھلانا,ہر طرح سے بھولے نے اپنا رنگ اتنا گہرا چھوڑا کے اگر عمران اشرف کے علاوہ کوئی اور ایکٹر ہوتا تو شاید بھولا کا کردار مر جاتا۔مگر بھولا اب ایکٹنگ کی دنیا کا ایک معیار بنا دیا گیا۔”ہائے ہائے مزے” کرتا بھولا راتوں رات ہر زبان پر جاری ہو گیا۔ہر شخص ڈرامے کے نام کی بحائے آج “بھولا “لگنا ہے کہتا نظر آیا۔
ڈرامہ کی مقبولیت میں تمام ٹیم شامل ہوتی ہے مگر رانجھا رانجھا کر دی کو مقبول کرنے کے لئے صرف ایک بھولا کا کردار کافی رہا۔۔نا صرف رائٹر نے اس کردار میں جان ڈالی بلکہ عمران اشرف نے اس کردار کو اتنی خوبصورتی سے نبھایا کہ  دیکھنے والے دنگ رہ گئے ۔
بھولا ہم ہائے ہائے مزے کے اثر سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔اور جو “میسنی گھنی” آپ ڈرامے میں سب کو کہتے تھے یہ کردار نبھا کر آپ نے ثابت کردیا کہ  آپ ایکٹرز میں میسنے اور گھنے ہیں جو اتنے عرصے سے اتنی زبردست ایکٹنگ چھپا کر بیٹھے تھے۔

حرفِ آخر
تاہم ان چند نکات کو چھوڑ کر ڈرامہ کافی دلچسپ رہا اور اپنے منفرد کرداروں کی بدولت دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز رہا۔اس کے سٹار کاسٹ نے ناظرین کے دل موہ لئے اور ڈائریکٹر کی گرفت کافی مضبوط رہی۔

میں ٹیم رانجھا رانجھا کردی کے تمام افراد کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔اور رائٹر کا بہت شکریہ جنہوں نے ہمیں ڈرامہ کی طرف دوبارہ متوجہ کیا اور سب سے بڑھ کر عمران اشرف کو اس کردار کو مکمل خوبصورتی سے نبھانے پر مبارکباد۔رانجھا رانجھا کر دی کا سفر درحقیقت ڈرامہ کا اختتام ضرور ہے مگر ڈرامہ انڈسٹری میں جدت کی نئی  لہر بھی ہے۔
پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کچھ عرصہ سے عجیب صورتحال کا شکار تھی جہاں رائٹر اور ایکٹرز کا مقصد صرف خانہ پوری کرنا تھا یا پھر سکرین پر نظر آنا۔بہت ہی کم ڈرامے گزشتہ سالوں میں ایسے سامنے آئے جن میں کوئی سبق دیا گیا ہو یا ایکٹرز کی ایکٹنگ نے دل موہ لیا ہو۔ہر طرف ریٹنگ کی ریس ہے۔ہر چینل کو بے شمار ڈرامے بیک وقت لگانے ہیں خواہ کہانی کوئی بھی ہو یا ایکٹر جو بھی ہو۔ڈرامے اور ایکٹنگ کا معیار اس قدر گر چکا تھا کہ  لوگ ڈراموں سے دور ہو گئے۔۔اب کون ایک ہی طرح کی مختلف چینل کی کہانیاں مختلف چہروں کے ساتھ دیکھے۔جن میں یا تو ایک شوہر نے دوسری شادی کرنی ہے یا ایک عورت نے شوہر سے طلاق لے کر بعد میں حلالہ کرنے کی جدوجہد کرنی ہے۔بہن نے بہن کا گھر اجاڑ کر اپنا گھر بسانا  ہے یا پھر دو سہیلیوں نے ایک ہی لڑکے سے شادی کرنی ہے۔ایسی کہانیاں نہ تو کوئی معاشرے میں مثبت سوچ پیدا کرتی ہیں نہ  ہی ایکٹرز کو ایکٹنگ کے جوہر دکھانے کا موقع ملتا ہے۔سارا ڈرامہ گھر کی چار دیواری اور چار افراد کے گرد گھومتا ہے جس میں کوئی دفتر جاتا ہے دفتر سے آتا ہے اور مکمل کہانی میں گھریلو مسائل کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
ایسے میں “رانجھا رانجھا کردی” ڈرامہ سیریل نے ڈرامہ انڈسٹری کو ایک نئی پہچان دی۔نا صرف رائٹرز بلکہ ایکٹرز کے لئے بھی ایک “بنچ مارک” سیٹ کردیا۔اب رائٹرز, ایکٹرز اور ڈائریکٹرز کے لئے “رانجھا رانجھا کر دی” کی کہانی سے لے کر اختتام تک کی ایکٹنگ ایک مثالی اور معیاری کام ہے۔جس سے بہتر کام اب آئے گا تو سراہا جائے گا ورنہ بوسیدہ کہانیاں اور صرف سوٹ بوٹ میں چہرے دکھا کر تاثرات کے بغیر کام کی اب پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری میں کوئی جگہ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نیک تمناؤں کے ساتھ خدا حافظ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply