بانوے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔۔علی اختر

یہ سن بانوے  کی بات ہے ۔ وہ والا بانوے  نہیں جس میں پاکستان نے مشہور زمانہ ورلڈ کپ جیتا ۔ ارے وہ تو بہت اچھا دور تھا ۔ میں بہت پہلے کی یعنی 1592 کی بات کر رہا ہوں ۔ یہاں عرب ساگر کے کنارے مچھیروں کی ایک بستی تھی ۔ چھوٹی سی بستی ۔ تب یہاں کوئی  بڑا انٹرنیشنل دو کروڑ کی  آبادی کا شہر نہیں تھا ۔ بلکہ ایک چھوٹی سی گمنام  آبادی تھی ۔ سندھ پر کلہوڑوں کا راج تھا ۔ ہاں یہ بات ٹھیک تھی کہ  کلہوڑا راج مغلوں کی سرپرستی میں قائم تھا۔ ہاں ہاں مانا کہ  مغل افیم ، معجون کے رسیا تھے ۔ کنیزیں اور بیویاں بھی بہت تھیں لیکن پھر بھی اچھے حکمران تھے ۔ مغل دور میں ہندوستان میں بہت ترقی ہوئی  لیکن وہ یہاں سے بہت دور رہتے تھے ۔ دہلی ، آگرہ ، فتحپوری سیکری وغیرہ میں ۔ آسانی کے لیئے آپ اسلام آباد سمجھ لیں ۔ اب وہاں رہ کر کیسے خبر ہوتی ہوگی کہ  یہاں کیا ہو رہا ہے ۔ ہاں آج کی بات اور ہے۔۔۔۔

خیر میں کہانی کے مرکزی کردار سے دور ہو جاؤنگا ۔ تو بات ہو رہی تھی مچھیروں کی بستی کی ۔ یہاں ایک بوڑھی عورت رہا کرتی تھی اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ ۔ اب یہاں کچھ اگتا تو ہے نہیں تو بوڑھی اور اسکا بیٹا بھی مچھلی کھا کر گزارہ کر لیتے تھے ۔ جون کی ایک گرم دوپہر یہ واقعہ  رونما ہوا ۔ اس وقت گرمی بھی بہت ہوتی تھی ۔ آج تو خیر سے ہر جگہ اے سی کی سہولت ہے ۔ اس وقت بھی ٹھنڈے تالابوں کے کنارے محل ہوا کرتے تھے جہاں غلام مورچھل لیے  پنکھا جھلتے تھے ۔ لیکن یہ سب وزیروں ،امیروں ، فوجی افسروں۔ کے لیے  تھا اور اس بستی کے لوگ تو غریب تھے ۔ آسانی کے لیے  آپ دوپہر کو ہونے والی دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ والا سین سمجھ لیں۔

خیر ہوا کچھ یوں کہ  بڑھیا کے بیٹے نے دوپہر کے کھانے میں غلطی سے کوئی  زہریلی مچھلی کھا لی ۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی لکھا کہ  زہریلی شراب پی لی تھی ۔ اس سے حالت خراب ہوئی  ۔ اب اس دور میں ملاوٹ سے روکنے والے یا غیر معیاری اشیا کی خرید و فروخت روکنے والے ادارے تو ہوتے نہیں تھے تو لوگ زہریلی شراب پی کر بھی مر جاتے تھے ۔

طبیعت بگڑی تو بیٹا ہائے میں مر گیا کہہ  کر تڑپنے لگا ۔ ماں نے گاؤں والوں سے مشورہ کیا تو سب نے پہاڑی والے سمندری بابا کے آستانے پر جانے کی رائے دی ۔ 1592 میں یہاں کے لوگ بھی عجیب توہم  پرست ہوا کرتے تھے ۔ بتائیے زہر خورانی کے مریضوں کو عامل بابا کے پاس لیجانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ آج تو ماشاءاللہ حالات کچھ اور ہیں پر یہ پرانی باتیں تھیں ۔ اب وہ کوئی  اسکول کالج کے پڑھے  ہوئے تو تھے نہیں کہ  کچھ شعور رکھتے ۔ کہتے ہیں کہ  اس دور میں بھی اچھی درسگاہیں ہوتی تھیں جہاں مسئلہ فیثا غورث وغیرہ پڑھایا جاتا تھا لیکن وہ تو امیر لوگوں کے بچوں کے لیے  تھیں ۔ بستی کے غریب بچے کھلے آسمان تلے زمین پر بیٹھ کر کچھ پڑھ لیتے ہونگے ۔ یہ الگ مسئلہ ہے ۔

بڑھیا کا جوانی میں سمندری بابا سے متعلق کوئی  برا تجربہ رہا تھا سو اس نے مشوروں کے برخلاف پاس کے گاؤں کے وید جی کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ۔ جہاں وید جی نے کچھ ابتدائی طبی امداد کے بعد ٹھٹہ میں واقع بڑے شفا خانے لے جانے کا مشورہ دیا ۔ اب خود سوچیں بیل گاڑی ، کچی سڑکیں ، اور لمبا سفر ۔ ہاں مانا کہ  آج بھی سیہون بم دھماکے یا گڈانی شپ بریکنگ میں آتشزدگی کے بعد شدید زخمیوں کو میلوں دور کراچی کے ہسپتالوں میں امداد ملتی ہے لیکن پھر بھی 1592 تو بہت ہی زیادہ برا تھا ۔ اب بوڑھی  مرتی کیا نہ کرتی ۔۔اکلوتی اولاد کی جان پر بنی تھی ۔ روپیہ پیسہ  نہ سہی بڑوں کے دیے کچھ زیور تھے سو انکی پوٹلی بنائی  اور شہر کے بڑے شفا خانے چل پڑی ۔

ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کے ڈاکوؤں سے سامنا ہو گیا ۔ 1592 میں یہاں ڈاکو بھی بہت ہوتے تھے ۔ مسافروں کو لوٹتے اور بچوں کو اغوا کر کے  آگے بیچ دیتے جہاں ساری عمر انہیں بھٹا مزدوری کرتے نجی جیلوں میں گزارنی پڑتی ۔ کتنے برے حالات تھے نا ۔ ایسا نہیں کہ  پولیس وغیرہ اس زمانے میں نہ ہوتی تھی ۔ لیکن لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ  پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان باہمی ساز باز تھی ۔ لوٹ کا مال آدھا آدھا ہوتا تھا ۔ ہماری کہانی کے کردار ڈاکوؤں سے تو بچ گئے کہ  بوڑھی  اماں ، بیمار لڑکا اور ٹوٹی بیل گاڑی سے ڈاکو کیا لے لیتے لیکن شہر کے داخلی داروازے پر موجود سنتری ڈاکوؤں سے چار ہاتھ آگے نکلے سونے کی بالیاں لے کر ہی ٹلے ۔ کہتے ہیں   اس دور میں پولیس کو دیکھ کے ہی لوگ رستہ بدل لیتے تھے کہ  لُٹنا پڑے گا ۔ وللہ اعلم ، ہم کہانی کی جانب آتے ہیں ۔۔

شفا خانے پہنچنے پر پتا چلا  کہ  لمبی قطاریں لگی ہیں انتظار کرنا پڑے گا کہ  بیمار زیادہ اور جگہ کم ہے ۔ لکھنے والوں نے لکھا کہ ایسی بات نہیں تھی کہ  وید، حکیم وغیرہ یہاں نا پید تھے بلکہ ایسے باکمال حکماء کی فوج تھی جو نبض  دیکھ کر الٹراساؤنڈ، ایکسرے، یوریا کریٹننگ وغیرہ سب کا پتا چلا لیتے تھے ۔ انکی تربیت کا خصوصی انتظام کیا جاتا لیکن انکے شفاخانے الگ ہوتے جہاں تک صرف امراء کی رسائی ہوتی تھی ۔ غریبوں کے لیے  گندے ، غلیظ بدبودار ، ٹوٹی چارپائی والے ادارے ہوتے ۔ مختصراً یہ کہ  1592 صحت کی سہولیات کے حساب سے بہت ہی مشکل سال تھا ۔ دیکھا میں پھر کہانی سے دور ہو گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر بڑھیا کے پاس زیور تو تھے ہی تو کچھ دے دلا کر شفا خانے میں انٹری ہو ہی گئی  ۔ جہاں دو دن کے علاج کے بعد اسکے بیٹے کو آرام آگیا ۔ وہ بہت خوش تھی ۔ اسکے بڑھاپے کے سہارے کی جان بچ گئی تھی ۔ لیکن ساتھ ہی وید جی نے یہ منحوس خبر دی کہ  بڑھیا کا بیٹا چند دن کا ہی مہمان ہے ۔ اسے کوئی  بڑی خراب سی بیماری ہو گئی  تھی ۔ وید جی نے بتایا کہ  یہ بیماری مرد سے عورت اور عورت سے مرد کو ہو جاتی ہے اور مرد سے مرد کو بھی ۔ متاثرہ عورت کی اولاد بھی اسکا شکار ہو جاتی ہے ۔ پھر تسلی دی کہ  حکمرانوں کے بقول یہ اتنی خطرناک بیماری نہیں جتنی کہ  بیان کی جاتی ہے اور ابھی تو خیر سے صرف ایک مریض ہے اگلے زمانوں میں تو یہ اس خطے میں وبائی  مرض کی طرح پھیلے گی ۔ “تو پھر یہاں کے لوگ کیا کریں گے” بڑھیا نےاداس لہجے میں وید جی سے دریافت کیا ۔ “ارے کرنا کیا ہے وہ ولڈکپ انجوائے کریں گے اور کہیں گے کہ  92 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply