• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک: 30 فری سیرئین آرمی کے الفاروق کی المیہ داستان ۔۔۔۔سلمٰی اعوان/قسط15

سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک: 30 فری سیرئین آرمی کے الفاروق کی المیہ داستان ۔۔۔۔سلمٰی اعوان/قسط15

ڈاکٹر ہدا کی جانب سے ایک اور ای میل

ڈیرسلمٰی
اسلام و علیکم
اُف سلمیٰ میں کیا بتاؤں تمہیں۔کیا سناؤں۔میراشام اور خاص طور پرمیرا حلب تو المیہ داستانوں کا گھر بن گیا ہے۔گزشتہ دنوں میں کیسب Kessab میں تھی۔یہ شامی اور ترکی سرحد پر ایک شامی قصبہ ہے یہاں میری ملاقات ابوالفاروق سے ہوئی۔ لواس کی داستان الم بھی سنو۔

شام کے بے حد خوبصورت شہر پرانے حلب میں جو شام کا شمالی حصّہ ہے اور تہذیبوں کا گھر ہونے کے ناطے پوری دنیا میں شہرت کا حامل ہے۔میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ فوڈ اسٹور چلاتا تھا۔اسٹور سے حاصل ہونے والی آمدنی تقریباً 3000ڈالر ماہانہ تھی۔ گو یہ آمدنی کچھ اتنی کم تو نہ تھی مگر عیال دار گھرانہ ہونے کے باعث پوری نہ پڑتی تھی۔گھر کے اخراجات بعض اوقات 4000 ڈالر سے بھی زیادہ جاپہنچتے۔سچی بات ہے کاروبار چلانے کے لیے آپ کو سرکاری عملے کو رشوت دینی پڑتی تھی۔ چاہے آپ قانون کے مطابق ہی کام کررہے ہوتے تھے۔ ہم ہمیشہ مقروض ہی رہتے۔

اِن حالات سے تنگ آکر میں نے رومانیہ جانے کی ٹھان لی۔رومانیہ میں شامیوں کی خاصی تعداد ہے۔یہ سب لوگ کسی نہ کسی انداز میں حکومت کے ستائے ہوئے لوگ تھے جو ہمہ وقت اپنے وطن کے بارے سوچتے،باتیں کرتے اور عملی طورپر ایسی ہر جدوجہد میں اپنا حصّہ ڈالنے کے لیے بہت پُرعزم رہتے جو انہیں آزادی دلا سکے۔کبھی کبھار ہم کڑھ کر سوچتے۔”شامی لوگ آخر کیوں نہیں کھڑے ہوتے۔آخر تیونس اور لیبیا کے لوگوں نے بھی تو ہمت کی نا۔“

یہ کس قدر خوش آئند بات تھی کہ حکومتی جبر تلے ڈرے اور سہمے لوگوں نے حوصلہ پکڑا۔ایک نے دوسرے کو شہہ دی۔یوں آوازیں بلند ہونی شروع ہوئیں۔ہم لوگ بھی حکومت کے خلاف سرگرم ہوگئے۔

تاہم رومانیہ میں، میں اور میرے دوست زبردستی کی دربدری پر مجبور کرنے کے مسلسل خوف میں مبتلا تھے۔ ہمیں یہ خوف بھی تھا کہ حکومت ہمارے گھر والوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے جو ابھی تک شام میں تھے۔لیکن دوسرے عرب ممالک میں (2011کے ابتدا میں کی گئی)بغاوتوں سے حوصلہ پاکر ہم نے شام میں رابطے تیز کردیے۔ فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے ان لوگوں سے رابطے کیے جو حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے انقلاب کی چنگاری کو ہوا دینے میں مدد کررہے تھے۔ہم نے رومانیہ،آسٹریا اور جرمنی مظاہروں کا انتظام کیا۔ہم نے میڈیا پر انقلاب کے اہداف اور شام کے لوگوں کے خلاف حکومت کی مجرمانہ کاروائیوں کے بارے بات کی۔

ہمارا مقصد پُرامن انقلاب کے لیے دباؤ ڈالنا تھا اور جو شام میں ہورہا تھا اس کی سچائی کو منظرعام پر لانا تھا،اور یہ بتانا تھا کہ کس طرح حکومت عقوبت خانوں میں مظاہرین کو تشدد اور اذیت کا نشانہ بنا رہی تھی۔پہلے مظاہرے کے ساتھ ہی حکومت کا خوف ختم ہوگیا۔لیکن ہمیں عالمی برادری سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اسد کو اجازت دے گی کہ وہ شام کے لوگوں کو قتل کرے۔

تین ماہ بعد میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ چار کاروں میں 3,500کلومیٹر سے بھی زیادہ کا سفر کرتے ہوئے جرمنی سے آسٹریا، ہنگری، رومانیہ،بلغاریہ اور ترکی سے ہوتے ہوئے آخر کار شام پہنچ گئے۔اِس سامان کو خریدنے اور شام لانے کے لئیے بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ ہم اپنے ساتھ جو سامان لائے تھے ان میں ادویات، سٹیلائٹ جدید موبایل فونز، کیمرے،خفیہ کیمرے جیسے پین، ہیٹ اور کھلونے مظاہرین کے لیے تھے تاکہ فلم بناتے وقت خود کو حکومتی فوج سے چھپائے رکھیں۔یہ چیزیں ہم نے بارڈر پر انتظار کرتے ہوئے کارکنوں کے حوالے کیں۔

ہم نے دو ایمبولینس ہیمبرگ سے خریدی تھیں۔ لیکن جمہوریہ چیک میں ایک بڑے برفانی طوفان کے دوران ہمیں ایک کار حادثہ پیش آیااور ایمبولینس برف میں دھنس گئیں۔ انہیں نکالنے میں ہمیں دو دن لگے۔پھر ایک اورمصیبت نے آگھیرا۔ ایک پل کے نیچے سے گزرتے ہوئے ہماری گاڑی جو کافی اونچی تھی وہاں پھنس گئی۔کتنی پریشانی اٹھائی اور کتنا وقت ضائع ہوا۔
موبائل فونز اور انٹرنیٹ کا سامان کپڑوں میں چھپاکر کار کی سیٹیوں کے نیچے رکھ گیاجوتوں اور شامی ڈبل روٹی کے ڈبوں میں بھی چیزیں چھپائی گئیں

جس دوران ہم نے سرحد پار کی۔ہمیں ادویات لے جانے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن ہم کچھ ابتدائی طبی امداد کا سامان جیسے کہ سٹریچر اور وہیل چیئر آزاد شامی فوج اور مقامی کمیٹیوں کے لیے لے جا سکتے تھے۔

کبھی کبھار یہ سامان سکیورٹی فورسز کے ہاتھ بھی لگ جاتا۔ایک بار ایک راکٹ نے گاڑی کو نشانہ بنایا۔نشانہ خطا ہوگیا تو پھر گھات لگا کر تعاقب کیا گیا اور بالآخر پکڑ لیا گیا۔
بعض اوقات انٹرنیٹ وصول کرنے والے آلات،تھورائیا(سٹیلائیٹ فونز) اور ذرائع مواصلات کے آلات سے لدے ہوئے ٹرک گم کردئیے گئے دو بارایسے سامان کو لے جاتے ہوئے سکیورٹی فورسز والوں نے ڈرائیور قتل کردیا۔ایک بار گرفتار کرلیا۔

ہم اس قابل تھے کہ 50سے زیادہ پرانی ایمبولینسیں شام بھیج دیتے۔ہم نے کچھ ہیمبرگ سٹی کونسل سے خریدی تھیں جبکہ دوسری ہنگری میں وزارتِ صحت سے خریدی گئی تھیں۔ان میں ہر کوئی 5,000ڈالر مالیت کی تھی جس کی ادائیگی ہم نے اپنی بچتوں میں سے کی یا پھر ان عطیات سے جو شام سے جلاوطن کیے گئے لوگوں نے دیے تھے۔

میں رومانیہ میں قیام پذیر ہونے پر اپنے آپ کو قصور وار سمجھتا تھا۔خود کو ہمہ وقت لعن طعن کی کسوٹی پر پرکھنے لگا تھا۔خود سے کہتا تھا۔میرے شام کو اس وقت میری ضرورت ہے۔ گو میں کوئی توپ قسم کا انسان تو نہیں تاہم جذبوں سے تو بھرا ہوا ہوں۔اِس قابل تو ہوں ناکہ اپنا حصّہ ڈال سکوں۔بہرحال اس کام کو کرنے سے ہم سب دوست اتنے مطمئن تو تھے کہ ہم اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔
جس دوران شامی شہری حکومتی فوج کا مقابلہ کرنے پر قتل کئیے جارہے تھے۔فوراً ہم نے ترکی میں ایک دفتر کھولا اپنے لوگوں کے قریب تر ہونے اور امداد ی سامان شام تک پہنچانے کی کوشش کو آسان بنانے کے لیے۔

شام میں موجود جنگجوؤں کی طرف سے ہمیں پیغام ملا کہ ہمیں لڑنے کی ضرورت نہیں تھی ہمارے لئیے اہم سازوسامان کی فوری فراہمی زیادہ ضروری تھی۔ وہ ہماری بھرپور حمایت چاہتے تھے۔
جب 2011 میں دمشق میں درعامیں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تو ہمیں یہ اُمید تھی کہ حکومت جواب میں کچھ اصلاحات کی پیشکش کرے گی اور لوگوں کے غم و غصہ کو کم کرے گی۔یقینا اتنا ہی کافی ہوتا۔لیکن حکومت کتنی گھمنڈی تھی اس کا تو ہمارے سان گمان میں بھی نہ تھا۔ کِس وحشیانہ طریقے سے پر امن لوگوں کے خلاف تشدد پر اتر آئی۔

حلب میں میرے بھائیوں اور دوستوں نے ساتھ ساتھ مل کر حکومت کو گرانے کی صدا بلند کرتے ہوئے احتجاجی مظاہروں میں حصّہ لیا۔یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سکیورٹی فورسز نے آزادی اور جمہوریت کے لیے بلند کیے گئے ان کے نعروں کا جواب مہلک گولیوں اورپکڑ دھکڑ سے دیا۔150طالب علموں کو کارکن ہونے کی بنا پر دو یا تین مہینوں کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔بات چیت کے انعقاد اور بحران کے حل کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔حقیقت تو یہ تھی کہ لوگ عام لوگ حکومتی فوج کا سامنا کھلی چھاتیوں سے کررہے تھے اور انہوں نے اپنے دفاع کی خاطر بندوقیں خریدنے کے لیے پیسہ اکٹھا کرنا شروع کردیاتھا۔ انہوں نے 15ستمبر2011کو اپنی مسلح کاروائی حلب میں ایک فوجی چیک پوائنٹ کے خلاف کی۔چیک پوائنٹ کو بڑا بھاری نقصان ہوا لیکن اس سے پہلے وہ اُن لوگوں کو جو گزشتہ ماہ حراست میں لیے گئے تھے آزاد کرواتے۔ اُن کا سارا اسلحہ ختم ہوگیا۔

انہوں نے سوچا کہ حکومت کے گرنے کے بعد شام کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمارے پاس فوج ہونی چاہیے اور آزاد شامی فوج (الجیش السوری العر)فری سیرئین آرمیز (ایف ایس اے) کے نام کے تحت کئی بریگیڈ تشکیل دی گئیں۔۔
میرے چھوٹے بھائی نے ایف ایس اے میں شمولیت اختیار یہ سوچ کرکی کہ ہمارا مقصدایک جمہوری آزاد شام تھا نہ کہ فرقہ پرست۔

مجھے کھل کر کہنے دیں کہ اِس انقلاب میں سیندھ لگانے والے بھی اندر کے ہی غدّار تھے خواہ یہ ایف ایس اے (فری سیرین آرمی) ہی کیوں نہ ہو۔

پہلی ایف ایس اے بریگیڈ میں حلب سے 25نوجوان شامل کیے گئے لیکن اور زیادہ رضا کار آتے گئے حتیٰ کہ وہاں سے 400سے زیادہ جنگجو ہوگئے۔یہ لوگ ایک ریکارڈ مدت میں حلب کا 90%حصّہ آزاد کرانے کے قابل تھے۔لیکن جب وہ ایک بڑی فتح حاصل کرنے کے قریب ہوتے تو ایف ایس اے حکام انہیں روک دینے کا کہتے یا گھمسان کی جنگ کے عین بیچ میں وہ رضا کاروں کو ہتھیار بھیجنا بند کر دیتے۔ایف ایس اے حکام نے ہمارے معاملے میں ایک مشکوک کردار ادا کیا۔

آئی ایس آئی ایس ISIS(داعش) کے ساتھ ہماری جنگ ہماری بقا کا معاملہ ہے۔پھر (داعش) اور جباہ النصری کے ظہورنے حلب میں ہماری کمر توڑ دی۔انصریٰ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ایف ایس اے کی حمایت میں آئے تھے۔ اور شام پر حکمرانی کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن کچھ ایف ایس اے بریگیڈ کے کمانڈرز غائب ہونا شروع ہوگئے اور ان کی لاشیں ہمیں حلب کے صحرائی علاقے سے ملیں۔ہمارے گروپوں کا تو وہ حال تھا کہ وہ بیک وقت آئسISIS(داعش)،جباہ النصری،کُرد اور حکومت کے ساتھ لڑرہے تھے۔کتنے محاذ کھل گئے تھے۔ ہمارے لوگ سوچتے کہ اگر ہم نے خود کو آئس ISIS(داعش) اور جباہ انصریٰ کے ساتھ لڑنے کے لیے وقف کردیا تو حکومت اُن حصّوں پر دوبارہ قبضہ کرلے گی جو ہم نے آزاد کرائے تھے۔

اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے آئس ISIS(داعش) کے ساتھ یہ بات طے پائی تھی کہ آئسISIS(داعش) کے آزاد کرائے گئے علاقوں سے ایف ایس اے کو دور رکھا جائے گا۔اور آئسISISہمارے علاقوں پر پیش قدمی نہیں کریں گے۔لیکن آئس ISISوالوں نے لوگوں کو مذہبی تقریروں اور پیسہ کے ذریعے اپنی طرف مائل کرنا شروع کردیااورایف ایس اے کے 10,000سے زیادہ لوگ ISIS(داعش) سے لڑنے کے لیے چلے گئے۔بہت سے لوگوں کو یا تو ISIS کے ساتھ لڑنا تھا اور روزی کمانا تھا یا پھر ایف ایس اے کے ساتھ لڑنا تھا ور بھوک سے مرنا تھا۔

ہمارے درمیان کے وہ جنگجو جو ہمارے خلاف ہوگئے تھے،کے نقصان کو پورا کرنے کے لئیے ہم نے نئے بھرتی مراکز قائم ییے۔نئے بھرتی شدہ افراد کی تعداد صحیح ہے۔لیکن ہمیں ابھی بھی پیسے اور ہتھیاروں کی کمی کا سامنا ہے۔ہماری فوج حلب کے دیہاتی علاقے میں 40,000سے زیادہ جنگجوؤں کے ساتھ بن رہی تھی۔ہماری ISISکے ساتھ جنگ ایک بقا کا معاملہ ہے۔حکومت کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ ناقابلِ قبول ہے کیونکہ ہم نے قربانیاں دی ہیں۔پچھلے چار سالوں میں 150سے زیادہ جنگجو جنہیں میں جانتا تھا کھو دیے ہیں۔حلب کے مقامی لوگ ابھی بھی ہماری حمایت کرتے ہیں اور نئے بھرتی شدہ افراد کی ایک بڑی تعداد نے ہمیں ایک اچھا حوصلہ دیا ہے کہ ہم حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔لوگ اس بات کے لئیے تیار ہیں کہ آزادی حاصل کرنے میں مزید چار سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
میرا یہ خود سے عہد ہے کہ میں اس وقت تک لڑائی جاری رکھوں گا جب تک میرے جسم میں خون کا آخری قطرہ موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply