بُک ریویو:درِ ادراک پر اک نظر۔۔۔۔۔سردار عتیق احمد خان

اللہ رب العزت اپنے بندے سے اس کی شہ رگ سے قریب ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا مسکن ہوتا ہے۔میاں محمد بخش فرماتے ہیں:
؎ مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کُجھ ڈھیندا
پر بندے دا دل نہ ڈھائیں رب دِلاں دے وچ رہیندا

غالباًاسی نظریے کی تائید میں حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
؎ بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
اگر غور کیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ حضرت علامہؒاسی دل کی بات کررہے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا مسکن ہو۔جس دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے کھلے دشمن شیطان کا مسکن ہو، اس دل سے نکلی ہوئی بات ہدایت کی طرف نہیں گمراہی کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔پس جس دل سے حق کی بات نکلے اور اس طرح نکلے کہ خون جگر میں پیوسط ہو جائے، وہ دل مومن کا دل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے اس بندے کادل ہے جس پر اللہ کا فضل ہو چکا ہے۔راقم الحروف نے زیر تبصرہ کتاب درِادراک کے پہلے حصے مجموعہ دروسسے چند دروس کامطالعہ کیا،جس سے اندازہ ہوا کہ یہ کتاب تکرار کے ساتھ مطالعہ کیے جا نے کے لائق ہے اور یوں لگتاہے کہ اس کا مصنف کانوں میں ایک خوبصورت قسم کا رس گھول رہا ہے، جس سے سماعت کے منقطع ہونے سے دل کترا نے لگتاہے۔حکمت و تصوف اور معرفت وحقیقت کی یہ گفتگو یقینا محمد تہامی بشر علوی جیسے شخص کی ہی ہوسکتی ہے،جن کے نام سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی عام شخص نہیں ہو سکتا۔ان کے سینے میں وہی قلبِ مومن ہے جس کی نشاندہی حضرت علامہ اقبالؒ نے کی ہے۔
موصوف نے اپنے منفرد نوعیت کے نام کی طرح اس تصنیف کے نام کو بھی درِادراککا منفردعنوان دے کراردو سے اپنی محبت کا منفرد اظہار کیا ہے۔
کتاب ہذا میں مختلف موضوعات پراہم دروس شامل ہیں۔پہلا درس دوسرے تمام سے تقریباًطولانی ہے جس میں انسانی زندگی کیدو حصوں یعنی دنیاوی اور اُخروی زندگی پر بات کی گئی ہے اور دونوں زندگیوں کو پاکیزگی کے عنوان کے تحت بیان کیا گیا ہے۔
پاکیزہ زندگی کے لیے کیا کیا عناصر ضروری ہیں بڑی حکمت،دانائی اور آسان اور سہل الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں اور علم وفضل کے اعلیٰ مقام پر ہونے کے باوجود مشکل الفاظ و اصطلاحات کی بجائے آسان اور عام فہم الفاظ واصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔مثلاً پہلے درس کے آخر پر فرماتے ہیں:
بدی انسان کی بنیادی ضرورت نہیں ہے وہ بدی کے بغیر آسانی سے رہ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اگر کسی کو بہت سخت پیاس لگی ہے تو بعض اوقات آدمی اس پیاس کی وجہ سے بے ہوش تک ہو جا تا ہے۔ان بنیادی ضرورتوں سے رکنے کی مشق انسان کے لیے غیر ضروری امور سے رکنا آسان بنا دیتی ہے۔ایک آدمی اگر جھو ٹ نہ بولے تو کیا وہ بے ہوش ہو جائے گا؟ ہر گز نہیں۔جھوٹ بولنا اس کی کوئی ضرورت نہیں۔جھوٹی اغراض کی خاطر وہ جھوٹ کی برائی کو اپنا لیتا ہے۔ نہ بولے تواس کو کچھ نقصان نہیں ہوتا۔کوشش کرے تو وہ آسانی سے جھوٹ کو اپنی زندگی سے نکال سکتاہے۔
مجموعہ ہذا میں شامل ہر تقریر ایک نئے اور اچھوتے موضوع کا حکیمانہ اور عالمانہ انداز سے احاطہ کرتی ہے اور دوسری تقریر گزشتہ تقریر سے اس قدر پیوسطہ اور مربوط ہے کہ انقطاع کا گمان بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی چھوڑنے کو جی چاہتا ہے۔ ایسے میں شعور ولاشعور میں مصنف کا عجیب سا بلکہ ہمہ جہت حلیہ تعمیر ہوتا دکھائی دیتا ہے اور حسرت ِدید کے تجسس میں اضافہ کرتا ہے۔اس کتاب کے مصنف کی ان گنت خوبیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بڑی خوبی ہے کہ ان کی روزمرہ کی خوبصورت اور بامحاورہ زبان پڑھنے والے کے دل و دماغ پر منعکس ہو جا تی ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ایک انتہائی لکھاپڑھا عالم فاضل انسان مشکل الفاظ واصطلاحات کی بجائے نہایت آسان اور معاشرتی زبان میں کیسے اپنا ما فی الضمیر بیان کر رہا ہے۔مثال کے طور پر تقریر نمبر ()میں ایک مقام پر فرماتے ہیں:
لوگ اپنے مقتدا کی پیروی ذوقی امور میں بھی ذوق سے کیا کرتے ہیں۔ انہیں محبت کے اس فطری اظہار سے روکنا غیر فطری ہے۔مگر انھیں یہ معلوم ہونا چا ہیے کہ دینی اموراورذوقی امورمیں کیا فرق ہے؟یہ نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں نے ذوقی چیزیں اپنانا کافی سمجھ لیا ہے اور دینی اسوہ کو نظرانداز کر ڈالا ہے۔اس غلط فہمی کے باعث آپ کو کرتا پہننے والے تو معاشرے میں بہت مل جائیں گے لیکن گالیاں سن کر صبر کرنے والے کہیں مشکل سے ہی کوئی مل پائے گا۔حالانکہ کرتا پہننا کوئی خدائی مطالبہ نہیں ہے جب کہ غصہ پی جانا خدائی مطالبہ ہے۔غصہ پی جانا ایک دینی حکم ہے جب کہ کرتے کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔
تقریر نمبر () میں ایک مقام پر تجسس اور جاننے کی قوت کو دبا نے کے ذکر میں فرماتے ہیں:
بچہ جاننے کے لیے جب پوچھتا ہے تو یہ اس کے سوال کو سنجیدگی سے نہیں لیتے یہ اسے بے تو جہی سے ٹالنا چاہتے ہیں۔تنگ آکر ڈانٹ پلا دیتے ہیں۔یہ رویہ بچے کو کنفیوز کر دیتا ہے۔وہ پوچھنے لگتا ہے کہ اتنی حیرت ناک چیزوں کے بارے میں جاننے کے لیے اس کی مدد کیوں نہیں کی جا رہی؟
کیوں سوال پر اسے ڈانٹا جا رہا ہے؟اس طرح ان کے جاننے کا عمل جلد رک جا تا ہے۔وہ عمر بھربہت تھوڑا ساجان پاتے ہیں۔وہ ساٹھ سال میں اتنا جان پائیں گے جتنا کہ دس سال میں بآسانی جانا جا سکتا ہے۔وہی بچہ جو درخت کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا تھا،جب بڑا ہو جاتا ہے تو اس کے لیے درخت میں کوئی حیرت باقی نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔۔قرآن اس تجسس کو بحال کرانا چاہتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ شعور کی عمر میں یہ تجسس کام میں لا کر آپ نتائج اخذ کریں۔اس تجسس کا خاتمہ درحقیقت معرفت کا خاتمہ ہوگا۔
صاحبِ کتاب نے اس تجسس کو معرفت کے ساتھ جوڑنے کے لییاس آفاقی نظریئے کو حضرت علامہ اقبالؒ کے اس شعر سے نمایاں کیا ہے:
؎ لا پھر ایک بار وہی بادہ وجام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی
زیر تبصرہ دروس کے جتنے حصے کا مطالعہ کیا پتہ چلا کہ اس کے مصنف مابعدالطبیعاتی یعنی(Metaphysical world)کے شخص ہیں اور انہوں نے سیدھے سادے اور عوامی الفاظ میں معرفت کے جام چھلکائے ہیں۔اس نوع کے لوگ آمد کی دنیا کے سیاح ہوتے ہیں۔اوروں کے جھمیلوں سے الجھنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا اورنہ ہی یہ دوسروں کو اس قضیے میں پھنسنے کی ترغیب دیتے ہیں۔صاحبِ کتاب نے مرزاغالبؔ اور علامہ اقبالؒ کے اشعار وخیالات کو خوبصورت برتا ہے۔اس سے بلا شبہ غالبؔ کے عشق حقیقی میں ڈوبے اشعار اور علامہ اقبال ؒکے آرزو تجسس سے لبریز اشعار نے جیسے کہ سونے پہ سہاگے کا کام کیا ہے۔مصنف قاری کوفطرت شناس دل کی آرزو کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اس دل کی عظمت اور بڑائی کو حضر ت علامہ اقبالؒ کی زبان میں یوں پیش کر تا ہے:
؎ خدااگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیداکر
سکوت لالہ وگل سے کلام پیدا کرنا خواص کا ہی کام ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ لالہ وگل بظاہر گو کہ سکوت پذیر ہیں، لیکن حقیقت میں ہمکلام ہیں، جس سے خواص ہی آگاہ ہیں۔معرفت کے اس نوع کے خیالات کا حامل اگر نایاب نہ بھی سہی لیکن کم یاب ضرور ہے اور دور حاضر کی باطل نوعیت کی رعنائیوں کی چکاچوندمیں ایسے کم یاب لوگوں کی تلاش اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
مصنفِ کتاب ہذا جُز میں کل کو دیکھنے کے حوصلے کی بات کرتا ہے اور قطرہ میں دجلہ کو دیکھنے کے کمال تک پہنچنے کو مقصد حیات تصور کرتا ہے اور اپنے خیال کی تصدیق مرزا غالبؔ کے اس شعر میں سمجھتا ہے:
؎ قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزومیں کل
کھیل لڑکو ں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا
کتا ب کے مطالعے سے یوں لگتا ہے کہ انسان بلا خوف وجھجک فضا کی بلندیوں میں محو پرواز ہے اور اپنے حاشیہ تصور میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو دیکھ رہا ہے۔آخر پر صا حبِ کتاب کے لیے بارگاہِ ایزدی میں دعا ہے کہ ان کا زورِزبان و قلم اور زیادہ ہو اور ان کے قلب وذہن کی پاکیزگی اور بالیدگی میں روز بروز اضافہ ہو۔مصنف عشق حقیقی کے بحر میں غوطہ زن ہونے کو ما حصل زیست سمجھتا ہے اور بقول غالب یہ آرزو رکھتا ہے کہ:
؎ ہر بنِ مُوسیدمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب !
حمزہ کا قصہ ہوا عشق کا چرچہ نہ ہوا
راقم الحروف کو مکمل یقین ہے کہ تصنیف زیر تبصرہ حقیقت کے متلاشیوں کے لیے راہنمایانہ کردار ادا کرے گی۔بات صرف دل مومن کے حصول کی ہے اور یہ آرزو ہر کلمہ گو کو زندگی کے ہر موڑ پر کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مصنف کتاب ہذا اور اس کتاب کے قارئین کو جُز میں کُُل دیکھنے کی توفیق اور تجسس عطا فرمائے۔آمین

درِ ادراک مسٹر بکس، اسلام آباد سے حاصل کی جا سکتی ہے.

0313-6726657

Advertisements
julia rana solicitors

جناب سردار عتیق احمد خان  صاحب  سابق وزیراعظم آزاد کشمیر رہ چکے ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply