پی ۔ ٹی ۔ کے ڈِیپ بریدنگ(Deep Breathing ) پوز میں دونو ں ہاتھ ڈھاک پر یوں ٹکائے جیسے تازہ ریٹائرڈ ایڈمِن جے سی او کھیت کی مُنڈیر پر کھڑا فطرت کو سپروائز کر رہا ہو۔ بڑے بر کی بے بکُل چادر کشادہ اور چمکدار پیشانی کے اوپر چھجّا سی بناتی ہوئی پُشت کی طرف پنڈلیوں تک کچھ اس طرح جھولتی لٹکتی ہوئی جیسے کسی انگریزی کھیل کے وِچ ڈاکٹر کا گاوٗن ۔ لمبا سلیٹی رنگ کُرتا ، ویسی ہی شلوار۔ پاوٗں میں قینچی چپل ۔ چہرے پر جھُریوں کا جال ۔ آنکھوں میں کبھی آس کی چمک ، کبھی یاس کا دھندلکا۔ پوپلا منہ۔۔۔۔۔،ڈینچرز نکال ، گلاس میں سنبھال کر رکھے ہوئے ۔ ناخن بیسوں کے بیسوں چِبّے وِنگے۔ گردن پر ہاوٗس سرجن کے کمال کی داستان ۔ یعنی نائی کی جراحی کا نشان جو بچپن میں کسی پھوڑے کے اپریشن کی وجہ سے پڑا اور پھر لِیروں کے اینٹی سیپٹک پاوڈر کی بدولت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چپک کر رہ گیا۔ ہاتھوں کی پُشت اور کلائیوں پر مٹّی کی رنگدارویسی ہی پپڑی جیسی خشک ہونے پر تالاب کی تہہ میں جم جاتی ہے۔۔۔۔ جگہ جگہ دراڑیں اور پھوٹیں پڑی ہوئیں ۔ پیروں کی جلد ورم کی بدولت چِلکتی ہوئی ۔ قد بُت جو کبھی سروُ کا بوٹا تھا ، مستعد وکٹ کیپر کی طرح جھُکے جھُکے کم و بیش ایک فٹ کم ہوچکا ہے۔ باچھوں سے نکل کر نسوار کی پیک جھُریوں میں یوں جمی ہوئی جیسے فاوٗنڈیشن کریم۔ یہ ہے دُنیا کی وہ حسین ترین عورت ، جس جیسی خوبصورتی خالقِ کائنات نے کسی اور کو عطا نہیں کی۔ میں ناشکرا اللہ کی اس دین پر نازاں ہوں کہ اُس نے مجھے اس قدر حسین ماں بخشی ہے۔
’’بڑی بے‘‘ یعنی دادی اماں کے بعد گھر میں وہی سب سے بڑی تھیں ، اس لئے سچّے وقتوں میں چھوٹے چچا کی دیکھا دیکھی ہم بھی اُنہیں نِکّی بے کہا کرتے تھے۔ نِکّی بے صبح کے تارے کے ساتھ جھلنگی چارپائی سے اُٹھتیں ، مجھے دادی کے پہلو میں اور بِلّو( چھوٹی بہن) کو پھوپھو کے پاس ڈالتیں ، پھر چکّی کی گھُمر گھُمر کے ساتھ ہولے ہولے نِکّی بے کی پُرسوز آواز بھی سنائی دیتی۔ وہ کوئی گالی(ہماری پہاڑی بولی میں گیت کو گالی ہی کہتے ہیں)گنگنا رہی ہوتیں ۔ گیت کے بول کبھی سمجھ میں نہ آئے البتّہ ٹیپ کا مصرع تھا۔۔۔۔۔’’ پڑھو لا الہ الا اللہ۔۔۔۔۔ پڑھو لا الہ الا اللہ‘‘۔نکّی بے کی آواز میں ایسی تھی ، چکّی کی گھُمر گھُمر میں کوئی جادو تھا یا ٹیپ کے مصرع میں کوئی سحر کہ سوتے سوتے جاگ پڑٹا اور پھر خواہمخواہ رونا آجاتا۔ پھر بے آواز روتے روتے یوں لگتا جیسے نکّی بے مجھے لوریاں سنا رہی ہوں ۔۔۔۔میں سو جاتا۔ جاگتا تب،جب وہ جھنجھوڑتے ہوئے کہتیں : ’’ اُٹھو ۱ سب بچّے اسکول جا چکے۔۔۔۔، اشراف بھی‘‘۔
عید پر نئے کپڑے اور سفید پی ٹی شوز لادینے کی یقین دہانی، آتی سردیوں میں پھولدار مفلر بُن دینے کا لارا، مٹھائی کا جھانسا، حتّی کہ چورنگا غبارا خرید دینے جیسا پیارا وعدہ ۔۔۔۔، دُنیا کا کوئی لالچ مجھے جاگنے پر آمادہ نہ کر سکتا۔ مگر جب وہ یہ کہتیں کہ اُٹھو ، سب بچّے اسکول جا چکے ہیں ۔۔۔۔ اشراف بھی، تو میں جھٹ اُٹھ بیٹھتا۔ اسکول جانے میں اتنا لطف نہ تھا جتنا مزہ اشراف چاچا (چھوٹے چچا) کے ساتھ چلنے میں تھا۔ روزانہ راستے میں چھوٹے چچا سے لڑ کر جب میں بیچ سڑک کے لیٹ جاتا تو وہ بڑی لجاجت اور منت سماجت سے کہتے۔۔۔’’اچھا مان لیا، آج سے تُو بڑا میں چھوٹا۔۔۔‘‘ بس اسی لڑائی بڑائی کی خاطر میں فوراً اُٹھتا اور منہ ہاتھ دھو کر تیار ہو جاتا۔
اس وقت تک نِکّی بے جی نہ صرف بیل جتوانے میں داداجی کی مدد کر کے لوٹ آئی ہوتیں بلکہ بہاری جھاڑو ، چولہے چوکے سے بھی فارغ ہو چکی ہوتیں ۔ گُڑ کی چائے کےساتھ چوپڑی ہوئی روٹی کا ناشتہ کر چُکتا تو چھوٹے چچا بستہ جھلاتے، عجیب عجیب سا منہ بنا کر میری نقلیں اُتارتے آن چولہے کے پاس کھڑے ہوتے۔ اُنہیں دیکھ کر مجھے نِکّی بے پر بہت غصّہ آتا کہ خواہ مخواہ جھوٹ بول کر اٹھا دیا ہے۔ لیکن خوشی بھی ہوتی کہ چھوٹے چچا ابھی اسکول نہیں گئے ۔ میں نے جھوٹ بولنا نِکّی بے سے ہی سیکھا ۔ یہ الگ بات کہ ان پڑھ ہو نے کی وجہ سے اُن کا جھوٹ جتنا اَن گھڑا ، سادا اور معصوم تب تھا،اُتنا آج بھی ہے۔ جبکہ میرا جھوٹ وقت کے ساتھ ساتھ مزید میچیورڈ اور پالشڈ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔ سچ ہے علم بڑی دولت ہے۔ چچا میرا بستہ اور تختی بھی اٹھاتے اور ہم اسکول چل پڑتے۔ اِدھر ہم اسکول روانہ ہوتے ، ادھر نِکّی بے ہاتھ میں درانتی اور پلّو میں آدھی روٹی ڈال ، بھینسوں کو کھول چرانے چل پڑتیں ۔ اسکول سے واپسی پر ہم لسّی کے ساتھ صبح کی روٹی کھا چکے ہوتے تو بِکّی بے پہنچتیں ۔۔۔۔۔ سر پر گھاس کا گٹھا اٹھائے، بھینسوں کو ہانکتی ہوئیں ۔ کبھی کبھی یوں لگتا جیسے ہانکنے کے درپردہ وہ اپنے ہانپنے کو چھپا رہی ہوں ۔ ’’ نِکّی بے کو دیر سے چھُٹی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ‘‘ میں سوچتا۔ لیکن ابھی اُن کی چھُٹی نہ ہوئی ہوتی۔ ابھی تو ظہر کی نماز کے بعد ادھر دادا جی ہل اٹھائے کھیتوں کو چلیں گے، ادھر نِکّی بے کلہاڑی اتھائے نکل کھڑی ہوں گی۔ وہ سورج غروب ہونے سے کچھ پہلےلوٹتیں تو اُن کے سر پر کانٹے دار جھاڑیوں کا گٹھّا ہوتا۔ اسی ایندھن سے صبح شام وہ ہمارے پیٹوں کا ایندھن تیار کرتیں ۔
مغرب سے عشا تک نکّی بے کا تفریح کا پیریڈ ہوتا۔ اس دوران وہ بیلوں کے لئے پِنّی، بھینسوں کے لئے گتاوا اور ہمارے لئے کھانا تیار کرتیں ۔ اس کے بعد دادا جی کے ساتھ برادری، عزیزداری ، زمینوں اور قرض ادھار کی صورت حال سمیت اللہ جانے کتنے ہی موضوعات پر گفتگو کرتیں ۔ اُن کی گفتگو ہرگز کوئی عالمانہ قسم کی نہ ہوتی لیکن ہماری سمجھ سے بالا تر ہوتی۔ تفریح کی اس گھنٹی کے دوران کبھی کبھی داداجی اور نِکّی بے کے درمیاں شدید قسم کی تلخی بھی ہو جاتی۔ ایسے میں نکّی بے کی زبان قینچی کی طرح چلتی۔ یوں لگتا جیسے ہر وار دادا جی کے سینے میں ایک نیا گھاوٗ لگا رہا ہے۔ اُن کے چہرے سے غم غصّے اور کرب کے آثار ٹپکنے لگتے۔ لڑائی میں وقفہ دالے بغیر نکّی بے کھانا ڈالتیں اور انتہائی درشتگی کے ساتھ تھالی دادا جی کے سامنے پٹخ دیتیں ۔ دادا جی اُتنے ہی غصّہ سے تھالی کو پرے دھکیل دیتے۔۔۔۔ ’’پہلے توُ کھا‘‘۔ نکّی بے تھالی چولہے کے پٹ کی طرف دھکیل دیتیں ۔ پھر کچھ سوچ کر دادا جی کے سامنے سرکا دیتیں ۔ دونوں کھانے لگتے۔ کھا چُکتےتو نکی بے اُٹھتیں ، ستوں میں گڑھی ہوئی سوئی نکالتیں اور اپنے جگہ آن بیٹھتیں ۔ کوئی منہ سے کچھ نہ بولتا۔ دادا جی قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ پاوں آگے کرتے، نکی بے پاوٗں اٹھا کر اپنے گھُٹنے پر رکھتیں ،لعاب کے ساتھ مٹّی اور میل کچیل صاف کرتیں اور پھر دادا جی کے پاوٗں میں ٹوٹے کانٹے، سنگریزے اور چھِڑیاں وغیرہ نکالتیں ۔اُس وقت وہ خود کو کوٗی ماہر سرجن تصوّر کرتیں ۔یا پھر مجھے ایسا لگتا؟کچھ یاد نہیں۔تفریح کی گھنٹی اُس وقت ختم ہوتی جب ’’اللہ چنگا کرسی‘‘ کی موگری سے دادا جی نماز کی ٹلّی بجاتے۔ ادھر دادا جی وضو کے لئے اُٹھتے،اُدھر نکّی بے جلدی جلدی نماز ادا کرتیں تاکہ دادا جی کے لئے بھیڑ کا مصلیٰ فارغ کر سکیں ۔ نماز کے بعد وہ سلائی مشین سنبھال کر بیٹھ جاتیں ۔ ہم سو جاتے۔ ربّ جانے وہ کب تک گاوٗں والوں کے کپڑے سیتی رہتیں۔ اُس دور میں میں نے کبھی نِکّی بے کو سوتے یا لیٹے نہیں دیکھا۔۔۔۔ جیٹھ ہٓاڑ کی تپتی دوپہروں میں نہ ماگھ پوہ کی برفانی راتوں میں۔
چھوٹے چچا جب اتنے سیانے ہو گئے کہ اُنہیں رشتوں کی پہچان آگئی تو ہم بھی نِکّی بے کو بھابی کہنے لگے۔ ہوتے ہوتے چچا اتنے بڑے ہو گئے کہ مشکل گھنٹیوں میں آسانی کے ساتھ اسکول سے غائب ہونے لگے ۔ اور پھر آٹھویں کے امتحان میں ناکام ہونے کے بعد چھپ کر فوج میں بھرتی ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ جس دن چھوٹے چچا فوج میں بھرتی ہوئے، اسی روز والد صاحب حقّی چھُٹی پر گھر آئے۔ نِکّی بے کوابھی چھُٹی نہیں ہوئی تھی۔ اُن کا لکڑیاں کاٹ لانے کا پیریڈ جاری تھا۔ والد صاحب نے پوچھا:’’ تمہاری امّی کیسی ہیں ؟‘‘۔ مجھے اُن کا سوال بڑا عجیب لگا۔’’ بیٹے !تمہاری امّی۔۔۔‘‘ میرے چہرےپر تزبذب کے سائے لہراتے دیکھ کر وہ بولے۔۔۔۔’’میرا مطلب ہے نکّی بے۔۔۔۔ نکّی بے ہی تو تمہاری امّی ہیں۔‘‘مجھے بڑی ہنسی آئی کہ نِکّی بے تو نِکّی بے ہیں ، امّی کیسے ہو سکتی ہیں ۔ لیکن والدصاحب کے احترام میں ہنسی ضبط کر لی۔۔۔۔ مگر ضبط کے باوجود ایک طرف سے تھوڑی سی کھُسّ کھُسّ لِیک کرہی گئی۔
وقت پر لگا کر اُڑتا رہا۔ میں نے بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھ دیا۔ اب میں اتنا بڑا اور سیانا ہو چکا تھا کہ رشتوں کی پہچان کے علاوہ جھوٹ بول کر آسانی کے ساتھ نِکّی بے اور داداجی کو بےوقوف بنا سکتا تھا۔ جس دن پہلی بار داداجی کو بے وقوف بنایا(سیاہی کو اِنک کہ کر دوپیسی کی جگہ پورا ایک آنہ اینٹھ لیا)، اُسی روز میں نے پہلی بار نِکّی بے کو امّی جان کہا۔ایک لحظہ کے لئے اُن کے چہرے پر ایک بے نام سا تاثر لہرایا۔ پھر مسکرادیں۔ میں اُنہیں کچھ بھی کہہ دیتا ، کبھی اعتراض نہ کرتیں ۔ چنانچہ امّی جان کہنے پر بھی اُنہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا، اُلٹا بھینچ بھینچ کر پیار کیا۔ اُن کے منہ سے نسوار اور بدن سے پسینے کی بوُ آرہی تھی۔ وہ بوُ آج تلک میری روح میں رچی بسی ہوئی ہے۔ اگر میرےاختیار میں ہو تو دنیا کی ساری خوشبوئیں مٹا کرہر شے میں اپنی روح کی بو رچا بسادوں۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں