دل کا آنا اور ہماری نوکری کا جانا
.
پانچ سات برس ادھر کی بات ہے کہ ہم اپنی ایک محبوبہ کو ویلنٹائن ڈے پر پھول پیش کرنے کی تیاریوں میں مشغول تھے-ان دنوں ابھی ہماری نئی نویلی نوکری کے دودھ کے دانت بھی تب تک نہیں گرے تھے – یعنی چہار سو رونقیں تھیں یا نہیں بھی تھیں تو ہمیں محسوس ضرور ہوتی تھیں کہ نوکری اور چھوکری دونوں ہی یکے بعد دیگرے میرے ہاتھ آ گئی تھیں-ویلینٹائن ڈے سے چند روز قبل ہماری چھٹی تھی مگر( انکی) نہیں تھی سو خواہ مخواہ ہی انکے درشن کے واسطے پنڈی اپنے خلوت کدے سے منہ ول اسلام آباد کر لیا اور کشاں کشاں روانہ ہوئے اسلام آباد کی جانب-ظاہرہے ہیرو کی سی look بنا کر گئے کہ کون سا آفس جانا ہےبس انکے درشن ہی تو کرنے ہیں تو اسی ناہنجار قسم کے چکر میں ڈریسنگ کوڈ کو سائیڈ لائن کرکے گئے تھے.- اسلام آباد قدم رنجہ فرماتے ہی ایک سینئر کی کال آگئی-اجی کال کیا تھی ہماری اکلوتی نوکری کے تیل ہونے کی نوید کا ابتدائیہ سمجھیے بس – فرمایا گیا نیا کنٹری ہیڈ تشریف لایا ہے اور ہماری ہونہار ٹیم کے تمام افراد سے بالمشافہ ملاقات کا مشتاق و متمنی ہے سو آپ بھی دفتر میں وارد ہو کر انکو اپنی زیارت سے مشرف فرمائیں – چونکہ اس قتالہ عالم کی دید کے واسطے ابھی دفتر جانے کا بہانہ کسی طور نہ سوجھا تھا جسکو بنیاد بنا کر ہم باقی ماندہ کولیگز کو چکمہ دے پاتے تو اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق اس دفتر بلاوے کی کال میرے لیے تو جیسے بہانہ مل گیا بلکہ پیار کا فسانہ مل گیا والی بات ہو گئی – ہماری لمبی زلفوں نے جہاں کئی حسیناوں کے تعریفی کلمات ہمارے لیے ادا کروائے تھے وہیں یہ آج میری نوکری کو کھوہ کھاتے کروانے کا سامان بننے والی تھیں-
پندرہ بندوں وبندیوں کی ٹیم میں کنٹری ہیڈ کی تان مجھ مسکین و غریب وشریف پر آ کر تڑک کر کے ٹوٹی-پوچھا جینز پہن کر، اور اس قدر فضول ہیئر سٹائل کے ساتھ، بنا شیو کے منہ اٹھا کر کیوں تشریف لائے ہو تم؟عرض کی اے بندہ بینک !۱آج ہماری چھٹی تھی اور اسلام آباد یاترا کو نکلے ہوئے تھے کہ آپکی آمد کا تار ملا سو دفتری میک اپ و دفتری طریقے سے ملبوس ہونے سے قاصر تھے.اور جوجہاں اور جیسا کی بنیاد پر آپکی زیارت کو چلے آئے ہیں – پھر میزائیل فائر کیا انہوں نے کہ تمہارے لچھن تو اس جگہ کام کرنے والے کی بجائے ایسے ہیں جیسے فلم کا آڈیشن دینے آئے ہو.؟ کوئی طور طریقہ ہوتاہے کوئی سلیقہ ہوتاہے – مجھے لگتا ہے خواجہ صاحب نے اسی جملے کو مستعار لے کر کوئی شرم ہوتی کوئی حیا ہوتی والا جیسا نایاب جملہ تخلیق فرمایا تھا – مگر سچی بات ہے اس سوال پر ہم ممنون حسین بن کر رہ گئے.-اگلا سوال تو بہت ہی اونتری قسم کا تھا-فرمانے لگے اسی حال میں دفتر آتے ہو تو یہ خواتین آپ جیسے ملنگی صورت کو کیسے برداشت کرتی ہیں؟ اس سوال پر سامنے بیٹھی زنانیوں کو دیکھا پھر جواب دیا سر اسکا جواب انہی خواتین سے لیا جائے جو بقول آپکے مجھے برداشت کرتی ہیں- اس جواب سے میٹنگ روم کا درجہ حرارت بڑھتا ہوا محسوس ہوا- پھر ہماری کارکردگی پوچھنے سے پہلے کنٹری ہیڈ ہمارے مینجر پر چڑھ دوڑے کہ کس طرح کے نہلے پال رکھے ہیں آپ نے اور کیوں پال رکھے ہیں – مینجر کے منہ مبارک سے اتنا جملہ ادا ہوتے میرے معصوم کانوں نے سنا کہ سر کام تو اچھا کرتا ھے یہ بچونگڑا.-مگر لگتا ایسے تھا کہ کنٹری ہیڈ گھر سے اپنی بیزتی خراب کروا کر آئے تھے-سو چند اور صلواتیں سنا کر میٹنگ برخاست کر دی گئی- وہاں سے بیزتی خراب کروا کر ہم سارے باہر گولڈ لیف سلگائے کولیگز کے ساتھ حسب معمول قہقہے لگا رہے تھے کہ انہی صاحب نے ہماری زیارت اس ماحول میں کر لی یعنی شیشے کے اس طرف وہ دیکھ رہے تھے کہ ہم نے انکی باتوں کا کتنا زیادہ اثر لیا کہ میٹنگ روم سے نکلتے ہی پھر وہی چلن-سگریٹ کا وہ کش ابھی آنا تھا جسکے بارے نشیڑی حضرات خوب جانتے یعنی آخری والا-جس کے بارے گورا صاحب کیا خوب فرما گیا ہے کہ
” Last puff of cigarette is better than thousand kisses of a virgin”
مگر اس کش سے پہلے ہی ایک اور کال آئی نسوانی آواز گونجی کہ آپ تین مشٹنڈوں کا استعفی مانگاجا رہا ہے – ورنہ ٹرمینشین ہو گی کہ ان صاحب کے بقول ایسے لوگ اس آرگنائزیشن کا حصہ نہیں ہو سکتے جو اتنی عزت افزائی کے فوراََ بعدبھی یوں چہلیں کرتے پائے گئے ہیں – یعنی انہوں نے ہمارا تقریبا وہی حال کیا جو جنرل کاکڑ صاحب نے کیا تھا.- کچھ احباب نے معافی مانگ کر معاملہ درست کرنے کی تجویز دی مگر ہم نے سوچا ایسے مواقع ہر مہینے آنے اور کنٹری ہیڈ کو ہماری عزت خراب کرنے کا چانس ملنے کے برابر ہے سو دو لفظ لکھ کر جان چھڑا نا ہی ٹھیک سمجھا-دو دن وہیں پر منجی پر دراز رہے پھر بیگ کندھے پر رکھ کر گاؤں کی راہ لی-
صاحبو کبھی کبھی محبوب کی زیارت کی خواہش ناتمام مہنگی بھی پڑ سکتی ہے –
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں